گذشتہ ہفتے کا سندھ بیحد اداس رہا۔ اس بار سندھ کا اجرک صرف آنسوؤںسے نہیں بلکہ اس دھرتی کے مظلوموں کے خون سے نم رہا۔ وقت کبھی نہیں ٹھہرتا۔ وہ ہفتہ تو گذر گیا ہے مگر اس ہفتے کی یادیں سندھ کے دل میں بھرے ہوئے زخموںکے نشانوں کی طرح ہمیشہ نظر آتی رہیں گی۔ یہ ہفتہ کس قدر سست اور کس قدر سفاک تھا۔ اس ہفتے سندھ کے سوشل میڈیا پر ماتم برپا رہا۔ اس ہفتے سندھ کی آنکھیں مظلوم انسانوں کی لاشوں سے بھری رہیں۔ اس لیے اس بار اگر سندھ نے اپنا کوئی سیاسی اظہار بھی کیا تو ان مظلوموں کے حوالے سے سندھ انصاف کے لیے پکارتا رہا مگر سندھ کی ’’سائیں سرکار‘‘ اپنی قیادت کو کرپشن کے مقدمات سے بچانے کی کوشش میں مصروف رہی۔ اس لیے سندھ کے وزیر اعلی ان غریب خاندانوں کے پاس نہیں گئے جو بدمعاشی کا شکار ہوئے تھے۔ ان خاندانوں نے اب تک ان کپڑوں کو سنبھال کر رکھا ہے جن کپڑوں پر ان کے بے گناہ اور معصوم مقتولوں کے خون کے دھبے ہیں۔ اس بار فیض احمد فیض کی سالگرہ آئی تو سندھ نے ان سے ان کے الفاظ میں پوچھا: ’’خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟‘‘ اس سوال کا جواب فیض احمد فیض کے پاس بھی نہیں تھا۔ کیوں کہ اس خون کی سرخی سیاسی نہیں تھی۔ یہ خون غربت اور بے انصافی کی وجہ سے بہا۔ یہ خون پہلی بار نہیں بہا۔یہ خون تو ہمیشہ بہتا رہا ہے۔ مگر اب سندھ کو یہ ہمت اور حوصلہ ہوا ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں سے پوچھے : ’’کب ٹھہرے گا درد اے دل؛ کب رات بسر ہوگی سنتے تھے کہ وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی‘‘ نہ وہ آئے اور نہ اس سندھ کے مقدر میں وہ سحر آئی جس سحر کے لیے مرحوم رسول بخش پلیجو نے اپنی مشہور کتاب لکھی تھی۔ جس سحر کے لیے ساحر لدھیانوی نے ناقابل فراموش نظمیں لکھی تھیں۔ جس سحر کا انتظار ان آنکھوں کو بھی تھا جو آنکھیں اب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکی ہیں۔ وہ آنکھیں اپنے آپ بند نہیں ہوئیں۔ ان آنکھوں کو زبردستی بند کرایا گیا۔ گذشتہ ہفتے کے دوران بند ہونے والی ان آنکھوںمیں دو آنکھیں اس معصوم بچی کی تھیں جس بچی کا نام رمشا تھا۔ رمشا کی عمر 13 برس تھی۔ تیرہ برس کی اس بچی پر ’’کارو کاری‘‘ کا الزام عائد کیا گیا ۔ اس بچی کو گھر میں گھس کر اس کے قبیلے کے اس مجرم نے قتل کیا جس پر پہلے سے بیس سے زائد مقدمات درج ہیں۔ ان مقدمات میں کئی مقدمات قتل کے ہیں۔ اگر وہ درندہ صفت شخص قانون اور انصاف کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا تو 13 برس کی رمشا اتنی بے رحمی سے قتل نہ ہوتی۔ آپ کو معلوم ہے اس دبلی پتلی بچی پر ذلفو نامی مجرم نے کتنی گولیاں چلائیں؟ اس نے رمشا پر کلاشنکوف کا پورا میگزین خالی کیا۔ کیا حشر ہوا ہوگا اس معصوم بچی کا؟ اس سوال پر سوچ کر سندھ آبدیدہ ہوگیا۔ سندھ کے باشعور افراد نے سوشل میڈیا پر خیرپور کی اس بچی کے لیے اس قدر شدید مہم چلائی کہ سیاسی دباؤ کے باوجود رمشا کا قاتل گرفتار ہوگیا۔ رمشا کا قاتل گذشتہ روز عدالت میں پیش کیا گیا۔ پولیس نے عدالت میں جے آئی ٹی کی وہ رپورٹ بھی پیش کی جس میں لکھا ہوا تھا کہ ’’ملزم نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے رمشا کے علاوہ اور بھی بہت سارے قتل کیے ہیں ۔ اس کے ڈاکوؤں سے قریبی مراسم رہے ہیں۔ اس پر جو مقدمات قائم ہوئے ان سے بچانے کے لیے اس کے قبیلے کے وڈیرے اور پیپلز پارٹی کے سابق وزیر نے اہم کردار ادا کیا ۔