ضعف ‘ بے بسی‘شکستگی اور سراسیمگی کا اعتراف ہے۔ کوئی قدم ارادے کی مضبوطی سے نہیں اٹھ پا رہا ہے۔ ادھر ادھر کی سنی ہوئی پر یقین ہے‘ پھر ذرا دیر کے بعد تشکیک کا دورہ پڑتا ہے اور کسی سمت کا احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ہاں وہ بڑے سیانے جو چوری کے ماہر اور ڈاکہ زنی کا مجرب دبستان ہیں۔ اسی طرح سے مگن اپنے شطرنجی کھیل میں مصروف ہیں۔ذرا جُوں تو کیا رینگے‘ ان کے احساس پر مفادات‘ گروہی سیاست اور من پرستی کی برف جمی ہوئی ہے۔ ڈھٹائی سے اپنی پرانی طرز کو ہی ہر بیماری کا حل سمجھتے ہیں۔ اگر پارٹیاں کسی فلاحی نظریے پر قائم کی جاتیں تو کروڑوں کارکن فلاح کے جذبے سے میدان عمل میں نکلتے اور حالات کا مقابلہ زندہ دلی سے کرتے۔ ایسا نہیں ہوا قوم کی گردن پر سوار ہونے والے بنارسی ٹھگوںسے ہر سبق پڑھ کر اپنی چالاک طبعی کے بل بوتے پر ہمدرددان قوم کہلانے والے کسی بھی آسمانی خطرے سے بڑھ کر زمینی مصیبت ثابت ہوتے ہیں۔قوم کے درد میں جن کی زبانیں بہت دراز رہا کرتی ہیں۔ فی الحال خاموش ہیں۔ پھر ذرا سا خیال آتا ہے تو زبان کو بل دے کر اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم ہی ہمدرد ہیں ہمارے ہاتھ میں رسی دو۔ سب ٹھیک کر دیں گے۔ کہاں ہیں وہ بے شمار بے شمار۔ تیرے جاں نثار ان نعروں سے اپنی انا کی پوجا کرواتے رہے۔ ایک طویل عرصے تک اب کیوں نہیں کہتے کہ ہم پر نچھاور ہونے کی بجائے مصیبت دور کرنے کے لئے عزم توانا سے نکلو۔کرسی پر براجمان اور کرسی سے اترے ہوئے کبھی بھی عوام دوست نہیں ہوتے۔ عوام دوست تو وہ ہوتے ہیں جو عوام کے ساتھ عوام میں رہتے ہیں ان کا درد سمجھنے والے ہی ان کے ہم درد ہو سکتے ہیں۔ غربت کی لکیر سے بہت نیچے عوام کی مصیبت انہی لوگوں کو سمجھ آتی ہے جو اس لکیر سے دور غربت کے مارے انسانوں کے ساتھ سانس لیتے ہوں۔اس طرح بے کس مفلوک الحال اور روٹی پانی کو ترسنے والے عام آدمی کی پریشان بھوک‘ ننگ اور بیماری سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں۔نہ کبھی غیر شفاف پانی کے علاقے میں چند دن سندھ کے وراثتی وڈیرے نے گزارے ہیں اور نہ بھوک کا رقص پنجابی بین الاقوامی تاجر کو دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ رہی بات پاکستان دشمن روایتی بلوچی‘ سرحدی سرداروں اور خوانین کی تو ان کے بڑے بھی انگریزی بسکٹوں کے لئے فرنگی سے رقم اینٹھنے کے پرانے خوگر تھے اور اب بھی ان کے دسترخوان بھارت کی کرم نوازی سے لذت کدوں کی تصویر ہیں۔ کتنے بے حس ہیں یہ لوگ کہ آسمانی وبا عذاب بن کر مسلط ہونے کی تابڑ توڑ کوششوں میں مصروف ہے ‘غریب وبا اور بھوک کے سیلاب کی زد میں ہے‘ملک میں معیشت کی کمر دوہری ہو رہی ہے اور یہ غریبوں کی مدد کے لئے نہ کچھ سوچ رہے ہیں‘ نہ کچھ کر ہے ہیں۔ اپنی کھال بچانے کے لئے ایک دوسرے کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں ۔ خدا سزائیں دے اور کڑی سزائیں دے ایسے نوسر بازوں کو جو کسی بھی حادثے کا شکار ہونے والوں کی سب سے پہلے جیب ٹٹولتے ہیں۔پھر گھڑی اتار لیتے ہیں۔ کتنا بڑا حادثہ قوم کو درپیش ہے۔ بھوک ہے تنہائی ہے‘ بیماری ہے‘ مایوسی ہے‘ حالات کی تنگی ہولناک منہ کھولے خوف کا اندھیرا دکھا رہی ہے۔ قیامت صغریٰ کا سماں ہے لیکن برف زادے اسی پرانی شطرنج پر بیٹھے قوم کے پیادوں کو برابر مات دینے پر مشورہ کر رہے ہیں۔ اگر قوم پر ترس کھائیں تو ایک مہربانی کر دیں تو قوم کی دنیا سنور جائے گی اور مدعیان ہمدردی کی آخری سنور جائے گی اور سیاست کی بساط الٹ جائے گی کہ قوم کی رگوں سے خون نچوڑ کر بیرون ملک بنکوں کی تجوریاں بھرنے والے بھرے بازار یہ اعلان کر دیں کہ ہم اللہ سے معافی مانگتے ہیں ہم اس کی مخلوق سے معافی مانگتے ہیں۔ ہم اپنے ظالمانہ کرتوتوں سے علی الاعلان تائب ہوتے ہیں اور اپنی تمام ترین بیرونی دولت پاکستانی غریب عوام کی فلاح کے لئے اور ریاست پاکستان کی حقیقی معاشی آزادی کے لئے پاکستانی قومی خزانے میں غیر مشروط طور پر جمع کروا رہے ہیں آئندہ پاکستان کی مٹی فروخت کرنے سے باز رہیں گے۔پاکستان کی عزت نیلام کرنے سے توبہ کرتے ہیں۔ پاکستان مخالف‘دہشت پسند سیاستدانوں سے مرتے دم ۔مقاطعہ کا اعلان کرتے ہیں۔پاکستانی فوج کے خلاف نفرت پھیلانے والوں سے اظہار نفرت کرتے ہیں۔ عصر حاضر کے فرعون مودی سے ماضی میں گھریلو تعلقات پر ہم شرمندہ ہیں اور ہم اب دین حب وطن ہی کو اپنی سیاست کا محور بنائیں گے۔ بہت ضرورت ہے توبہ کرنے کی پوری قوم کو‘ ہر چھوٹے بڑے کو‘ پھر عامی و خاصی کو‘ ہر صالح و خاطی کو ‘نمازی کو اور حاجی کو‘ لیکن پہلی وہ کرے جس نے بدعنوانی کی انتہا کی۔ بدعنوانی کے راستے مہیا کئے۔ بدعنوانی کو عوام سے متعارف کروایا۔ ایک پرانے سیانے نے تجویز دی کہ حاکم وقت بارگا خدا وندی اور درگاہ رسالتﷺ پر سب کو لے جا کر رو رو کر توبہ کرے اور ان کے بیان کے لکھاری دانشور نے یہ جملہ تحریر فرمایا کہ آنسوئوں سے تر معافی مانگنی چاہیے۔بندہ پرور سیانے کو یہ بھی تجویز فرمانا چاہیے کہ پہلے اس تر دامن عصیاں کو تو دھو لیجیے جو قتل غریباں سے خون آلود ہو گیا ہے جو بدمستی کی خمریات سے ابھی تک خشک نہیں ہوا ‘ظلم و تعدی کا شکار ایک بے حساب ہجوم مظلوماں ہے۔ اگر کسی ارکان اسمبلی کو مراعات کا بے حد و حساب استحقاق حاصل ہے تو لاک ڈائون سے متاثر کسی غریب ریڑھی بان کدالچی ‘مزدور‘ فٹ پاتھ پر ٹھیلے لگانے والے غریب آدمی کو بھی مراعات کا اتنا نہیں تو کم از کم دو نان شبینہ حق تو حاصل ہونا چاہیے۔ سمجھدار اور صاحب درد اہل قلم دانش سے بہرہ مند نگاربار بار کہہ رہے ہیں کہ بیماری ‘ قحط بھوک اور بے روزگاری سے جہاد کرتے ہوئے کچھ توازن درکار ہے۔ پیٹ بھرے کی الاپنے والوں نے کب قحط اور بھوک بیماری اور بے روزگاری کا سامنا کیا ہے ۔یہ خدا کا عذاب ‘اس کی سمت اور رفتار کا اندازہ بے خبر لوگ نہیں کر سکتے۔ حکم خداوندی سے تقدیر کے نوشتے غالب آ رہے ہیں ‘عقل چکرا رہی ہے تو صاحب دل کی طرف رجوع کیا۔خدشات اور وساوس سے آگاہ کیا ۔درویش نے بہت اطمینان سے تسلی دی۔ درویش کی آوازمیں بہت انکساری لیکن اعتماد تھا۔فرمایا کہ توبہ کی اور بالکل سچی توبہ کی نیت کر اور پھر نیت میں خلوص اور خلوص میں عاجزی کا اظہار کر اور عاجزی میں اعتراف گناہ اور گناہ دوبارہ نہ کرنے کا عزم صمیم کر کے اپنے آپ کو یہ کہہ کر خدا کی رحمت کے حوالے کر دے کہ اے مالک وحدہ لاشریک تو ارحم الراحمین ہے۔ تو اپنے بندوں پر بہرحال رحمت ہی فرماتا تھا ہم گناہ کا اعتراف کرتے ہیں۔ہم تیرے محبوب ﷺ کے پریشان حال امتی ہیں۔ تجھے اپنے محبوب رحمت للعالمین ﷺ کا واسطہ‘ ہمارے گناہوں سے صرف نظر فرما اسی رسول رحمتؐ کا صدقہ عطا فرما جس کی دعا مغفرت سے تو عاصیوںکے گناہوں پر اپنی روائے بخشش ڈالتا ہے پھر اپنے محبوبﷺ کی سفارش اور وسیلے سے تیرے بحر رحمت میں جوش آتا ہے اور تیرا وعدہ کرم دستگیری فرماتا ہے۔یہ تیرا قانون کرم ہی کہ تونے فرمایا سبقت رحمتی علیٰ غضبی ’’کہ تیری رحمت تیرے غضب پر غالب ہے‘ ہاں مالک بے شک ہمارے گناہی ہیں جو تیرے غضب کو دعوت دیتے ہیں لیکن ہم نادان ناتواں۔بار بار بھولنے والے عصیاں شعار ہیں۔ ہماری بے کسی پر رحم کر اور اپنی عظمت اور رحمت کو ہماری دستگیری کے لئے سامان بنا دے۔ تیرے محبوب ﷺ کی امت پریشان ہے ناداری اور بے چارگی نے گھیرا ڈالا ہے تو ہمیں معاف فرما۔ گناہوں پر اپنے کرم کے بادل برسا کر انہیں دھو ڈال اور ہمیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے۔ درویش نے فرمایا کہ توبہ کر تاکہ اطمینان کا نور اترے اور یہ وظیفہ پڑھتا رہ مسلسل تاکہ رحمت خدا وندی حصار کر لے۔ وظیفہ یہ ہے: وعف عنا واغفر لنا و ارحمنا‘(100مرتبہ صبح 100مرتبہ شام سورۃ فلق کی دو آیات قل اعوذ برب الفلق من شرما خلق پڑھ کرپھر پوری سورۃ فلق اور پوری سورۃ والناس پڑھے۔بارہ سو مرتبہ پڑھیں۔ ایک تسبیح مکمل کر کے آخر میں ایک مرتبہ سورۃ فلق ‘ ایک مرتبہ سورۃ والناس