آپ کے ہاتھ میلے نہیں ہونگے۔‘‘ اس ‘‘والہانہ‘‘ استقبال کے بعد مشرف نے چھوٹتے ہی کہا،‘گیلانی صاحب آپ آئے د ن بلوچستان کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں۔آخر آپ کو وہاں کی صورت حال کے بارے میں کیا پتہ ہے؟۔ آپ بلوچستان کی فکر کرنا چھوڑیں۔‘‘ بقول ان افراد کے جو اس میٹنگ میں شریک تھے،مشرف نے ایک تو خود ہی بلوچستان کا ذکر چھیڑا اوربزرگ کشمیری رہنما کی توہین کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ان افراد کے مطابق گیلانی صاحب نے جواب دیا کہ کشمیر کاز پاکستان کی بقا سے منسلک ہے۔ اس کے رکھ رکھائو ، اس کی سلامتی اور اس کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی انکو فکر ہے۔ اس کے بعد مشرف نے اپنے فارمولہ کی مخالفت کرنے پر انکو آڑے ہاتھوں لیا۔گیلانی صاحب نے انکو انکی افغانستان پالیسی اور امریکہ کی مدد سے اپنے شہریوں کو قتل کروانے پر بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ تحریکوں میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ 20منٹ کی یہ میٹنگ اس طرح کی ‘‘خیر سگالی‘‘ پر ختم ہوئی۔ایک سال بعد اکبر بگٹی کو جب ایک غار میں ہلاک کیا گیا، تووہ سخت نالاں تھے۔ اس کا ذکر بعد میں 2011ء میں دہلی میں انہوں نے اس وقت کی پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے ساتھ بھی کیا۔واپسی پر مشرف کے حکم پر پاکستان میں ان کے دفاتر بند کر دئے گئے۔ سرینگر راج باغ میں بھی ان کو اپنا دفتر بند کرنا پڑا۔ چونکہ میرا بھی خیال تھا کہ مشرف فارمولہ سے کم سے کم لائن آف کنٹرول کو کھول کر عوام کو کسی حد تک راحت اور ان کا احساس اسیری دور کیا جاسکتا ہے، میں نے ایک بار انکو قائل کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان کا جواب تھا کہ’’ اگر یہ حل قابل عمل ہے تو اسکو لاگو کرنے کیلئے سید علی گیلانی کا آن بورڈ ہونا کیوں ضروری ہے؟ اگر یہ کامیاب ہوتا ہے تو میں خود ہی سیاسی طور پر بے وزن و بے وقعت ہو جائو ں گا اور اگر بھارت آمادہ ہے تو مشرف کے بجائے اس کے لیڈران اسکا اعلان خود کیوں نہیں کرتے ہیں۔‘‘ریاستی کانگریس کے صدر غلام رسول کار اور معروف دانشور اے جی نورانی نے انکو ایک بار کہا کہ’’ وہ اسلئے اس امن مساعی کی مخالفت کرتے ہیںکیونکہ وہ کوئی داغ لئے بغیر دنیا سے نہیںجانا چاہتے اور مرتے وقت شیخ عبداللہ کی طرح کا دھوم دھام کا جنازہ چاہتے ہیں۔‘‘ گیلانی صاحب نے کہا کہ وہ کوئی سودا کرنے کے بجائے گمنامی کی موت پسند کریں گے۔دہلی سے سرینگر آتے ہوئے ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے ایک بار مجھے بتایا ’’کہ یہ واحد ناقابل تسخیر لیڈر ہے جس کو خریدا نہیں جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کو معلوم ہے کہ ان کے پاس بھی وافر فنڈنگ آتی ہے، مگر وہ اسکو اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے مستحقین تک پہنچاتے ہیں۔ ‘‘حتیٰ کہ انہوں نے اپنے آبائی گاوںمیں اپنی اور اہلیہ کی پراپرٹی وہاں ایک اسکول کو وقف کی۔اس سے قبل بیٹوں اور بیٹیوں کو جمع کرکے بتایا کہ اگر ان کو اعتراض ہے تو وہ اپنا حصہ یا اسکی قیمت لے سکتے ہیں۔ سرینگر میں ان کی رہائش گاہ جماعت کی ملکیت تھی، جس کو بعد میں تحریک حریت سے متعلق ٹرسٹ کو ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ 1970میں ممبر اسمبلی بننے سے قبل ہی انہوں نے ڈورو گائوں میں مکان بنانا شروع کیا تھا جو 1988میں تیار ہو گیا تھا۔ مگر اس میں ان کو رہنا ہی نصیب نہیں ہوا۔ وہ جلد ہی جیل چلے گئے اور پھر پارٹی اور احباب کی ہدایت پر سرینگر منتقل ہو گئے۔ اس مکان کو بعد میں سرکاری جنگجووں نے بلاسٹ کرکے تہس نہس کر دیا ۔ اے جی نورانی کی معیت میں ایک بار نیشنل کانفرنس کے ایک سینئر لیڈر اور فاروق عبداللہ کے کزن شیخ نذیر نے ہمیں بتایا کہ وہ کشمیر کے سب سے بڑے بھارت مخالف شخص ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی انڈین پاسپورٹ کیلئے درخواست نہیں دی ہے ۔وہ انڈین ائیرلائنز کے جہاز میں سوار ہوتے ہیںنہ ہی دہلی آتے ہیں۔ اس کی وجہ انہوں نے بتائی کہ جب شیخ محمد عبداللہ دہلی کے کوٹلہ لین میں نظر بند تھے تو انکو انکی بیٹی ثریا کی شادی میں شرکت نہیں کرنے دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ صاحب نے ان کے ہاتھ ثریا کیلئے تحفہ دیکر منہ دوسری طرف کر لیا تھا کیونکہ وہ رو رہے تھے۔ یہ تاریخ اکتوبر 1999میںدوبارہ دہرائی جا رہی تھی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ خود شیخ نذیر اور فاروق عبداللہ اب پاور میں تھے اور شادی گیلانی صاحب کی صاحبزادی ، جس کا نام بھی ثریا تھا، کی ہو رہی تھی۔ پارلیمانی انتخابات کے موقع پر ان کو گرفتا رکرکے جودھ پور جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ جہاں طبیعت کی ناسازی کے باعث دہلی لاکر ان کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمز) کے آئی سی یو وارڈ میں داخل کر دیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر پولیس کے دہلی یونٹ سے فون آیا کہ آئی سی یو کے باہر کسی رشتہ دار کا بطور اٹنڈنٹ ہونا ضروری ہے۔ خیر اس رات میں آئی سی یو کے باہر بیٹھا رہا۔ سرکاری ہسپتال ہونے کی وجہ سے وقتاً فوقتاً کوئی وارڈ بوائے یا ڈاکٹر باہر نکل کر کسی مریض کی موت کا اعلان کرتے تھے یا دوائی لانے کی ہدایت دیتے تھے۔ اگلے روز ان کو کمرہ میں منتقل کیا گیا۔ جہاں باہر پولیس کا پہرہ ہوتا تھا اور وہ فون اندر لے جانے نہیں دیتے تھے۔ ان کی بیٹی کی شادی کے دن میں نے ان سے درخواست کی کہ ان کو فون پر ہی نکاح کی تقریب میں شمولیت کی اجازت دی جائے۔ پولیس والوں نے جب تک اجازت طلب کی، تب تک نکاح کی مجلس اختتام کو پہنچ چکی تھی مگر جب ثریا وداع ہو کر گاڑی میں بیٹھ رہی تھی تو اس وقت ہمیں فون کرنے کی اجازت مل گئی۔ وہ تقریبا ایک سال سے زائد عرصہ جودھ پور جیل میں رہے۔ اپریل 2001میں ثریا کا بعد میں انتقال ہو گیا۔فن خطابت پر ان کو ملکہ حاصل تھا۔ بقول پروفیسر بھیم سنگھ، جو ان کے ساتھ اسمبلی میں ممبر تھے، ’’ ان کی تقریر کے وقت سناٹا چھا جاتا تھا ۔ ارکین اسمبلی کے ساتھ اسٹاف سے گیلریاں بھر جاتی تھیں۔ان کی تقریر اردو لغت کا ایک ذخیرہ ہوتی تھی۔ (جاری ہے)