اس نے اپنے پرانے ساتھی اور سندھ کے سابق وزیر داخلہ کی معرفت اس شخص کی قانونی مدد کی جس شخص نے وسان قبیلے کی معصوم بچی کو بے دردی سے قتل کردیا۔ ابھی خیرپور کی سرد دھرتی پر بنی ہوئی رمشا کی قبر کی مٹی سوکھی بھی نہ تھی کہ کراچی میں ایک سندھی نوجوان ارشاد رانجھانی پر ڈکیتی کا الزام لگا کر ایک یوسی چیئرمین رحیم شاہ نے گولیاں چلائیں اور اس کو سڑک پر تب تک تڑپاتا رہا جب تک اس کی سانس کی ڈوری ٹوٹ نہ گئی۔ ارشاد رانجھانی کا قتل جن حالات میں ہوا اس پر فوری طور ایک انکوائری کمیشن قائم کرنے کی ضرورت تھی مگر حکومت سندھ نے اس واقعے کے حوالے سے احتجاج کی آگ بھڑکنے دی۔ حکومت سندھ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مرنے والا شخص سندھی اور اس کو مارنے والا پٹھان ہے۔ اس لیے یہ معاملہ نسلی اور لسانی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے مگر اس بار سندھ حکومت نے جان بوجھ کر دیر کی۔ سندھ حکومت چاہتی تھی کہ وہ سندھ کارڈ پھر سے چارج ہوجائے جس کو پیپلز پارٹی نے بڑی بے قدری سے استعمال کیا ہے۔ اب جب آصف زرداری کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہے تب پیپلز پارٹی کو وہ کارڈ خالی نظر آیا۔ اس کارڈ میں تعصب اور نفرت بھرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ کے قوم پرست حلقوں کو احتجاج کرنے دیا۔ سندھ کے قومپرست اور ان کے زیر اثر حلقے پہلے سوشل میڈیا پر احتجاج کرتے رہے اور بعد میں وہ احتجاج سڑکوں پر بھی آگیا۔ کراچی کی مصروف ترین سڑک ’’شاہراہ فیصل‘‘ پر ہونے والے اس احتجاج نے سندھ میں ان غریب اور معصوم پشتونوں کے لیے عدم تحفظ کا ماحول پیدا کردیا ہے جو پورے سندھ میں محنت اور مزدوری کرتے ہیں۔ تین دن قبل ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی شہر نوڈیرو میں ایک رکشے پر بیٹھے ہوئے تین محنت کش پشتونوں پر گولیاں چلا کر قتل کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد سندھ کے سوشل میڈیا پر یہ خوف چھا گیا کہ کہیں سندھ نسلی فسادات کی طرف تونہیں بڑھ رہا؟ اس سوال نے سندھ حکومت کے علاوہ باقی سارے باشعور انسانوں کو بہت پریشان کردیا ہے۔ اس وقت جب سندھ حکومت عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہے اس وقت وہ پورے سندھی معاشرے کو عدم تحفظ کا شکار بننے سے اگر نہیں روکتی تو اس کا بھی کوئی مقصد ہوسکتا ہے۔ کس نے سوچا تھا کہ کراچی کے ایک پٹھان بیوپاری کے ہاتھوں ایک سندھی نوجوان کے قتل کے بعد لاڑکانہ کے قریبی شہر نوڈیرو میں تین پشتون محنت کشوں پر حملہ ہوگا اور وہ تینوں مظلوم مقتول ہوجائیں گے۔ ابھی عوام کے درمیاں محبت شروع ہوتی ہے تو نفرت کے بیوپاری سرگرم ہوجاتے ہیں۔ پٹھان مزدوروں کے قتل پر سندھ کا سوشل میڈیا اس طرح احتجاج کر رہا ہے جس طرح وہ رمشا اور ارشاد رانجھانی کے قتل پر کر رہا تھا۔ سندھ کے دل کا دامن بہت وسیع ہے مگر اس دامن میں درد کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ درد سندھ کے سینے میں سلگ رہا ہے۔ سندھ کو اس درد سے نجات کب ملے گی؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ اس بار سوشل میڈیا پر جب مظلوم مقتولوں کے سلسلے میں احتجاج ہو رہا تھا تب فیض صاحب کی سالگرہ کے قریب آنے کی کوئی پوسٹ دکھائی دی۔ اس بار فیض صاحب کے کلام سے کسی عاشقانہ شعر کا انتخاب کرنے کے بجائے کیوں نہ سندھ کے غریب مقتولوں کے نام فیض صاحب کے یہ اشعار کیے جائیں : ’’نہ مدعی،نہ شہادت حساب پاک ہوا یہ خون خاکِ نشیناں تھا نظر خاک ہوا!‘‘