فی الوقت سیاست میں دو اتحاد سرگرم ہیں، ایک عمران خان کی قیادت میں حکمران اتحاد‘دوسرا مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں پی ڈی ایم نامی اتحاد‘دونوں اتحاد چھوٹی پارٹیوں کی شرائط بلکہ بلیک میل کے سہارے قائم ہیں‘جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں ‘چھوٹی جماعتوں کے دلوں کی دھڑکن تیز ہوتی جائے گی‘اس لئے کہ انتخابات میں اتحادی جماعتیں بڑی پارٹیوں کی قیادت کی خوشنودی کی محتاج ہوں گی‘عمران خان کو اپوزیشن سے زیادہ اتحادیوں نے تگنی کا ناچ نچوایا‘خصوصاً پنجاب میں مسلم لیگ (ق) نے ہر آڑے وقت پنجاب اور مرکز کی حکومتوں کا ناطقہ بند کئے رکھا‘اگر مسلم لیگیوں کے اتحاد کی کوئی صورت نہ بنی تو سب سے زیادہ قابل رحم حالت بھی مسلم لیگ (ق )کی ہی ہو گی۔ایم کیو ایم آنے والے دنوں مزید سکڑ جائے گی۔عمران خان تنہا پرواز پر آمادہ ہونگے۔شاید یہی ان کے لئے بہتر ہے۔ معروف صحافی اور ٹیلی ویژن پروگراموں کے میزبان عمران ریاض خاں نے اپنے کرائے گئے سروے کے نتائج کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں گاہے سروے کرنے والے دو ادارے عوامی رائے معلوم کر کے نتائج شاید کرتے رہے ہیں‘جب سے نوازشریف نے ان اداروں کی سرپرستی شروع کی اور سب سے زیادہ قابل اعتماد گیلپ نے اپنا دفتر وزیر اعظم ہائوس میں قائم کیا تو ان کی غیر جانبداری کے ساتھ ساتھ اعلان شدہ نتائج بھی قابل اعتبار نہ رہے اور تجربے نے ان کی نامعتبری ثابت کر دی‘صحافی عمران ریاض خاں کو بالعموم بے باک اور غیر جانبدار خیال کیا جاتا ہے ،ان کے جاری کردہ سروے میں جن لوگوں نے حصہ لیا، ان کی تعداد ایک لاکھ سترہ ہزار سے کچھ اوپر ہے۔ ان کے اعلان کردہ نتائج میں ایک نقطہ چونکا دینے والا ہے ،باقی نتائج عمومی فضاسے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔سروے کرنے والے نے چار سیاسی پارٹیوں کے بارے میں سوال رائے عامہ کے لئے پیش کیا ۔ نمبر 1مسلم لیگ نواز نمبر 2تحریک لبیک نمبر 3تحریک انصاف اور نمبر 4پاکستان پیپلز پارٹی اس سروے کے نتائج میں چونکا دینے والا نتیجہ تحریک لبیک کا تھا۔نتائج کچھ یوں تھے نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت 10فیصد رہی تحریک لبیک سعد رضوی کی قیادت میں 26فیصد تک جا پہنچی۔عمران خان کی تحریک انصاف 62فیصد کے ساتھ مقبول ترین ظاہر کی گئی ہے اور پیپلز پارٹی تمام تر دعوئوں کے باوجود صرف ایک فیصد کو اپنی طرف متوجہ کر سکی۔ تحریک لبیک تازہ دم تحریک ہے اور وہ سب سے بڑے مذہبی فرقے سے تعلق رکھتی ہے، یعنی اہل سنت والجماعت 1970ء کے انتخابات میں یہی گروہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی قیادت میں قومی اسمبلی کی دوسری بڑی جماعت بن گئی تھی، خصوصاً کراچی اور پنجاب کے بعض دیہی علاقوں میں اسے خاطر خواہ ووٹ مل گئے تھے، جس طرح پیپلز پارٹی کی جگہ تحریک انصاف نے لے لی ہے اسی طرح جمعیت علماء پاکستان کی جگہ تحریک لبیک ابھر کے سامنے آئی ہے۔ سروے کے نتائج سے قطع نظر سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں متعدد مقامی سیاسی پارٹیاں اور گروہ ایک دوسرے کے مقابل ہونگے ان صوبوں میں کوئی ایک سیاسی پارٹی پورے صوبے کی دعویٰ دار نہیں ہو گی۔مختلف اضلاع میں مختلف گروہ ماضی میں کامیاب ہوتے آئے ہیں‘البتہ ان صوبوں کے ہر ضلع بلکہ ہر حلقہ انتخاب میں تحریک انصاف متحرک فریق ہو گی۔تحریک انصاف آج کے پاکستان میں واحد قومی جماعت ہے جو ہر علاقے ہر ضلع اور ہر حلقے میں نمایاں وجود رکھتی ہے۔اس کے مقابلے میں فی الحال کوئی دوسری قومی سطح کی پارٹی موجود نہیں۔ اس سب کے باوجود اگلے انتخاب کا اصل معرکہ پنجاب میں برپا ہونے جا رہا ہے یہ معرکہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کے مابین لڑا جائے گا۔مسلم لیگ نواز آئندہ انتخابات پنجاب میں جیت نہ پائی تو اس کا مستقبل پیپلز پارٹی سے مختلف نہیں ہو گا لیکن تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے مابین مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ایک بڑا اور دلچسپ مقابلہ مسلم لیگ نواز کے اندر برپا ہو گا۔ مسلم لیگ نواز کے اندر سیاسی مقابل خاندان بمقابلہ گھرانے کے درمیان دیکھنے کو ملے گا ۔خاندان کو بلند آواز اور ماہرین ابلاغ کی حمایت حاصل رہے گی اور گھرانے کو انتخابی حلقوں میں اصل نتائج دینے والے ممبران اسمبلی کمک فراہم کریں گے، جی ہاں یہ مقابلہ نواز شریف کی پشت پناہی سے بھتیجی مریم نواز اور سیاسی دائو پیج کا ادراک رکھنے والے مقامی قائدین کے حمایت یافتہ چچا شہباز شریف کے مابین ہو گا‘خاندان یا بھائی چارے کی وضع داری کا کوئی مقام نہیں ہے۔ماضی کی وضع داری سے زیادہ نبھا ہونے کی وجہ شراکت اقتدار تھا‘نواز شریف وزیر اعظم تھے تو شہباز شریف بلا شرکت غیرے پنجاب میں سیاہ و سفید کے مالک تھے‘ اگر ان کے درمیان وضع داری خاندان کا خاصہ ہوتا تو تیسرے حقیقی بھائی عباس شریف اور اس کی اولاد بھی برابر کے اثاثوں کی مالک ار شریک اقتدار رہے ہوتے‘ جو کچھ ان سطور میں عرض کیا یہ کوئی محض افسانہ طرازی نہیں بلکہ اس کے لئے ماضی سے ایک مضبوط دلیل بھی پیش کی جا سکتی ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت تھا اور سماعت واضع طور پر نواز شریف کی نااہلی کی طرف جاتی دکھائی دیتی تھی‘پیپلز پارٹی کے رضا ربانی چیئرمین سینٹ تھے اور راقم السطور پارلیمنٹ ہائوس میں ان کے دفتر میں تھا جہاں چند سینیٹر اور دو ایک ایم این اے بھی تشریف رکھتے تھے‘ان میں ایک سینیٹر کا تعارف ثمینہ خالد کے نام سے ہوا تو ان سے عرض کیا آپ خالد گھرگی کی اہلیہ ہیں؟انہوں نے کہا نہیں‘میں خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتی ہوں۔چیئرمین رضا ربانی نے راقم سے پوچھا آپ نواز شریف کے مستقبل کو کیسا دیکھتے ہیں؟عرض کیا وہ نااہل ہو کر جیل میں ہونگے۔