وہ پاکستانی ہی کیا جس کا اپنی پوری زندگی میںکم سے کم ایک مارشل لا، الیکشن، دھاندلی،ہڑتال، سرکاری ریکارڈ کی آتش زدگی ، کالا باغ ڈیم پہ احتجاج اور وی آئی پی موومنٹ سے پالا نہ پڑا ہو جسے عرف عام میں روٹ لگنا کہتے ہیں ۔چناچہ آپ نے گھنٹوں روکے گئے ٹریفک میں بیزار کن انتظار کے دوران دور تک سنسان سڑک دیکھی ہوگی۔ پھر نیلی بتی والی موٹرسائیکلوں اور سائرن لگی گاڑیوں کی ایک ڈار نمودار ہوتی تو کچھ امید بندھتی کہ اب جس منحوس نے گزرنا ہے وہ گزر ہی جائے گا۔اس کے بعد چمکتی لشلشاتی کاریں ایک ایک کرکے زناٹے سے گزرتیں جو دلوں اور کرتوتوں سے بھی کالی ہوتیں۔ان ہی میں صاحب بہادر کس گاڑی میں براجمان ہیں اس کا علم صرف نیلی کتاب والوں کو ہوتا۔روٹ میں پھنسے پسینے میں شرابور عوام الناس میں سے اکثر کی بلا جانے کہ ان کا میک اور ماڈل کون سا ہے۔کچھ وہ گزرتیں بھی اس برق رفتاری سے کہ اس کی نوبت بھی نہ آتی یوں بھی گھنٹوں کی خوار پبلک اس وقت تک اس حد تک بیزار ہوچکی ہوتی کہ صرف پتھرائو کی کسر رہ جاتی۔یہ وہی عظیم الشان سواریاں ہیں جن میں سے کچھ اس پروٹوکول کا حصہ ہوتی ہوں گی جس سے آپ کا کبھی نہ کبھی پالا پڑا ہوگا۔ باقی تو آپ کی نظر بد سے بھی محفوظ رکھی گئی تھیں کہ خوامخواہ آپ احساس کمتری کا شکار نہ ہوجائیں اور حکمرانوں کی سادہ زندگی کے متعلق شر انگیز وسوسے اور فسادی خیالات سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ گاڑیاں اب نیلام ہوں گی جن کا دیدار آپ نے اس حکومت کی سادگی مہم کے توسط سے کرلیا ہے۔ سچ کہیے تو کیا آپ کو معلوم تھا کہ وزیراعظم ہاوس میں قیمتی گاڑیوں کا ایسا عظیم الشان فلیٹ ہوگا؟۔یہ نیلامی وزیر اعظم کی سادگی مہم کا ایک حصہ ہے جس کے تحت کچھ بچت اقدامات ابتدائی ایام میں ہی اٹھا لیے گئے تھے۔گو وزیر اعظم ہائوس میں نہ رہنا یا صدر اور گورنروں کا پریزیڈنٹ ہائوس اور گورنر ہائوس کی بجائے چھوٹی اور کم خرچ رہائش اختیار کرنا بظاہر اتنے موثر اقدامات نظر نہیں آتے لیکن گھر کا ایک ایک فرد قرض میں جکڑا ہوا ہو تو آپ اپنے کمرے سے نکلتے ہوئے پنکھا اور بتی بند کرکے ہی نکلتے ہیں۔یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ بجلی کی بچت کے لئے آپ سے جو بن پڑا آپ کریں گے۔ اس قسم کے بظاہر چھوٹے اور غیر متاثر کن اقدامات بحرانی معیشت کا شکار ممالک اٹھاتے رہے ہیں اور کامیاب بھی ہوتے رہے ہیں۔بھارت میں کانگریس کی حکومت نے وزرا کے بلاضرورت بیرونی دورے کم کئے اور بغیر منصوبہ بندی کے اخراجات میں دس فیصد کٹوتی کی جن میںغیر ضروری سرکاری سیمینار وں کی تعداد پہ نہ صرف پابندی لگائی بلکہ ان کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں انعقاد پہ بھی قدغن لگائی۔نئی سرکاری ملازمتیں جو وزرا اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت نکالتے اور من پسند تعیناتیاں کرتے جن سے قومی خزانے پہ غیر ضروری بوجھ پڑتا، پابندی لگا دی گئی۔وزراتوں میں نئی گاڑیوں کی خرید پہ پابندی لگائی گئی۔وزرا اور سینئر بیوروکریٹس کو اکانومی کلاس میں سفر کا پابند کیا گیا۔