عمران خان کی شخصیت اور ان کے طرزِ حکمرانی میں ہزار خامیاں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ ہم کل بھی مانتے تھے ۔ آج بھی مانتے ہیں۔ وقتِ مقررہ پر معمول کے مطابق انتخابات ہوتے تو محض ایک شخص کہ پورا پنجاب جس کے حوالے کر دیا گیا تھا، تنہا عمران حکومت کے زوال کے لئے کافی تھا۔ مہنگائی کے باعث حکومتی ارکانِ اسمبلی کیلئے اپنے ووٹروں کو عالمی حالات اور وباء کے اثرات سمجھانا دن بدن مشکل ہورہا تھا۔اندازہ یہی تھا کہ حکومت عوام میں مقبولیت کھو چکی ہے۔اُدھرامریکی اثرورسوخ کا یہ عالم ہے کہ طاقتوریورپی ریاستیں بھی امریکیوںکے ساتھ براہ راست الجھنے سے کتراتی ہیں۔ عمران خان صرف امریکہ ہی نہیں پورے یورپ کو للکارنے لگے تھے۔ دونوں بڑے سیاسی خاندان مگر مغربی دارلحکومتوں سے رابطے میں رہے۔صدر بائیڈن نے اقتدار سنبھالا تو گٹھ جوڑ زور پکڑنے لگا۔عمران خان کو ہٹائے جانے کی صورت میںہم جیسے مگر لکھتے رہے کہ وہی مخصوص سیاسی خاندان ملک پر ایک بار پھر مسلط ہو جائیں گے۔ ہم جیسوں کو کبھیcult تو کبھی’ عمران لورز ‘کا نام دیا ۔ عمران خان کی حکومت اب گر چکی ہے۔ کس طرح گری؟ اس کے اخلاقی تو کیا قانونی پہلوئوں سے بھی کسی کو سرو کار نہیں۔ لوٹا کریسی، سازش، عمران حکومت کے اتحادیو ں سے سرِ عام بھائو تائو، کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں۔چنانچہ جب جمہوریت کو بہترین انتقام کہا جاتا ہے تو اُسی جمہوریت سے گھن آنے لگتی ہے۔ کسی اور سے نہیں ہمیں فقط جمہوریت پسند لبرلز سے گلہ ہے۔اعلیٰ جمہوری و اخلاقی اقدار ، انسانی حقوق اور تحریر و تقریر کی آزادی کے جو راگ الاپتے نہیں تھکتے تھے۔باپ بیٹی کو جو جمہوری نجات دہندہ بنا کر پیش کر رہے تھے۔کہتے تھے ماضی سے انہوں نے بہت کچھ سیکھ لیا۔کرپشن کے مقدمات جن کے غیر معمولی التواء کا شکار تھے۔ جمہوریت پسند لبرلز اور ان کے حمایتی میڈیاکے سامنے مگر صرف ایک ہی مقصد تھا، ’ہائبرڈ نظام ‘ کو گرانا،عمران خان کی حکومت کو گرانا۔سو ہو چکا۔ درجن بھر سیاسی خاندان اقتدار میںواپس لو ٹ چکے۔ سوچا گیاتھا کہ راوی سب چین لکھے گا۔سب ہنسی خوشی بسر کریں گے۔ اندازے کی غلطی مگر بہت سنگین نکلی۔ عوامی ردعمل کا کسی کو بھی اندازہ نہ ہو سکا۔ پاکستانی مڈل کلاس بالخصوص کروڑوں نوجوان ، سمندر پار پاکستانی اور لاکھوں ریٹائرڈ فوجی اور ان کے خاندان سخت برہم ہیں۔ دنیا بھر کے دارلحکومتوں میںپاکستانی جس طرح سڑکوں پر نکلے کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ یہ تو معلوم تھا کہ سابقہ فوجی افسروں(Veterans) کی اکثریت عمران خان کی حمایت کرتی ہے، مگراس قدر شدت کے ساتھ؟اب جُز بُز پھرتے ہیں۔ ریٹائرڈ افسروں کی تنظیموں کو ادھیڑ کر رکھ دینے کا ارادہ ہے۔ کچھ عناصر ہیں جو اب بھی سمجھتے ہیں کہ غصے کی لہرعارضی ہے، جلد گزر جائے گی۔کچھ کا خیال ہے کہ مڈل کلاس والے ہیں ،سڑکوں پر پولیس کا لاٹھی چارج سہنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہ مگر نہیں جانتے کہ کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کو بدلنا اب کسی کے بس کی بات نہیں۔ خاندانی حکمرانی کی شکل میں ملک پر الیٹ گروہوں کے قبضے کو جو اب تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ معاشرے کے ہر طبقے ، ہر شعبے میں موجود ان طاقتور گروہوں سے جڑے نیٹ ورک سے جو اَب پوری طرح واقف ہیں۔پوری طرح بیزار ہیں۔ ’یکطرفہ اسمبلیوں ‘میں حکومتی ارکان کھڑے ہوتے ہیں اور سابقہ حکومت کی ناکامیاں گنواتے ہیں۔ ناکامیاں گنوانے کے نہیں ، اب کام کرنے کے دن ہیں۔ کوئی اور جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، شہباز شریف جانتے ہیں۔ تحریکِ عدم اعتماد کا ہنگامہ تمام ہوا۔ کابینہ کی تشکیل کاپہاڑ سر ہوا۔ اب سیاسی اور معاشی مشکلات سے نمپٹنے کاوقت ہے۔عمران خان نے سیاسی دبائو قائم کر رکھا ہے۔ تمام تر دھمکیوں، توشہ خانہ جیسی کردار کشی اور ناموافق میڈیا کے باوجود اپنے سخت مئوقف سے پیچھے ہٹنے کوجو تیار نہیں۔ معیشت سامنے پڑی اُکھڑتے سانس بھرتی ہے۔یوکرین پر روسی حملے نے یورپی ممالک تک کو پٹرول کی راشنگ پر سوچنے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔ ہم کب تک یوں اندھا دھند لئے گئے بیرونی قرضوں کے بل پر مہنگے داموں تیل عالمی منڈی سے خرید کر سستے داموں بیچ سکتے ہیں۔ ہمارے نئے وزیرِ خزانہ امریکہ پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ اس بار بوجہ عالمی مالیاتی اداروں سے جارحانہ رویے کی بجائے ’مشفقانہ‘ سلوک کی امید ہے، تاہم کچھ شرائط تو بہرحال ماننی ہو ںگی۔مختلف مدوں میںدی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ یقینا سر فہرست ہو گا۔پٹرول کی قیمت آج نہیں تو کل بڑھانا ہو گی۔ مین سٹریم میڈیا اس وقت نئی حکومت کے ساتھ کھڑا ہے، مگر سوشل میڈیا کے تیور کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ خاندانی حکومت کا ہی خاصہ ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے سری لنکا کی معیشت دنوں کے اندر دھوپ میں رکھی موم کی طرح پگھل گئی ہے۔خشک سادہ روٹی کے حصول کے لئے سری لنکن عوام قطاروں میںکھڑے نظر آرہے ہیں۔ پچاس سال پہلے خطے میں سری لنکا آزاد معاشی منڈی کی بنیاد رکھنے والا پہلا ملک تھا۔ آزاد معاشی ادارے مگر قائم نہ کرسکا۔ مقتدر گروہ سر ی لنکن عوام کی تقدیر کے مالک بنے رہے۔رہی سہی کسر 26سالہ خانہ جنگی نے پوری کر دی۔ سال2009ء میں معیشت میں ابھار آیا بھی تو مستحکم معاشی انفرا سڑکچر کی عدم موجودگی میںعارضی ثابت ہوا۔ حکومت ایک خاندان کے ہاتھوں میں رہی۔ چارعدد راجہ پکسا بھائی بیک وقت صدر، وزیرِ اعظم، وزیرِ دفاع اور وزیرِ خزانہ تھے۔سیاسی عدم استحکام پر قابو پانے کے لئے راجہ پکسا بھائیوں نے صدر کے عہدے کو طاقتور بنا کر اختیارات کے ارتکاز میں حل ڈھونڈا۔ سیاسی عدم استحکام کے اندر بحران سے نمٹنے کے لئے سخت اور دوررس فیصلوں کی گنجائش مگر باقی نہ رہی۔ کرونا کی وباء پھیلی تو سیاحت کی صورت آنے والے زرِ مبادلہ کے سوتے سوکھ گئے ۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی تو دور کی بات، اب سری لنکا کے پاس لازمی درآمدات کے لئے بھی زرِ مبادلہ دستیاب نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اور سری لنکا کی سیاسی اور معاشی صورت حال میں کس قدر مشابہت پائی جاتی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی کم از کم پانچ سو سالہ تاریخ توہمیں یہ بتاتی ہے کہ کبھی ایک بار بھی الیٹ گروہوں سے نجات اورخود مختار سیاسی اور معاشی اداروں کے قیام کے بغیر کوئی ایک ملک بھی دیر پا ترقی کی منزل نہیں پا سکا۔ عمران خان کی شخصیت اور طرزِ حکمرانی میں ہزار خامیاں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ہم کل بھی مانتے تھے ۔ اب بھی مانتے ہیں۔خاندانوں کی حکمرانی اور الیٹ طبقات کے گٹھ جوڑ کے سامنے مگر آج وہی عمران خان مزاحمت کا استعارہ بن گیا ہے۔ زیرِ زمین لال انگارہ بھاپ اُڑاتاسیلِ رواں ہے، آج نہیں تو کل ضرور پھٹ پڑے گا۔