سادہ زمانوں میں ایسے لوگ مل جاتے جنہیں لڑکے بالے چھیڑتے اور جواب میں گالیاں لیتے۔ ایسی عورتیں بھی دکھائی دے جاتیں جنہیں لوگ تنگ کرتے اور جواب میں ننگی گالیاں کھاتے۔ الیکٹرانک میڈیا آج ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر لے آتا ہے۔ ان کو دانشور بنا کر شو میں بٹھاتا ہے اور پھر ان کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیتا ہے۔ دیوانے ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں۔ پتھر مارتے ہیں۔ ان کے ویڈیو سوشل میڈیا پر مقبولیت پاتے ہیں۔ غیر معروف اینکر راتوں رات معروف ہو جاتا ہے‘ تیسرے درجے کا چینل صف اول میں آ جاتا ہے‘ مہمانوں کو ہر چینل اور ہر پروگرام میں مدعو کیا جانے لگتاہے۔ یوں سبھی فریق فائدے میں رہتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا۔ ق لیگ کی حکومت میں ڈاکٹر شیر افگن نیازی کو گھیر لیا گیا۔ ان کی بزرگی کا خیال نہ رکھا گیا۔ میڈیا نے ان پر تشدد براہ راست دکھایا۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ عوام ق لیگ کے کس قدر خلاف ہو چکے ہیں‘ اسلام آبادمیں ایک ذہنی پریشانی میں مبتلا شخص گن لے کر سڑک پر کھڑا ہو گیا۔ ساتھ سہی ہوئی بیوی۔ براہِ راست نشریات کے ذریعے سارا ملک اس کی نحوست زدہ شکل دیکھتا رہا۔ کوئی چینل لائیو کوریج سے اس ڈر سے نکلنے کو تیار نہ تھا کہ ریٹنگ کم ہو جائے گی۔ میڈیا کا جنم کاروباری ضرورت کے تحت ہوا۔ آج بھی واٹس ایپ ‘ فیس بک ‘ ٹوئٹر سے لے کر سکائپ جیسی سہولیات عوام کے فائدے کا نعرہ لگاتی ہیں مگر یہ ان کا کاروبار ہے۔ اتنا بڑا کاروبار کہ ان کمپنیوں کے مالکان دنیا میں اربوں ڈالر کی صنعتوں اور تجارت کے مالک افراد سے زیادہ کما رہے ہیں۔، اگر آپ نے کچھ غور کیاہو تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر ہفتے میں ایک دو ایسی سٹوریز ضرور شائع ہوتی ہیں جو جنسی معاملات سے متعلق ہوتی ہیں۔ یقینا ہمیں جنسی تعلیم اور آگاہی کی ضرورت ہے مگر مغربی دنیا میں تعلیم اور آگاہی کا یہ تجربہ ہم سے پہلے کیا جا چکا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ امریکہ میں سب سے زیادہ ریپ ہو رہے ہیں۔،بچیاں جسم فروشی کرتی ہیں۔ ہماری عورتیں جس عمر میں خاندانی اور سماجی دانشمندی کا مرکز بن جاتی ہیں وہاں کی عورتیں اس عمر میں بھی جذباتی بیماریوں کی شکار ہوتی ہیں۔ ایک رات کے لئے ون نائٹ سٹینڈ سہارا اور جذباتی مدد فراہم کرنے والے کارکنوں کا تصور وہاں کی عورت اپنے حقوق کا حصہ سمجھ رہی ہے۔ پاکستان میں عورتوں کو بہت سے مسائل لاحق ہیں۔ ان مسائل کا تعلق قانونی اور آئینی رکاوٹ سے نہیں۔ یہ طبقاتی معاملہ ہے‘ پھر سے عرض کرتا ہوں خواتین حقوق کی بات صنفی نہیں طبقاتی معاملہ ہے۔ ایک تضاد بھرا ہوا ہے ہمارے سماج میں غریب عورت گھروں میں کام کرتی ہے۔ کھیتوں میں مشقت کرتی ہے‘ اب کارخانوں میں بھی مزدوری کر رہی ہے‘ ساتھ گھر کا کام اور شوہر کی خدمت الگ۔ اسی سماج میں کچھ عورتوں کوان کا خاندان کام کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر یہ بھی تضاد ہے کہ دیہی اور جاگیردار اشرافیہ کی عورتیں اپنے آبائی علاقوں میں پردہ کرتی ہیں۔ مگر شہروں میں وہ جس لباس میں چاہیں گھوم پھر لیتی ہیں۔ ہر طبقے نے اپنے اپنے ضابطے گھڑ رکھے ہیں۔ پاکستان کے تمام طبقات نے عورتوں کو کچھ رعائتیں دی ہیں اور اپنے طبقے کی اجتماعی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے پابندیاں بھی لگائی ہیں۔یہ جو حقوق نسواں کی تحریکیں ہیں یہ سماج کا روشن چہرہ ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے ہاں مقامی عورت کے مسائل کو ایک کلاس نے بیرونی ملکوں میں فروخت کیا۔ مجھے یاد ہے نامور سکالر ڈاکٹر شبیہ الحسن رضوی ایک دن زاہدہ کاظمی کو میرے دفتر لے آئے۔ زاہدہ کاظمی اسلام آباد میں ٹیکسی چلاتی ہیں۔ ہم نے ان کا انٹرویو شائع کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ خاتون پندرہ سال بعد بھی ٹیکسی چلا رہی ہیں۔ وہ خوش ہیں۔ لاہور میں کئی خواتین رکشہ اور ٹیکسی چلا رہی ہیں۔ ایک غریب عورت نے تندور سے کام شروع کیا اور اچھا خاصا کاروبار جما لیا۔ چند روز پہلے کوئٹہ میں خواتین حقوق کے لئے کام کرنے والی جلیلہ حیدر کو امریکہ میں مدعو کیا گیا۔ میلانیا ٹرمپ اور مائیک پومپیو نے انہیں انسانی اور خواتین حقوق کے لئے خدمات پر ایوارڈ دیا۔ یہ وہی جلیلہ حیدر ہیں جنہوں نے دو سال پہلے ہزارہ افراد کے قتل پر درد مندی اور پراثر انداز میں آرمی چیف سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔ عورت مارچ پر وقت سے پہلے گرما گرمی کا ماحول بنا دیا گیا۔ اب یہ ماحول کچھ لوگوں کی جیبیں بھرے گا۔ عورت کو مظلوم ثابت کئے بغیر کچھ ملے گا نہیں اس لئے جو عورتیں کام کی جگہ پر ہراساں ہو رہی ہیں، جن کو جائیداد میں سے قانونی اور شرعی حصہ نہیں مل رہا‘ جن کے شوہر ان کے حقوق ادا نہیں کر رہے اور جو شوہر یااولاد کی طرف سے ٹھکرائے جانے پر گلیوں میں بھٹک رہی ہیں‘ وہ بچیاں جو یتیم خانوں میں داخل ہیں اور ان کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ وہ عورتیں جو جیل میں ہیں مگر رات کو ان کی جیل کہیں اور چلی جاتی ہے۔ وہ عورتیں جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں مگر ان کے سکولوں میں کمرے ہیں نہ چار دیواری‘ وہ عورتیں جو اپنے خاندان کا معاشی بوجھ بانٹنے کو عار نہیں سمجھتیں‘ عورت مارچ میں ان کی نمائندگی نہیں۔ بہتر ہو گا ہر طبقے کی عورت اپنے طبقے سے اپنی محرومیوں کی تلافی کا تقاضا کرے۔ مجھے جو لفظ اور نعرے پسند نہیں میں ان کو تحریر نہیں کروں گا۔ صرف اتنی گزارش ہے کہ ایک سنجیدہ معاملے کو ہم اپنی ذمہ داری سمجھنے کی بجائے خلیل الرحمان قمر اور ماروی سرمد کے حوالے کر رہے ہیں۔ ان دونوں کا سودا بک گیا۔ میڈیا نے ریٹنگ حاصل کر لی۔ سماج کو کیا ملا‘ایک ہیجان‘ ایک انتشار‘ تقسیم کا ایک نیا حوالہ۔بس۔