ابھی کراچی سے اسلام آباد واپسی کے موقع پہ ہمارے صدر اور وزیراعظم نے ایک ہی طیارے میں سفر کیا جس سے فیول کی بچت ہوئی۔ائیر فیلڈ بھی نہ روکے گئے جس سے فضا میں لینڈنگ کے منتظر طیاروں کا ایندھن ضائع ہونے سے بچ گیا۔ پرتگال نے 2011ء میں پبلک سیکٹر میں اعلی تنخواہ لینے والے افراد کی تنخواہوں میں 5% کٹوتی کی۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس میں اضافہ کیااور اعلی بریکٹ کا ٹیکس دینے والوں کے ٹیکس میں اضافہ کیا اور تو اور دفاعی بجٹ میں بھی کٹوتی کردی۔یہ البتہ آئی ایم ایف کے بیل آوٹ کی شرائط تھیں لیکن اس سے چونکہ عام تنخواہ دار طبقہ متاثر نہیں ہورہا تھا اس لئے یہ شرائط تسلیم کرلی گئیں۔ اٹلی میں 2012 میں جب قومی قرضہ کل قومی پیداوار کا 120 فیصد ہوگیا تو مونٹی ماریو نے اپنے پیش رو برلسکونی کے سادگی پروگرام میں اضافہ کردیا۔تین سال کے لئے تمام سرکاری محکموں کی تنخواہیں روک دی گئیں لیکن سرکاری ملازمین کے لئے دیگر سہولیات جیسے رہائش، یوٹیلیٹی بل، بچوں کی تعلیم اور علاج برقرار رکھی گئی۔ہر چھوڑ جانے والے پانچ ملازموں کی جگہ ایک ملازم بھرتی کیا جاتا۔صحت کی مد میں فیسوں میں اضافہ کیا گیا لیکن زیادہ پینشن وصول کرنے والوں کی پینشن میں کٹوتی کی گئی جبکہ مالدار ٹیکس دہندگان کے ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا۔یونا ن میں بھی ویلیوایڈڈ ٹیکس چار فیصد بڑھایا گیا، سرکاری ملازموں کے بونس اور الاونس میں کٹوتی کی گئی اور ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد دو سال بڑھا دی گئی جبکہ چار سال تک سرکاری ملازمتوں پہ پابندی لگادی گئی۔سپین نے 2012 میں اپنا بجٹ خسارہ کل قومی پیداوار کا 5.3% تک کرنے کے لئے اپنے سادگی بجٹ کا اعلان کیا جس کے تحت سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں پانچ فیصدکٹوتی کی گئی۔ٹاپ انکم بریکٹ ٹیکس میں اضافہ کیا گیا۔تمباکو پہ 28% ٹیکس بڑھا کر انفرااسٹرکچر میں بھی تیس فیصد کمی کردی گئی۔سرکاری محکمہ جاتی اخراجات سترہ فیصد تک کم کردئے گئے۔ صرف ان ہی ممالک پہ موقوف نہیں بلکہ معاشی طور پہ مستحکم ممالک بھی اس قسم کے سادگی بجٹ بناتے اور اخراجات میں کٹوتیاں کرتے رہتے ہیں۔ 2011 ء میں ہی جرمنی نے بھی اپنے اخراجات میں تین سال کے اندر اسی بلین یورو کی کٹوتی کی ۔ اخراجات میں یہ کمی دفاع کی مد میں فوج کی افرادی قوت میں کٹوتی کرکے اور جوہری توانائی کا نیا ٹیکس لگا کر کی گئی جبکہ سول سروس سے بھی دس ہزار اضافی ملازمین فارغ کئے گئے۔برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنے اخراجات میں کمی کے لئے باقاعدہ پروگرام شروع کیا تھا جسے گیڈیس ایکس پروگرام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کے برطانیہ کی معیشت پہ مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہوئے تھے۔2010-12 کے دوران جی ڈی پی کا دس فیصد بجٹ خسارہ کم کرنے کے لئے حکومتی اخراجات میں نمایاں کمی کی گئی جو گیڈیس ایکس پروگرام کے بعد سب سے بڑی کٹوتی تھی۔ چار سال کے دوران تقریبا پانچ لاکھ پبلک سیکٹر ملازمتیں ختم کردی گئیں،محکمہ جاتی اخراجات 25% کم کردیے گئے۔