جنرل قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ چکانے کے لئے ایران نے امریکی اڈوں کی طرف اپنے میزائل بھیجے۔ ایک میزائل نے یوکرائن ایئر لائنز کا جہاز اڑا دیا۔ پونے دو سو مسافر مارے گئے جن کی اکثریت ایرانی تھی۔ کچھ ایران کے شہری اور کچھ ایرانی تارکین وطن۔ اس جہاز کی تباہی اب ایران کے لئے حادثہ بن گئی ہے۔ ملک کے اندر باہر اس کے لئے مسئلے پیدا ہو گئے ہیں۔ ایران میں بڑے بڑے جلوس حکومت کے خلاف نکل رہے ہیں جن میں رہبر خامنائی کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہاہے