سال کے بعد ایک خطاب ہوتا ہے اور اہل دربار اپنے سارے غناء کے ساتھ سال کے بارہ موسم قصیدے میں گزار دیتے ہیں۔ ملک الشعراء اور ان کے تمام ہمنوائوں کے ہاں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ مارٹن لوتھر کنگ کی مشہور زمانہ تقریر آج بھی دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلا نمبر اسی خطاب کا ہے جو ہر سال آقائے ولی نعمت اقوام متحدہ میں فرماتے ہیں۔ اگر ہم خطابت کے جوہر سے ہی سات براعظموں کے ٹیلے ہموار کرنے ہیں تو خطاب تو جنرل اسمبلی میں جا کر کیا ہو تا ۔ دنیا بھر کے قائدین وہاں جمع ہوتے ہیں اور وہاں سب سے مل کر بات کی جائے تو اس کا تاثر زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ پھر یہ وقت بھی معمولی نہیں ۔ کشمیر میں بھارت جو قدم اٹھا چکا ہے یہ بین الاقوامی قانون اور دو طرفہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی زندگی عذاب ہو چکی ہے ۔ بھارت کے خلاف اقوام متحدہ کے قوانین اور حقوق انسانی کا مقدمہ کھڑا کرنے کا اس سے بہتر موقع شاید ہی کبھی دستیاب ہوا ہو۔ لیکن جناب وزیر اعظم ، وطن عزیز میں اتنے مصروف ہیں کہ انہوں نے اقوام متحدہ تشریف لے جانا گوارا ہی نہیں کیا اور یہاں سے ویڈیو لنک پر ایک عدد خطاب فرما کر سرخرو ہو چکے ہیں۔ مودی جیسا فاشسٹ حکمران ، کشمیر میں اقوام متحدہ کے مسلمہ ضابطے پامال کرکے وہاں عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں کر رہا ہے اور ہم نے وہاں جانا ہی گوارا نہیں۔ سفارت کاری تو کوئی ہم سے سیکھے۔ ایک خطاب سے دوسرے خطاب کے بیچ تو ہم نے کوئی سفارتی سرگرمی دکھانی نہیں ہوتی تو خطاب کے موقع کو تو بھر پور طریقے سے استعمال کیا جا سکتا تھا۔کشمیر میں تو بھارت اقوام متحدہ کے قوانین پامال کر ہی چکا ، جس طریقے سے نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان سبوتاژ کیا گیا یہ بھی کوئی کم اہم مسئلہ نہ تھا۔ وزیر اعظم وہاں جاتے تو بین الاقوامی میڈیا سے ہمکلام ہوتے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھارت کے خلاف ایک با معنی اووفینسو لانچ کیا جا سکتا تھا۔جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس اپنی بات کہنے کا ایک موقع ہوتا ہے ۔ لیکن ہم نے ویڈیو لنک کی جگاڑ سے معاملہ نبٹا دیا۔شاید ’ہم مصروف بہت تھے‘۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ جنرل اسمبلی سے زیادہ اہمیت ہمارے لیے اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن کی لگامیں کیسے کھینچی جائیں اور اگلے انتخابات میں جیت کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ کارِ حکومت توازن اور اعتدال کا نام ہے۔ یہاں مگر ہمہ وقت ہیجان اور مبالغہ غالب رہتا ہے۔ جناب وزیر اعظم ٹرمپ سے ملاقات فرما کر آئے تو اہل دربار نے ان کا ایسا استقبال فرمایا گویا سکندر اعظم آدھی دنیا فتح کر کے لوٹ رہا ہے ، شب بھر سستائے گا اور صبح باقی دنیا فتح کرنے نکل جائے گا۔ خود جناب وزیر اعظم خوشی سے پھولے نہ سمائے اورفرمایا ایسے لگ رہا ہے کہ ورلڈ کپ جیت کر آ رہا ہوں۔معلوم انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی وزیر اعظم امریکی صدر سے ایک ملاقات کا اعزاز حاصل کرنے پر اتنا جذباتی ہو جائے کہ اسے ورلڈ کپ جیتنا قرار دے دے۔اب مودی امریکی صدر سے مل رہا ہے اور امریکی صدر اپنی مصروفیات کی وجہ سے ہمیں فون ہی نہیں کر رہا تو کیا یہ سمجھیں کہ اب کی بار ورلڈ کپ دشمن ملک لے اڑا ہے اور ہم کوالیفائنگ رائونڈ میں ہی باہر ہو گئے ہیں؟ داخلی سطح پر ایسی ہی ترک تازی گدگدا دیتی ہے۔کہاں وہ تقوے اور سادگی کا عالم شوق کہ وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں نیلام کر دی گئیں کہ اب اس گھر میں درویش لوگ آ گئے ہیں ایسی لذت دہن کے لیے عوام پر بوجھ نہیں بنیں گے اور کہاں یہ بے نیازیاں کہ آقائے ولی نعمت کو غیر ملکی دوروں پر جو تحائف ملے ہیں وہ قومی راز کی طرح چھپا کر رکھے جائیں گے اور ان کا کسی سے ذکر تک نہیں کیا جائے گا۔ معاشی امکانات کی ایسی کوہ کنی ہو رہی ہے کہ فرہاد بھی اس کا تصور کر لے تو ٹائیگر فورس میں شامل ہو جائے۔ارشاد گرامی ہے ہم بیری کے درخت لگائیں گے ، ان پر شہد کی مکھیاں آئیں گی ، وہ شہد بنائیں گی اور ہم وہ شہد دنیا کو بیچیں گے اور ہماری معیشت بہتر ہو جائے گی۔ملا نصیر الدین صاحب اگر زندہ ہو جائیں تو معاشی ترقی کا یہ فارمولا سن کر اپنے گدھے سے اتر ہی نہ پائیں اور انتقال فرما جائیں۔یہ معاشی منصوبہ اردو کے اس مشہور زمانہ شعر کی عملی شکل ہے کہ : مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو ، کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا۔ بچپن کی بات ہے ،میں نے یہ شعر سنا تو استاد محترم سے پوچھا مگس کا پروانے کے خون سے کیا تعلق۔ کہنے لگے :مگس شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ شاعر اس مکھی کو باغ میں جانے سے روکنا چاہتا ہے۔کیونکہ شہد کی مکھی اگر باغ میں گئی تو وہ چھتا بنائے گی،چھتے میں شہد ہو گا،شہد لوگ لے جائیں گے اور چھتا موم بنانے کے کام آئے گا۔ موم سے موم بتی جلے گی۔موم بتی جلی تو پروانے آئیں گے۔پروانے موم بتی پر آئے تو کل مریں گے۔اس لیے دور اندیش شاعر یہ کہہ رہا ہے کہ مگس کو باغ میں جانے ہی نہ دیجو، تاکہ پروانے کی جان بچ جائے۔ میں نے کہا استاد جی بڑا ہی دور اندیش آدمی تھا۔ایسے بندے کو شاعر نہیں کسی ملک کا حکمران ہونا چاہیے۔استاد جی ہنس پڑے اور فرمایا:رعایا کا نامہ اعمال جب تک اچھا نہیں ہو گا ایسے دور اندیش حکمران نہیں ملیں گے۔ اردو کے استاد جناب علی نواز صاحب کے پاس حاضر ہونے کا وقت آ چکا ہے۔ تا کہ انہیں خبر دی جائے قوم کا نامہ اعمال ٹھیک ہو گیا ہے۔ اچھے اور دور اندیش حاکم مل گئے ہیں ۔ قوم کی قسمت بدلنے والی ہے۔ بس ذرا بیری کے درخت لگنے اور ان پر شہد کی مکھیوں کے آ نے کی دیر ہے۔