وفاقی کابینہ نے حجاج کرام کو زرتلافی دینے کی تجویز مسترد کر دی‘فتویٰ جاری ہوا کہ حج صرف انہی پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں حکومت زرتلافی (Subsidy) دے کر قومی خزانے پر پانچ ارب روپے کا بوجھ نہیں ڈال سکتی۔ مجھے برصغیر کے نامور خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری مرحوم سے منسوب واقعہ یاد آگیا۔ شورش کاشمیری مرحوم راوی ہیں کہ اسلامیہ کالج امرتسر کے طلبہ کا ایک وفد شاہ جی سے ملا۔ خوب سوال و جواب ہوئے‘ معاً شاہ جی نے طلبہ سے کہا ’’بچو! آپ لوگ داڑھی کیوں نہیں رکھ لیتے؟ سنت رسولﷺ ہے‘‘۔ ایک شوخ و شنگ لڑکا بولا شاہ جی! کالج میں داڑھی رکھنا مشکل ہے لوگ مذاق اڑائیں گے۔’’ہاں بیٹا اسلامیہ کالج میں داڑھی رکھنا مشکل ہے خالصہ کالج میں آسان‘‘ حکومت کا یہ استدلال درست ہے کہ حج صرف ان لوگوں پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔ مگر حکومت باقی کسی معاملے میں بھی قرآنی احکام پر اتنا ہی سختی سے عمل پیرا ہے جتنا اسے حج اخراجات کے حوالے سے شرعی ہدایات یاد آ رہی ہیں؟ یہ سوال اہم ہے۔ قرآن مجید میں سود کے لین دین کو اللہ تعالیٰ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا مگر یہ کاروبار ڈھٹائی سے جاری ہے اور حال ہی میں آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لئے موجودہ حکومت نے شرح سود میں ہوشربا اضافہ کیا ہے۔ وزیر اعظم اور کابینہ کے کسی رکن کو اسلام یاد رہا نہ قرآن مجید اور نہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف۔ آئی ایم ایف کا خوف غالب آ گیا۔ عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے عوام کی اکثریت کو تمام تر بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اسلام سے جذباتی لگائو ہے اور حضور سرورکائناتﷺ سے محبت و عقیدت اس کا سرمایہ حیات۔ ہر کلمہ گو کی زندگی بھر یہ خواہش رہتی ہے کہ وہ پائی پائی جوڑ کر دیار رسولﷺ کا سفر کرے اور فریضہ حج کی ادائیگی کے علاوہ روضہ رسولﷺ پر حاضری دے کر اپنی عافیت سنوارے۔ ملائشیا‘ انڈونیشیا اور برونائی سمیت کئی مسلم ممالک میں حجاج کرام کو اس فرض کی ادائیگی کے لئے قابل قدر سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جن میں فضائی کرایوں‘ رہائش اور خوراک میںحکومتی زرتلافی بھی شامل ہے۔ بھارت میں 1973ء سے 2018ء تک سیکولرزم کا بھرم رکھنے کے لئے ہر سال زرتعاون کا اہتمام کیا جاتا تھا۔2012ء میں کانگریس حکومت نے سب سڈی ختم کرنے کا پروگرام بنایا اور رٹ پٹیشن کے ذریعے سپریم کورٹ سے فیصلہ لے لیا کہ زرتعاون ختم کر دیا جائے مگر اپنی انتہا پسندی اور مسلم دشمنی کے باوجود نریندر مودی نے برسر اقتدار آنے کے بعد فوری عملدرآمد کے بجائے بتدریج چار سال کے عرصے میں خاتمے کی راہ اپنائی۔ تاہم بھارتی عازمین حج کے لئے پاکستان کی نسبت حج اب بھی سستا ہے۔ ملائشیا میں تو زر تلافی کا حجم اس قدر زیادہ ہے کہ نجی کمپنیاں سفر حج کے اخراجات تیس سے چالیس ہزار رنگٹ فی حاجی وصول کرتی ہیں مگر سرکاری سطح پر صرف نو ہزار نو سو اسی رنگٹ لاگت آتی ہے دوگنا کم۔ ظاہر ہے کہ باقی اخراجات حکومتی خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں۔ ملائشیا عمران خان کارول ماڈل ملک ہے وہاں !Tabung Hajکے نام سے ایک ادارہ قائم ہے جو حج کے خواہش مندوں کو یہ ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنی بچتیں اس ادارے میں جمع کرائیں ‘ دس ہزار رنگٹ جمع ہونے پر انہیں حج کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ برونائی میں سرکاری ملازمین کو حج کی مفت سہولت حاصل ہے اور انڈونیشیا بڑی آبادی کے باوجود زرتلافی دے رہا ہے۔ ان ممالک میں کسی صدر‘ وزیر اعظم‘ وزیر ‘ مشیر اور عالم ‘ مفتی‘ مجتہد نے کبھی اعتراض نہیں کیا کہ حج تو صرف استطاعت رکھنے والے مالدار لوگوں پر فرض ہے آپ غریب عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی حاجیوں پر کیوں لٹا رہے ہیں۔ سب سڈی ختم کرنے کے بعد بھارتی حکومت نے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے یہ اعلان کیا کہ زرتلافی سے بچنے والی چار پانچ ارب روپے کی رقم تعلیم پر خرچ ہو گی اور مسلم علاقوں کے تعلیمی اداروں کو ترجیح دی جائے گی۔ پاکستان میں ٹیکس دہندگان کا پیسہ حکمرانوں کی عیش و عشرت پر خرچ ہوتا ہے اور اشرافیہ کی مار دھاڑ پر۔ صنعت و تجارت کے کئی شعبوں کو سرکاری خزانے سے نوازا جاتا ہے اور حکومت خواہ آصف زرداری اور نواز شریف کی ہو یا عمران خان کی یہ جانتے بوجھتے کہ ساری رقم ہوس زر کے مارے اس طبقے کے ذاتی اکائونٹس میں منتقل ہو رہی ہے۔ یہ مکھی نگلنے پر مجبور ہے۔ زرتلافی اور ای فنڈ کے نام پر جو مالی مراعات یہ طبقات حاصل کرتے ہیں ان کا عشر عشیر بھی ٹیکسوں اور غریب عوام کو سستی اشیا کی فراہمی کی صورت میں واپس نہیں کرتے۔ حج میں حالیہ اضافہ صرف ڈالر کی قیمت یا سعودی عرب میں رہائش گاہوں کے نرخوں میں اضافے کا مرہون منت نہیں اور بھی کئی عوامل کارفرما ہیں۔ مکّہ معظمہ ‘ مدینہ منورہ اور منیٰ میں کرائے پر لی جانے والی عمارتوں سے سرکاری حکام بھاری کمشن وصول کرتے ہیں۔ پی آئی اے حج سیزن کو خسارے پر قابو پانے کا ذریعہ سمجھتی ہے اور عوام کو یہ موقع نہیں دیا جاتا کہ وہ سستی ایئر لائنز پر سفر کر سکیں۔ 2012ء حج بیت اللہ کا ارادہ کیا تو سیف اللہ خالد‘ نجم الحسن عارف اور میں نے مختلف ایئر لائنز کے کرائے معلوم کئے پی آئی اے کا کرایہ ایک لاکھ ستر ہزار روپے تھا اور ایک سعودی ایئر لائن ناس کا کرایہ صرف ساٹھ ہزار روپے۔ ہمیں ناس کا ٹکٹ تو نہ مل سکا مگر راس الخیمہ ایئر لائن پر ہم نے ایک لاکھ روپے ٹکٹ لے کر سفر کیا اور امارات و سعودیہ ایئر لائنز کے مساوی سہولتوں سے محظوظ ہوئے۔ منیٰ میں پاکستانی کیمپ میں کنٹین پر جو چیز دس ریال کی مل رہی تھی وہی بھارتی کنٹین پر پانچ ریال کی دستیاب تھی۔ ریاست مدینہ کی علمبردار حکومت عازمین حج کو تو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کر رہی ہے مگر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو پروٹوکول دیتے ہوئے اُسے حضور اکرمﷺ کا اسوہ حسنہ یاد آتا ہے نہ خلفائے راشدین کی سادہ زندگی اور نہ درس مساوات۔ صدر عارف علوی‘ وزیر اعلیٰ پنجاب اور دیگر کئی حکام بھی اس کے مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو دس دس کروڑ کے ترقیاتی فنڈز بھی جاری کئے جا رہے ہیں جو کرپشن‘ فضول خرچی اور قومی وسائل کے ضیاع کی بھونڈی علامت ہیں اور تحریک انصاف و عمران خان کے دعوئوں کی نفی۔ سیاسی ضرورتوں کے تحت قومی وسائل کا ضیاع اور کرپشن گوارا ہے اور زرتلافی بھی جائز‘ مگر ایک لاکھ ستر ہزار عازمین حج کی دعائیں لینے کی کسی کو حاجت ہے نہ دماغ۔ حکومت چاہے تو اب بھی کیٹگریز بنا کر ان افراد کو سب سڈی دے سکتی ہے جو پہلی بار حج پر جا رہے ہیں‘ جن کی آمدنی محدود ہے اور حج اخراجات میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے محرومی کا شکار ہیں۔ ایسے عازمین حج کی تعداد بیس پچیس ہزار سے زیادہ نہیں ہو گی۔ جب وزارت مذہبی اُمور کی یہ خواہش ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل زر تلافی پر مہر جواز ثبت کر چکی تو پھر حیلے بہانوں کی وجہ ؟ خوئے بدرا بہانہ بسیار۔بدقسمتی سے عمران خان کو پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ(ق) اور مسلم لیگ (ن) کے ان بے وفا لبرل ’ سیکولر عناصر نے گھیر لیا ہے جنہیں عوام کے مذہبی جذبات کا ادراک ہے نہ ریاست مدینہ کے ایجنڈے سے دلچسپی۔ انہیں یہ تک علم نہیں کہ کون سے ایشو پر اپوزیشن حکومت کو دیوار سے لگا سکتی ہے اور منفی پروپیگنڈا کا طوفان اٹھا کر نیک نامی کو بدنامی میں بدلنے پر قادر‘ بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق اسلام آباد کے اقتدار پر قابض ہے جو عوام کے مزاج سے واقف ہے نہ قوم کے جذبات و احساسات سے آگاہ اور نہ جسے معلوم کہ رحمدلی اور عوام دوستی کس چڑیا کا نام ہے۔ ہر بے رحمانہ اور جذبات سے عاری فیصلہ قبولیت حاصل کرتا ہے نہ تلخ فیصلوں کے زمرے میں شامل ہوتا ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوںکو عوام کے موڈ کا اندازہ ہونا چاہیے وہ منتخب حکمران ہیں مطلق العنان بادشاہ نہیں کہ جو چاہیں کرتے پھریں کوئی پوچھنے والا نہیں۔