’’شہرۂ آفاق روسی ادیب لیوٹالسٹائی ایک مرتبہ رات کے کھانے کے بعد اپنے گھر میں صوفے پر نیم دراز تھا کہ ایک عورت کے سفید مرمریں بازو کی ’کُہنی‘ کی ایک جھلک اُس کی چشمِ تصور کے سامنے لہرا گئی۔ اُس نے اپنی نظریں اُس خیالی عورت کی کہنی سے آگے بڑھائیں تو وہ مکمل بازو تک چلی گئیں ۔یہاں تک کہ اُس کی نظروں کے سامنے ایک سوگوار عورت کا سراپا آ گیا جو رقص گاہ کے لیے پہنے جانے والے گاؤن میں ملبوس تھی۔ یہ’’ اینا کرانینا‘‘ کی پہلی جھلک تھی جو ٹالسٹائی کو نظر آئی۔جب اُس نے اس غمگین عورت کے سراپے سے نظریں ہٹا کر دیکھا تو اسے دیگر جزئیات و تفصیلات نظر آئیں۔ حیران و پریشاں ادیب، جس دنیا کا آج تک کا سب سے عظیم ادیب تسلیم کیا جاتا ہے، نے اپنے تخیّل کو بے لگام اور آزاد چھوڑ دیا۔ وہ ایک شان دار فن پارہ تراش لایا جسے ایک زمانہ ’اینا کرانینا‘ ناول کے نام سے جانتا ہے اور قارئین و ناقدین کی اکثریت اسے دنیا کا عظیم ترین کثیر الجہتی شاہ پارہ تسلیم کرتی ہے۔‘‘ اینا کرانینا ٹالسٹائی کے دو عظیم ناولوں میں سے ایک ہے۔ وار اینڈ پیس کو بے پناہ شہرت ملی، اس پر فلمیں بنیں، اسے کلاسیک سمجھا جاتا ہے۔ اینا کرانینا کی کم وبیش وہی صورتحال ہے۔ فرق یہ کہ وار اینڈ پیس یا جنگ اور امن بنیادی طور پر رزمیہ ہے،نیپولین کے روس پر حملے اور پھر خراب موسم اور دیگر مسائل کے باعث فتح حاصل نہ کرسکنے پر پسپائی کی روداد ۔ اینا کرانینا انسانی جذبات کے گرد گھومتی کہانی ہے، ہیومن ڈرامہ۔ اینا کرانینا کا پہلا فقرہ بہت مشہور ہے اور بے شمار مرتبہ مختلف جگہوں پر نقل کیا گیا، ’’ہر پرمسرت خاندان کی خوشی ایک سی ہے جبکہ ہر ناخوش خاندان کا دکھ الگ ہے۔ ٹالسٹائی کو اینا کارنینا لکھنے کا خیال کیسے آیا ، اس کا اقتباس میں نے میں نے معروف ادیب، محقق، مترجم اور خاکہ نگار عرفان جاوید کی نئی کتاب عجائب خانہ سے لیا ہے۔ عرفان جاوید کمال کے آدمی ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے بیوروکریٹ ہیں، کسٹم میں اہم عہدے پر فائز ہیں، لکھنے پڑھنے سے انہیں جنون کی حد تک شغف ہے۔ دنیا بھر سے کتابیں منگواتے رہتے ہیں، نئی کتابیں اور نئی فلمیں دونوں انہیں مرغوب ہیں۔عرفان جاوید سے ایک ملاقات درجنوں نئے آئیڈیاز دے جاتی ہے، ان کے پاس بات کرنے کے لئے بے پناہ مواد ہوتا ہے۔اچھوتے قصے، نئی کتابوں کی تفصیل، منفرد فلمیں، ادیبوں، شاعروں، دانشوروں کے خوبصورت فقرے ۔عرفان جاوید کے افسانوں کا مجموعہ’’ کافی ہائوس‘‘ دس بارہ سال پہلے آیا۔ اس کے بعد خاکوں کی دو شاندار کتابیں لکھ ڈالیں۔خاکوں کا پہلا مجموعہ’’ دروازے‘‘ تھا، اس کے اب تک کئی ایڈیشن فروخت ہوچکے ہیں، دوسرا مجموعہ سرخاب کے نام سے شائع ہوا، یہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ تنقید کے حوالے سے عرفان جاوید نے اپنی ایک غیر مطبوعہ کتاب کا مسودہ مجھے بھیجاتو میں ان کی تحقیق اور علمی زبان دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ دروازے اور سرخاب میں نہایت رواں، سلیس اور شگفتہ نثر لکھنے والا عرفان جاوید تنقید کے میدان میں ایسا علمی کام کر سکتا ہے۔ عرفان جاوید مگر سرپرائزدینے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے نہایت شاندار پرمغز تحقیقی مضامین لکھے اور ان پر مشتمل کتاب ’’عجائب خانہ‘‘ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ان کی تمام کتابیں سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور نے چھاپی ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں عجائب خانہ میرے تکیہ کے ساتھ رہی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ عرفان جاوید نے مجھے مسمرائز کر دیا۔ مشہور ناول نگار عبداللہ حسین اکثر یہ طعنہ دیتے تھے کہ اردو کے ادیب محنت نہیں کرتے اور ان کا دم جلد ٹوٹ جاتا ہے۔ عرفان جاوید نے یہ الزام غلط ثابت کیا۔ انہوں نے کئی سال تک مختلف موضوعات پر تحقیق کی، بے شمار کتابیں پڑھیں اور پھر ان کا نچوڑ اپنی اس کتاب عجائب خانہ کے مضامین میں بیان کر ڈالا۔ ہر مضمون کے آخر میں ان درجن بھر کتابوں کے حوالے موجود ہیں، جہاں سے وہ واقعات یا حوالے لئے گئے۔ عرفان جاوید کے توشہ خانے میں سب کچھ ہی خاص ہے، میں سردست ان کے ایک باب ’’خیال کہاں سے آتا ہے ‘‘سے چند اقتباسات قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ٭٭٭ خیال کہاں پیدا ہوتے ہیں، کدھر سے آتے ہیں، کِن روشن دماغوں میں بسیرا کرتے ہیں اور کیسے ان کی پرورش ہوتی ہے جن سے وہ ایک بڑے فلسفے، اہم ایجاد، قوی فن پارے یا کامیاب کاروباری خیال کی صورت سامنے آتے ہیں؟ان سوالات پر دانش ور سراپاجستجو رہے ہیں۔ دلچسپ واقعات کی لڑی ہے جس میں رنگین قصّے دانہ دانہ موجود ہیں۔ خیال کی نمو کے لیے وقت بہت اہم ہے۔ یعنی اگر خیال اس وقت پیش کیا جائے جب اس کی ضرورت ہو یا ضرورت کا امکان ہو تو وہ کامیاب ہو گا۔علاوہ ازیں اس کے معاون عوامل موجود ہونا بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ای کامرس کے امکان کے لیے کمپیوٹر اور ورلڈ وائڈ ویب(www) کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح ہوائی جہاز کا خیال دو سو برس قبل بھی پیش کیا جا سکتا تھا مگر اس کے لیے پہلے انجن کی ایجاد ضروری تھی۔اسی طرح یوٹیوب کو اگر تیس برس قبل متعارف کروا دیا جاتا تو یہ ناکام ہو جاتی چوں کہ اس وقت نہ تو تیز رفتار انٹرنیٹ کنکشن تھے اور نہ وہ سافٹ ویئر موجود تھے جو ویڈیو دیکھنے میں معاون ہوتے۔ اہم تبدیلیاں لانے والا خیال ابتدا میں چھوٹا سا واہمہ یا قیاس ہوتا ہے، یہ نومولود ایک توانا خیال کی شکل بتدریج اختیار کرتا ہے۔ڈارون کا کہنا ہے کہ اس کی مشہورِ زمانہ ’تھیوری آف نیچرل سلیکشن‘ (انتخاب فطری) مالتھس کی افزائشِ آبادی پر تحریریں پڑھتے وقت اُس کے دماغ میں پھُوٹ پڑی (مالتھس کی تحریریں عموماً وسائل اور خصوصاً خوراک کے وسائل کے آبادی کے ساتھ تعلق پر بحث کرتی ہیں)۔ ڈارون کی ڈائریوں اور نوٹ بکس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ در حقیقت اس موضوع پر وہ خاصے عرصے سے سوچ بچار کر رہا تھا اور مذکورہ تھیوری کا خاکہ وہ قریب قریب تیار کر چکا تھا۔ یہ احساسِ ممکنات یا اندازہ ایک مکمل سوچی سمجھی تھیوری کی صورت میں وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوا۔ ٭٭٭ اتفاقی ملاپ یا جوڑ بھی نئے خیالات کو پیدا کرتے ہیں۔ اس کی دلچسپ مثال خوابوں میں آنے والے خیالات ہیں۔ ماہرین مطلع کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی امر یا منصوبے پر سوچتا ہوا سو جائے تو اس کا دماغ نیند میں بھی اس پر کام کرتا رہتا ہے۔جرمن کیمیادان کیکو لے نے خواب میں ایک اساطیری اژد ہے کو دیکھا جو پلٹ کر اپنی ہی دُم کھا رہا تھا۔ اس خواب سے اُس کے دماغ میں یہ خیال بجلی کی طرح کوند گیا کہ کس طرح کاربن ایٹم ایک دائروی چھلے کی شکل میں بینزین کا سالمہ (مالیکیول) بنا سکتا ہے۔ ایک اور حیران کن واقعہ ہے۔ ایلیاس ہووے ایک امریکی موجد تھا جو سن 1800ء سے چلی آ رہی فرسودہ سلائی مشین کا ڈیزائن زیادہ مؤثر بنانا چاہ رہا تھا۔ اُس کے ذہن میں سلائی مشین کی سوئی کا ناکا اور سوراخ اُس کے سَر ہی میں رکھنے کا خیال تھا جیسا کہ آج کی عام سوئی میں بھی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اُسے ایک خواب نظر آیا۔ خواب میں چند وحشی آدم خور ہاتھوں میں نیزے لیے اُس کا پیچھا کر رہے تھے۔ اُن کے نیزوں کی نوکوں میں سوراخ تھے۔نیزوں کی نوکوں میں سوراخوں نے اُسے راہ سجھائی کہ سلائی مشین کی سوئیوں کی نوکوں میں سوراخ رکھ کر ان میں دھاگا ڈالا جائے۔ یوں جدید سلائی مشین کا خیال ایک خواب میں ایلیاس کو آیا۔ البتہ ایسے واقعات شاذ و نادر ہیں اور استثنیات میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک خیال سے نیا خیال برآمد ہونے کو جدید دور میں دیکھا جائے تو ٹوئٹر کو ایک معاشرتی رابطے کے نظام کے بجائے فقط ایس ایم ایس بھیجنے اور وصول کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔اسی طرح سافٹ ویئر کی بنیاد پر بنے ’اوبر‘ اور ’کریم‘ کے سفری نظام کو دیکھ لیا جائے تو اس کا ابتدائی خیال دو دوستوں کے اس شکوے کی بنیاد پر وجود میں آیا کہ ٹیکسی حاصل کرنا کتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دوستوں کی ایک اور کہانی ہے۔ انہیں اپنے اپارٹمنٹ کا کرایہ ادا کرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ انہی دنوں شہر میں ایک کانفرنس ہو رہی تھی جس کی وجہ سے تمام ہوٹلوں کے کمرے بُک تھے۔ اُنہیں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنے اپارٹمنٹ کی اضافی جگہ رات کے لیے کرائے پر دے دیں۔ نتیجتاً ملنے والی رقم سے نہ صرف اُنہیں اپارٹمنٹ کا کرایہ دینے میں آسانی ہو جائے گی بلکہ اضافی آمدنی بھی ہو جائے گی۔ یوں ایئر بی کا تصور سامنے آیا۔ بکنگ ڈاٹ کام بھی ایسے ہی ایک تصور کا نتیجہ ہے جسے استعمال کر کے روزانہ لاکھوں صارفین ہوٹلوں، موٹلوں، گیسٹ ہاؤسوں اور اقامتی مکانوں میں قیام کرتے ہیں۔ ٹِم برنرلی نے ورلڈ وائڈ ویب(www) کو محققین اور اسکالروں کے لیے بنایا تھا۔ بعدازاں یہ شاپنگ، معاشرتی تعلقات، صحت اور دیگر شعبوں تک رجوع کرنے کا اہم ترین نظام بن گیا۔جی پی ایس (GPS) گلوبل پوزیشننگ سسٹم کو فوجی استعمال کے لیے بنایا گیا تھا۔ بعدازاں اس کا تجارتی استعمال اتنا بڑھ گیا کہ یہ گاڑیوں سے لے کر اشتہاری کمپنیوں تک کے استعمال میں ہے۔ (جاری ہے )