ویلیو ایڈڈ ٹیکس تین فیصد بڑھایا گیا۔اگرچہ کچھ ٹیکس عوامی احتجاج کے باعث واپس بھی لینے پڑے۔کیوبا نے گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے ٹیلی وژن کی نشریات کا دورانیہ تک کم کردیا۔اسٹریٹ لائٹس بند ایک خاص وقت کے بعد بند کردی جاتیں۔ریستوران اور تھیٹر بند کر دیئے گئے۔ائیر کنڈیشنر کم سے کم چلائے جانے لگے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت کا وقفہ بڑھا دیا گیا ۔ اس طرح بارہ فیصد توانائی کی بچت کی گئی۔لیٹویا نے تو وزارتوں کی تعداد ہی کم کردی کہ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔کینیڈا نے نوے کی دہائی میں جی ڈی پی کا صرف چھ فیصد خسارہ بڑھنے پہ وہ کٹوتیاں کیں کہ صرف تین سال میں یہ خسارہ منافع میں بدل گیا۔ظاہر ہے ایسا محض اخراجات میں کمی کرکے نہیں کیا ہوگا۔ نہ ہی ایسا ممکن ہوتا ہے دیگر معاشی اصلاحات کے ساتھ ہی اخراجات میں کٹوتیاں نافع ثابت ہوتی ہیں اگر یہ اپنے قومی مفادات اور عوام کی سہولت کو مد نظر رکھ کر کی جائیں۔ اگر یہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی فرمائش پہ مزید بیل آوٹ کے لئے کی جائیں تو ان کا نہ صرف نقصان ہوتا ہے بلکہ حکمرانوں کی پرتعش زندگیوں کا نظارہ کرتے عوام میں اشتعال کی شدید لہر پیدا ہوتی ہے۔ نواز شریف حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لی تھیں جو سب کی سب عام اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی عوام کا خون نچوڑنے کے لئے رکھی گئی تھیں۔ اس کے بدلے میں ستمبر 2013 میں حکومت نے آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالر کا بیل آوٹ حاصل کیا تھا۔یعنی عوام کو سبسڈی سے محروم تو کیا گیا لیکن اپنی عیاشیوں اور اللے تللوں میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔حکومتی اخراجات میں کٹوتی کی حیثیت عموما علامتی ہوتی ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہوتی ہے کہ اگر خراب معیشت سے عوام متاثر ہوئی ہے تو حکمران بھی کوئی سونے کے نوالے نہیں توڑ رہے۔حالیہ معاشی بحران میں یونان کے وزیراعظم کو سائیکل چلاتے آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔یہ اس بات کا اعلان تھا کہ بدترین معاشی بحران میں وہ اپنے عوام سے الگ کوئی مخلوق نہیں ہے ۔دیکھا جائے تو حکمرانوں کا عوام سے یہ اظہار یکجہتی ہی بعض اوقات وہ نتائج لے آتا ہے جو بڑے پروگرام بھی نہیں لاپاتے۔ انقلاب فرانس اس لئے رونما نہیں ہوا تھا کہ فرانس قرضوں میں جکڑا ہوا تھا اورمعیشت جنگ سے بدحال ہوچکی تھی بلکہ اس لیے کہ عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے جارہے تھے ، حکمران طبقہ لایعنی آئینی مباحث میں الجھا ہوا تھا اور ملکہ معظمہ اپنے بپھرے ہوئے بھوکے لوگوں کو مشورہ دے رہی تھی کہ وہ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ وزیراعظم کی سادگی مہم کو تفنن کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ایسا ان دانشوروں کے لئے بے حد مرغوب کام ہوگا جو انقلاب فرانس کی مثال دیتے نہیں تھکتے تھے۔انہیں شاید پرامن انقلاب پسند نہیںآرہا۔