ساٹھ ، ستر اور اسّی کی دہائیاں اس مملکتِ پاکستان میں نظریاتی کشمکش کے تیس برسوںسے عبارت ہیں۔ ان برسوںمیں قوم پرست سیاست اور کیمونزم دونوں، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سیاست کی وادی ٔپرخار میں نعرہ زن تھے۔ ان میں کانگریس کے ہم رکاب سیاست دان اور علماء بھی تھے ،جن کی سیاست کا قائد اعظم کی مسلم لیگ نے 1947ء میں جنازہ نکال دیا تھا اور ترقی پسند دانش وروں، ادیبوں اور شاعروںکی ایک نسل بھی شامل تھی۔ ان دونوں کی بنیادی نفرت پاکستان کی اسلامی اساس سے تھی۔ تخلیق پاکستان کے روزِ ازل سے ان کیمونسٹ دانشوروں اور قوم پرست سیاستدانوں نے پختون اور بنگالی قومیت کے استحصال اور مظلومیت کے نعروںکے ملبوس میں پاکستان سے نفرت کا زہر،ایک منصوبے کے تحت بھرا۔ دونوں قوم پرستوں کے ڈانڈے بھارت سے ملتے تھے اور بنگالیوں کو توبراہ راست آشیر باد تھی ۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد اندرا گاندھی سے لے کر نریندر مودی تک ہروزیراعظم نے پاکستان توڑنے کے جرم کا فخریہ اعلان کیا، لیکن میرے ملک کے بددیانت سیکولر، لبرل دانشور آج تک اس پورے سانحے کا الزام مغربی پاکستان کے عوام اور بقدرِ بغض و عناد، فوج پرڈالتے ہیں۔ دوسری جانب پشتونستان یا پختونستان کی’’ قوم پرست‘‘ تحریک ایسی تھی جسے سویت یونین نے 1920ء میں آذربائجان میںہونے والی قومیتوں کی کانفرنس نے سینچاا اور تخلیقِ پاکستان کے بعد بھارت نے براستہ افغانستان اس میں اپناحصہ ڈالا۔برطانوی ہندوستان کی لڑائیوں کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالا جاتارہا، جس کی وجہ سے ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کو ایک عارضی سرحد بتاکر مارگلہ کی پہاڑیوں تک ’’پشتونستان‘‘کا نعرہ بلند کیا جاتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی انا اور مخالفین کو برداشت نہ کرنے کی خصلت نے جب سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کی حکومت کو برطرف کیا،تو بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد سے قوم پرست رہنما اور’’کیمونسٹ انقلابی‘‘ افغانستان کوچ کر گئے۔ان رہنماؤں کے ہمراہ سوشلزم اور کیمونزم کے نظریات کے جانثار اور انگریزی زبان کے لیکچرر ’’جمعہ خان صوفی‘‘ نے بھی ہجرت کی۔ وہ 16برس کابل میں مقیم رہے۔ ستر کی اسی دہائی میںیہ پشتون اور بلوچ قوم پرست رہنما،افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریبی سرگرمیاں منظم کرتے رہے۔ افغانستان میں روس کی شکست کے بعدجمعہ خان صوفی واپس آگئے اور پھرانہوں نے چالیس سال بعداپنی خاموشی توڑی اور ان پس پردہ قوتوں کی کہانی بیان کی، جو پاکستان میں باچاخان، عبد الولی خان، خیر بخش مری اور اجمل خٹک کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرتی رہی تھیں۔ ان کی کتاب ’’فریبِ ناتمام ‘‘اس تلخ حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہے کہ کیسے بھارت ، افغانستان اور روس مل کر ان سیاسی رہنماؤں کے ذریعے بلوچستان اور سرحد میں سیاسی ابتری پھیلا رہے تھے۔ جمعہ خان صوفی کی یہ کتاب 2015ء میں آئی تھی اور اس نے پاکستانی تاریخ کے ان کرداروں کو بے نقاب کیا ، جو کبھی اس ملک میں ’’سرخ سویرے‘‘ کی جدوجہد کی علامت اور آج کل سیکولر لبرل بنے ہوئے ہیں۔ جمعہ خان صوفی، ایک ایسا واقفِ رازِ درونِ میخانہ ہے جو افغان صدور،سردارداؤد سے لے کر ڈاکٹر نجیب اللہ تک افغانستان کے ہر حکمران کے قریب رہاہے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کو توجمعہ خان صوفی نے اردو اور انگریزی زبان پڑھائی تھی۔اس کتاب میںجمعہ خان صوفی نے اس دکھ کا اظہار کیاہے کہ وہ تمام سیاسی لیڈر جو کابل اور ماسکو میں بیٹھ کر ’’بھارتی سفارت خانے‘‘ کے توسط سے پاکستان کے خلاف ایک گھناؤنا کردار ادا کرتے رہے انہیں جنرل ضیاالحق نے محض بھٹو دشمنی میں معاف کر دیا۔ ’’فریبِ ناتمام ‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جسے ’’حمود الرحمٰن کمیشن‘‘ کے ہمراہ ایک ساتھ قومی سیاسی تاریخی کا حصہ بنانا چاہیے۔ اس لئے کہ یہ ان تمام کرداروںکے اصل چہروں سے نقاب الٹتی ہے ۔ یہ چہرے آج بھی میرے ملک میں معزز و محترم سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارا دانشور انہیں جمہوری جدوجہد کے ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے۔لیکن میرے ملک سے ان رہنماؤںکی نفرت کمال کی تھی۔ یہ لوگ پاکستان کی فوج کو گالی دیتے تھے اور آج بھی ایسا ہے ،لیکن روس کی فوج کو امن و انصاف کی علمبردار پکارتے تھے اور اب امریکی افواج کو انسانی حقوق کی علمبردار کہتے ہیں۔انہی رہنماؤں کی کرم فرمائی سے پاکستان کے وجوداور سرحد وں کو متنازعہ بنانے کے لئے ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ مدتوں زیر بحث لایا جاتا رہا۔ یہ لائن افغانستان اور برطانوی ہندوستان کے درمیان اس وقت کھینچی گئی تھی ، جب افغانوں کے ساتھ ’’گندمک معاہدہ‘‘ ہوا تھا۔ پاکستان کو یہ سرحد ورثے میں ملی، جسے متنازعہ بنا کر بلوچستان اور سرحد کے پشتونوں کو افغانستان کے پشتونوں کے ساتھ ایک اکائی ثابت کرکے پاکستان سے علیحدگی کی تحریک چلانامقصود تھی۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں تین نعرے بلند ہوئے تھے، بنگلہ دیش، پشتونستان اور سندھودیش۔ بنگلہ دیش بن گیا تو ان قوتوں کو حوصلہ ملا۔ لیکن سند ھ میں بھٹو کی مقبولیت اس نعرے کو کھا گئی۔ دوسری جانب معاشی ترقی نے پشتونوں کو اٹک سے پار پاکستان کے ہر کونے میں پھیلا دیا، ٹرانسپورٹ اور روڈ سائیڈ ہوٹلوں کا کاروبار پختونوں کے لیئے مخصوص ہو کر رہ گیا اورآج بھی ہے۔یوں پورے ملک میں پھیلے پشتونوں کے مفادات نے پشتونستان کے نعرے کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ آخری دفعہ ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور میں محمود خان اچکزئی نے ایک نعرہ بلند کیا،’’دہ بولانہ تا چترالہ:پشتونستان دی پشتونستان دی‘‘۔ یعنی بولان سے چترال تک پشتونستان ہے۔ اس نعرے کو بلوچوں نے اپنی خودمختاری پر حملہ تصورکیا اور کوئٹہ میں 1988ء کا وہ بھرپورجلسہ جس کی قیادت نواب اکبر بگٹی نے کی تھی ،اس میں اعلان کیا گیا کہ چترال کو جو مرضی کہو مگر بولان کو پشتونستان مت سمجھنا۔ اس کے بعد پشتونوں اور بلوچوں میں ایسی جنگ شروع ہوئی کہ اسّی اور نوے کی دہائیوں میں کوئٹہ خون سے رنگین ہو گیا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اسی متنازعہ ڈیورنڈ لائن اوراس سے متعلق سازشی نظریات کے بارے میں تاریخی حقائق کے ساتھ جمعہ خان صوفی اب ایک نئی کتاب لائے ہیں جس کا نام ہے، ’’نام نہاد ڈیورنڈ لائن (دادا پوتے کی سرحد)، دستاویزات اور تجزیات ‘‘۔یہ کتاب پشتو زبان میں لکھی گئی تھی اور اب اس کا ایک ہی جلد میں انگریزی اور اردو ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں لاتعداد دستاویزات کی مدد سے جمعہ خان صوفی نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر افغانستان کا زمینی دعویٰ بے بنیاد ہے۔ ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں، ’’ پاکستان کے خلاف افغانستان کا زمینی دعویٰ جس قدر لغو اور بے بنیاد ہے، اس کا مہذب دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔یہ دعویٰ ٖغیر منطقی، غیر قانونی، تاریخی حقائق سے عاری اور متصادم، غیر سیاسی اور غیر اخلاقی ہے۔ اس دعوے کی بنیاد محض جذباتی اور قبائلی تعصبات پر قائم ہے، جس کے لئے عالمی قوانین میں کوئی گنجائش نہیں‘‘۔ اپنے ان الفاظ کے ثبوت میںجمعہ خان صوفی نے اس کتاب میںنا قابل تردید شواہد پیش کیے ہیں۔ جمعہ خان صوفی کی دوسری کتاب ’’افغانوں کا پٹہ خزانہ، اصلاً ’جعلی خزانہ‘‘ ہے۔ یہ بھی پشتو میں لکھی گئی پھر اردو میں ترجمہ ہوئی ۔ اس کتاب میں جمعہ خان صوفی نے 1944ء میں شائع ہونے والی پشتو ادب کی مشہورکتاب ’’پٹہ خزانہ‘‘ کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔جمعہ خان کے مطابق ادب کی اس کتاب کوخاص سیاسی مقاصد کے لیئے مرتب کیا گیا تھا تاکہ پشتو کو عبرانی سے بھی زیادہ قدیم ثابت کرکے قومیت کو اسلام سے مضبوط اور قدیم ثابت کیا جائے۔ اسی پٹہ خزانہ ہی سے تو ولی خان کے اس زبان زدِ عام فقرے نے جنم لیا تھاکہ’’ ہم تین ہزار سال سے پشتون، چودہ سو سال سے مسلمان اور ساٹھ سال سے پاکستانی ہیں‘‘۔ جمعہ خان کے بقول ’’پٹہ خزانہ‘‘ کو افغان پشتونوں نے قرآن سے بھی زیادہ مقدس سمجھا ، تاکہ پشتون قومیت کا بیج نسلی تفاخر میں بویا جا ئے۔لیکن جمعہ خان کے اس کتاب کے پوسٹ مارٹم نے حیران کر دیاہے۔یہ دونوں کتب بہت مختصر ہیں، لیکن انکشافات اور حقائق کا خزانہ ہیں۔ جمعہ خان صوفی کی پہلی کتاب ’’فریبِ ناتمام‘‘ ایک ایسے پبلشر نے چھاپی تھی، جس نے اسے لوگوں تک پھیلانے سے شاید عملاً روکے رکھا ۔ اسی لئے انہوں نے یہ دونوں کتب خود چھاپی ہیں۔