ترک صدر رجب طیب اردوان نے ملائشین وزیر اعظم مہاتیر محمد سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے۔ ترک صدر نے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔اس ٹیلی فونک رابطے کی خاص اہمیت وہ تجویز ہے جس پر تینوں ممالک کے سربراہ سہ فریقی اتحاد پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ جناب طیب اردوان نے تنازع کشمیر اور افغان مفاہمتی عمل پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی۔ ملائشین وزیر اعظم جناب مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ امہ کے اتحاد کی خاطر پاکستان‘ ملائشیا اور ترکی میں یکجہتی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دفاعی شعبے میں مل کر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے جبکہ ترک صدر طیب اردوان کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے سے تجارت اور سیاسی تعاون بڑھا کر مدد کریں۔ آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹس میں ترکی کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دیا گیا ہے۔ یورپی یونین ترکی سے پھل اور سبزیوں کی شکل میں سالانہ 900ملین یورو کی اشیا درآمد کرتی ہے۔ ترکی مجموعی طور پر سالانہ 235ارب ڈالر کی اشیا درآمد کرتا ہے۔ ترکی چینی‘ فولاد‘ کار انجن‘پلائی ووڈ‘ شیشہ سازی‘ نمک‘ چاندی ‘سونا اور کئی طرح کے کیمکلز کی پیداوار میں اہمیت رکھتا ہے۔ ترکی سکریپ لوہے کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ سالانہ لاکھوں موبائل فون کی کھپت ہے۔ ترکی کے اکثر مسائل کی نوعیت ماحولیات سے متعلق ہے۔ وہاں حیاتیاتی تنوع خطرے میں ہے۔ ہوا آلودہ ہو رہی ہے۔ پانی میں آلودگی شامل ہو رہی ہے۔ گرین ہائوس گیسز بڑھ رہی ہیں اور زمین بنجر ہو رہی ہے۔قوت خرید کے اعتبار سے ترکی دنیا کا تیرہواں بڑا ملک ہے۔2017ء کے دوران ترکی اور پاکستان کے مابین مجموعی تجارتی حجم 596.08ملین ڈالر تھا۔ اس تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں 88.61ملین ڈالر ہے۔ پاکستان ترکی کو طبی آلات‘ چاول‘ تازہ اور خشک کھجوریں‘ مردانہ ملبوسات ‘ چینی اور دیگر اشیا برآمد کر سکتا ہے۔ پاکستان کو ترکی کے بعد جن ممالک نے بین الاقوامی فورمز پر ہمیشہ اپنی حمایت فراہم کی ان میں ملائشیا نمایاں ہے۔ ملائشیا نے حالیہ دنوں ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ اسی طرح بھارت نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جب پاکستان کو دہشت گردوں کی سرپرست ریاست قرار دینے کی قرار داد پیش کی تو ملائشیا نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ ایک عرصہ تک دونوں ممالک کے تعلقات منجمد رہے۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد جن ممالک کے دورے کو ترجیح دی ان میں ملائشیا شامل تھا۔ ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد بعدازاں پاکستان تشریف لائے اور دو طرفہ تعاون میں اضافے کے امکانات پر غور کیا گیا۔ پاکستان اور ملائشیا کے تعلقات میں اضافے کا فوری مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان کی گھریلو صنعت کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا جائے گا۔ پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جب ملائشیا گئے تو انہوں نے پاکستانی معیشت کو خسارے سے نکالنے کے لئے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے خصوصی مشاورت کی۔ ملائشیا کے ساتھ پاکستان جے ایف 17تھنڈر طیاروں کی فروخت‘ اینٹی ٹینک میزائل کے سودے پر کام کر رہا ہے۔ یہ امر پیش نظر رہے کہ 50مسلم ممالک کی مجموعی جی ڈی پی 6کھرب ڈالر سے کچھ زاید ہے۔ مسلمان دنیا کی کل آبادی کا 25فیصد ہیں جبکہ ان کی مجموعی معیشت عالمی معیشت کا 8فیصد ہے۔ اس صورت حال میں مسلم دنیا کے سیاسی مسائل اگر عالمی توجہ حاصل نہیںکر پاتے تو اسے معاشی طاقت سے الگ معاملہ نہیں سمجھا جانا چاہیے ۔عہد موجود کی دنیا جغرافیائی اتحاد کی بجائے اقتصادی اتحاد کواپنانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ عالم اسلام کے تینوں ممالک پاکستان‘ ترکی اور ملائشیا اس لحاظ سے منفرد حیثیت کے مالک ہیں کہ ان ملکوں نے سائنس‘ اختراع‘ دفاع اور بین الاقوامی تعلقات کے ضمن میں خود کوعالمی برادری میں نمایاں رکھا ہے۔ ایک زمانے میں پاکستان‘ ایران اورترکی کے سہ ملکی اتحاد نے آر سی ڈی کے نام سے نمو پائی تھی۔ ایران میں انقلاب کے بعد یہ اتحاد برائے نام فعال رہا۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان‘ ملائشین وزیر اعظم مہاتیر محمد اور ترک صدر رجب طیب اردوان میں سے مہاتیر محمد اپنے تجربے کے لحاظ سے سینئر ہیں۔ طیب اردوان بھی اب بین الاقوامی تعلقات اور مسلم امہ کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں۔ عمران خان اپنے ان سینئر ساتھیوں جیسے تجربہ کار نہیں مگر وہ بین الاقوامی فورمز پر جب کبھی بات کرتے ہیں تو مسلم امہ کے اتحاد کی آواز بلند کرتے ہیں۔ کچھ ماہ قبل جب او آئی سی اجلاس ہوا تو وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں تنازع کشمیر کے ساتھ ساتھ تنازع فلسطین کے حل کی بات بھی کی۔ تینوں ممالک کی قیادت اپنے عوام اور مسلم امہ سے مخلص ہے۔ غالباً 1970ء کے عشرے میں ذوالفقار علی بھٹو‘ شاہ فیصل اور معمر قذافی کے بعد یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ قیادت سے محروم مسلم دنیا میں دانشمند رہنما ابھر رہے ہیں‘یہ امر جہاں باعث طمانیت ہے وہاں احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔ 1970ء کے عشرے میںمسلم امہ کے اتحاد کی بنیاد دفاعی تعاون بنایا گیا۔ تجارت کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی گئی۔ تیل کو بند کر کے امریکہ کو سرخ جھنڈی دکھائی گئی۔اس بار ایسی غلطیوں سے اجتناب ہونا چاہیے۔ تینوں رہنما پہلے ایک جگہ بیٹھ کر تفصیلی مشاورت کریں۔ یہ طے کیا جائے کہ ان کا ٹرائیکا اقوام متحدہ‘او آئی سی‘ یورپی یونین‘ افریقی یونین‘ جی 20‘ جی 8اور شنگھائی تعاون تنظیم کے معاملات پر کس طرح مشترکہ حکمت عملی اختیار کر سکتا ہے۔ تینوں ممالک کے پاس باہمی تجارت کا حجم بڑھانے کی گنجائش موجود ہے۔ تینوں مسلم ممالک کو خود کفالت پر آمادہ کر کے اور ایک دوسرے کے لئے اپنی سرزمین پر کچھ سہولیات فراہم کر کے اس مجوزہ اتحاد کے ثمرات کو یقینی بنا سکتے ہیں۔