چیئرمین سینٹ کو تجزیے سے اتفاق نہیں تھا، پھر بھی کہنے لگے کہ بالفرض نواز شریف اقتدار میں نہ رہے تو اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟ عرض کیا اگلا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہونگے۔اس بات پر وہ بری طرح جھنجھلا گئے اور باقی شرکاء ہماری گفتگو میں گہری دلچسپی لینے لگے۔پھر سوال آیا کہ شہباز شریف کدھر گئے؟ان کی شدید خواہش ہے کہ وزیر اعظم بنیں اور نواز شریف اپنے بھائی کے علاوہ کسی دوسرے پر بھروسہ کیوں کرنے لگے؟عرض کیا کلثوم نواز اور مریم‘کبھی شہباز شریف کو وزیر اعظم نہیں بننے دیں گی۔گھرانے اور خاندان میں دولت اور اقتدار میں شراکت کے باوجود مسابقت جاری ہے۔نواز شریف کی اولین ترجیح کلثوم نواز ہیں لیکن ان کی بیماری اسے پاکستان لوٹ آنے کی اجازت نہیں دے گی ۔چنانچہ اپنے گھرانے کے بعد ان کا اگلا انتخاب کشمیری قوم سے کوئی فرد ہو سکتا ہے کشمیریوں میں پہلی ترجیح خواجہ آصف اور دوسری گوجرانوالہ کے خرم دستگیر ہو سکتے ہیں لیکن ان دونوں کشمیری ممبران اسمبلی کو پارلیمنٹ پارٹی میں پذیرائی نہیں۔ ان کے خلاف بغاوت پھوٹ سکتی ہے‘چنانچہ جی ٹی روڈ کے آخری کنارے کے واحد امیدوارشاہد خاقان عباسی ہوسکتے ہیں۔ جو پچھلے دور میں نواز شریف کی پاداش میں جیل گئے‘ انہوں نے ثابت قدمی سے جیل بھگتی اور نواز شریف کے ساتھ اپنی وفاداری کا پختہ ثبوت دیا، یہی وہ خوبی ہے کہ نظر انتخاب بالآخر انہی پر جا کر رکے گی ۔چنانچہ زیادہ دن نہیں گزرے تھے نواز شریف نااہل قرار پا کر جیل میں تھے اور نااہل نواز شریف کا فائنل انتخاب شاہد خاقان عباسی قرار پائے اور بقیہ مدت کے لئے وہی وزیر اعظم رہے۔ پنجاب کے سیاسی خاندانوںمیں دوسری دلیل بھی عرض کی تھی۔چوہدری ظہور الٰہی کی شہادت ہو چکی تھی۔جب پرویز مشرف نے انتخابات کروائے اور پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا معرکہ درپیش ہوا تو چوہدری ظہور الٰہی کے گھرانے میں بھی افراتفری برپا ہوئی تھی۔شجاعت حسین قومی اسمبلی کے ممبر تھے‘پرویز الٰہی صوبائی کے‘ طارق عزیز کے ساتھ پرانے تعلق کے سبب قرعہ چوہدری شجاعت خاندان کے نام نکلا تو شجاعت حسین کے بھائی پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے خلاف تھے۔اگرچہ وہ ان کے تایا زاد بھائی ہیں اور بہنوئی بھی ۔اس کے باوجود ان کی دلیل تھی کہ شریکوں اور دامادوں کو جائیداد میں حصہ دیا جاتا ہے لیکن پگڑی‘ بیٹوں کے حصے میں آتی ہے۔اقتدار کی پگڑی ہم اس داماد کے سر نہیں رکھ سکتے لیکن مقدر ان کے دلائل پر بھاری رہا اور پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بنے۔ایک دفعہ اقتدار کی پگڑی ان کے سر پر سجا دی گئی تو اب اگر کبھی اس خاندان کو اقتدار تک رسائی نصیب ہوئی ،تو پرویز الٰہی یا اس کی اولاد کو ترجیح رہے گی۔یہی مسئلہ نواز شریف خاندان کے ساتھ، اگر شہباز شریف وزیر اعظم ہوئے تو ان کا بیٹا جانشین بھی ہو گا اور نواز شریف خاندان کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو جائے گا۔ ایک موہوم سی امید جو باقی ہے وہ بھی نہیں رہے گی۔