ایسے تمام جرائم پیشہ افراد کی اکثریت عموماًالیکشن جیت جاتی ہے۔اس وقت لوگ سبھا کے 371ممبران میںسے 174ممبران ایسے ہیں جو مختلف خطرناک جرائم کے الزام میں مقدمات بھگت رہے ہیں۔ جرم و سیاست کا یہ گٹھ جوڑ بھارت کی جمہوری سیاست کا جزو لاینفک ہے۔ بھارت کی جمہوریت کا خمیر گروہ بندی اور معاشرتی درجہ بندی سے اٹھا ہے۔ چار بنیادی ذاتوں، برہمن، ویش، کھشتری اور شودر نے معاشرے میں ایسی تقسیم پیدا کر رکھی ہے کہ ہر ذات والا اپنے گروہ یا قبیلے کے کسی مجرم، چور، قاتل، ڈاکو اور اغوا برائے تاوان والے کوبھی اس کے جرائم کے باوجود ووٹ دیتا ہے اوربار بار دیتا رہے گا۔ اس لیئے کہ اپنی ذات ، خاندان، برادری،یا قبیلے سے باہر رہنے کاوہ سوچ تو سکتا ہے لیکن رہ نہیں سکتا۔ اس کا تحفظ اپنی برادری اور ذات سے جڑے رہنے میں ہی ہے اور اسی جڑے رہنے کی وجہ سے وہ اپنا ووٹ اپنے قبیلے، ذات اور برادری کے امیدوار کو دیتا ہے خواہ اس امیدوار نے دس قتل ہی کیوں نہ کئے ہوں ۔ جمہوری نظام میں سب سے اہم چیز ووٹ ہے اور اسی ووٹ کی وجہ سے ووٹر کی اہمیت ہے جو الیکشن کے دنوں میں دو چند نہیں بلکہ کئی چند ہو جاتی ہے۔ دنیا کی ہر جمہوریت میں ووٹ کو ایک ’’تعصب ‘‘کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر اس ’’تعصب ‘‘کو اعلیٰ و ارفعٰ ثابت کرنے کے لئے اسے ’’نظریاتی‘‘ کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ خالصتاً نسل، زبان، علاقے، برادری یا پیشے کے اعتبار سے قائم سیاسی پارٹیاں یا سیاسی گروہ بھی اپنے ووٹر کو’’ نظریاتی‘‘ ووٹرکہتے ہیں۔ بظاہر نظریہ تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کسی دوسرے گروہ کی نسل کشی بھی تو ایک نظریہ ہے، اپنی نسل کی برتری اور اسے دنیا کے اقتدار پر قابض کرنا بھی توایک نظریہ ہی ہے۔ جنگِ عظیم اوّل میں جرمن قوم کی بدترین شکست کے بعد جس نسلی انتقام اور دنیا کے نقشے پر قومی عزت کی بحالی کے جس جذبے نے جنم لیا تھا، اسی کی کوکھ سے ایک طاقتور جمہوری رہنما’’ اڈولف ہٹلر‘‘ پیدا ہوا، جو جمہوری الیکشنوں میں ناقابلِ یقین اکثریت کے ووٹ لے کر جیتا۔ ووٹر کے اس تعصب نے جس طرح ایک پوری قوم کو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کے سامنے کھڑا ہونے کا جذبہ عطا کیا، وہیں اسی جمہوری تعصب نے جرمنوں کو غیر جرمن اقوام سے زندہ رہنے کے حق کو چھیننے والا ظلم بھی تحفے میں دیا۔ یہودیوں سے زیادہ کون اس کرب سے گزرا ہوگا جن کی نسل کشی پر جرمن قوم کے ووٹرز کی جمہوری مہر ثبت ہے۔ جمہوری نظام کی جڑ تفریق اور تقسیم پر ہے اور یہی تقسیم ہے جو مخصوص گروہی تعصب کو جنم دیتی ہے۔ دویا دو سے زیادہ سیاسی پارٹیاں جمہوری طرزِ سیاست کی بنیاد ہیں۔ ان کے درمیان ایک ایسی کشمکش پیدا کی جاتی ہے کہ آہستہ آہستہ ایک مقام ایسا آجاتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے کسی مذہبی گروہ والی شدت پسندی کے ساتھ نفرت کرنے لگتی ہیں۔ اس شدت پسندانہ نفرت سے ہی جمہوریت کے دیئے میں تیل ڈلتا ہے اور الیکشن کے بعد قائم ہونے والے اقتدار کی شمع روشن ہوتی ہے۔دنیا بھر کے ’’جمہوری مفکرین‘‘کسی ایسے نظام کو جمہوریت ماننے کو تیار ہی نہیں جس میں سیاسی پارٹیاں نہ ہوں یا پھر صرف ایک ہی سیاسی پارٹی ہو اور لوگ نظریے کے تعصب سے بالاتر اور پارٹی کی آمریت سے باہر نکل کر کسی فرد کی اہلیت پر اسے منتخب کریں۔ جمہوری سیاست کا یہی پیدائشی تعصب ہے جو الیکشنوں میں شدید قسم کی کشمکش کو جنم دیتا ہے۔ جمہوریت میں یہ تعصب اسقدر مقدس ہے کہ ایک انسان اگر اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لے تو نظریۂ آزادیٔ مذہب کے نام پر اس شخص کی عزت کی جاتی ہے، لیکن کسی بھی پارٹی بدلنے والے کو ذلت و رسوائی کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ ’’لوٹا‘‘کہنے کی رسم تو ہمارے ہاں بھی عام ہے ۔ایک جمہوری معاشرے میں کشمکش کے لئے سیاسی پارٹیاں بالکل ایک ’’مذہب‘‘ کا روپ دھار لیتی ہیں، جن کے اپنے اپنے تابع فرمان مقلد ین یا چیلے ہوتے ہیں۔ ان ’’سیاسی مذاہب‘‘ کے ماننے والوں کے علاوہ عوام میں ایک کثیر تعداد ’’جمہوری دہریوں‘‘ (Democratic Agnostics)کی بھی ہوتی ہے جو ہمیشہ کسی ایک پارٹی کے مذہب پر سختی سے کاربند نہیں رہتے۔یہ ’’جمہوری دہریے‘‘ ایسے ہوتے ہیں جن کی اہمیت صرف اور صرف الیکشنوں کے دنوں میں ہی اجاگر ہوتی ہے۔ انہیں ’’جھولے پربیٹھے ہوئے ووٹر‘‘ (Swing Voters)کہا جاتا ہے۔ یہ وقتی طور پر اور اچانک فیصلہ کرتے ہیں اور یوں الیکشنوں میں ہار جیت کے موسموںجیسی رنگارنگی پیدا کی جاتی ہے۔ اس پورے نظام میں جو کشمکش کی فضا ہے اس پر دنیا کے ہر جمہوری ملک میں دو چیزیں مسلسل اور مستقل طورپراثر انداز ہوتی رہتی ہیں : ایک، دھن (Money)اور دوسری ،دھونس (Muscle)۔ سارے نظریے، تمام اخلاقیات اور ہر قسم کی شفافیت اس’’ دھن‘‘ اور ’’دھونس‘‘ کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ دھن یعنی سرمائے کا ذکر تو بار بار آتا ہے اور اب تو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکہ ہو یا بھارت، برطانیہ ہو یا پاکستان، اربوں روپے کے سرمائے کے بغیر جمہوری سیاست کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ سرمایہ کہاں سے آتا ہے، کون سے گروہ ہیں جو اپنے آئندہ کے کاروباری مقاصد کے حصول اور ناجائز کاروبار کے تحفظ کے لئے بظاہرایک دوسرے کی مخالف سیاسی پارٹیوں کوبیک وقت فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح جو بھی پارٹی الیکشن میں جیت جائے ان ’’ڈونرز‘‘ کی چاندی ہو جاتی ہے۔ جیتنے والی پارٹی کی مدد سے انہی کے مفادات کے تحفظ اور ان کی چور بازاری کے تسلسل سے حکومتی کرپشن کے خاردار درخت کی نشو ونما ہوتی ہے۔ یہ دھن یا سرمایہ ایک اور طریقے سے بھی جمہوری نظام کی آبیاری کرتا ہے اور وہ ہے خریدا ہوا، بکا ہوا اور مخصوص مفادات کے تحفظ کا علمبردار میڈیا۔یہ میڈیا میٹھے زہر کی طرح ذہنوں میں سرایت کر کے کسی بھی پارٹی یا کئی پارٹیوںکے لیئے رائے عامہ ہموار کر تا ہے۔ سرمائے سے بھی بالا تر ایک اور قوت ہے جو جمہوریت پراس سے زیادہ شدت کے ساتھ اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ’’ دھونس‘‘ یعنی طاقت و قوت (Muscle Power)ہے۔ اس قوت کے مظاہر عجیب و غریب ہیں۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں یہ سردار، وڈیرے یا چودھری کے خوفناک غلبے سے شروع ہوتی ہے ۔اس کی مرضی کے بغیر کوئی شخص دوسری جانب ووٹ نہیں دے سکتا۔ کسی جگہ اگر سردار، وڈیرہ یا چودھری کمزور پڑ جائے تو پھر بدمعاش، گینگ والے، کن ٹٹے، قاتل، سمگلریا منشیات فروشوں کے گروہ ان کی جگہ لے لیتے ہیں ۔یہ گروہ کسی مخصوص پارٹی سے اپنے مفادات وابستہ کرتے ہیں اور پھر ووٹر ان کی بندوقوں کے سائے تلے ان کی مرضی کے مطابق ووٹ ڈالتا ہے۔ ایسے گروہ دنیا کے ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ کہیں انہیں ’’مافیا‘‘ کہا جاتا ہے اور کہیں ’’کلٹ‘‘ (Cult)، لیکن دنیا کی کوئی جمہوریت ان گروہوں سے آزاد نہیں ہے۔ دھونس سے الیکشنوں پر اثرانداز ہونے کی سب سے بڑی مثال اٹلی کا مافیا ہے جس کی آشیرباد کے ساتھ لاتعداد لوگ سینٹ تک پہنچتے ہیں۔مشہور جج ’’پاؤلو بورسلینو‘‘ جسے سسلی کے مافیا نے قتل کیا تھا اس نے کہا تھا "Politics and mafia are two powers on same Territory, either they make war or they reach an agrement" یعنی ’’مافیا اور سیاست ایک ہی جاگیر کی دو طاقتیں ہیں، یہ امن سے رہیں یا آپس میں جنگ کریں‘‘۔ دنیا کے ہر ملک کے ہر حلقۂ انتخاب میں ایسے لاتعداد مافیاز اور دھونس دینے والے گروہ موجود ہوتے ہیں جو ووٹروں کو اپنے خوف سے ہانکتے ہوئے پولنگ اسٹیشنوں تک لے کر آتے ہیں۔ پاکستان میںبھی ایسی دھونس والے گروہ لاتعداد ہیں۔ برادری ہے، قبیلہ ہے، فرقہ اور مسلک ہے، ایسے گروہ کے ساتھ کچھ ووٹرز کا مفاد بھی وابستہ ہوتا ہے، لیکن بے شمار غریب ، مسکین اور بے یار و مددگار ووٹر ایسے بھی ہوتے ہیں جو خوف کے تازیانوں میں بھینسوں کے غولوں کی طرح الیکشن کی منڈیوں میں لا کر بیچے جاتے ہیںاور عموماً ان غولوں سے باہر نکل کر بھاگنے والے کی سزا عبرتناک ہوتی ہے یعنی نوکری سے محرومی، بیوی بچوں پر تشدد یا اغوا،ایسے ’’غدار‘‘کی سرعام تذلیل اور بعض معاملات میں قتل۔ پاکستان میں پچاسی ہزار تین سو تیرہ (85,313)پولنگ سٹیشن ہیں، ان میں سے کم از کم ساٹھ ہزار پولنگ سٹیشنوں پر یہ کھیل جاری رہتا ہے، جبکہ باقی 25ہزار پولنگ سٹیشنوں پر رونقیں دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کسقدر شفاف اور شاندار طرزِ سیاست ہے۔ ان ساٹھ ہزار پولنگ سٹیشنوں کے ووٹرز کسی ایجنسی کے دھمکاوے میں نہیں بلکہ علاقے کے غنڈہ صفت مقامی رہنما کے خوف میں وہاں آتے ہیں۔ ایسے ووٹوں سے منتخب ارکانِ اسمبلی سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں گے۔ ضمیر جہاں دفن ہوتا ہے، اس کی قبر سے چند قدم کے فاصلے پر جمہوریت، جمہوری الیکشن اور جمہوری حکومت کا خاردار درخت پروان چڑھتاہے۔(ختم شد)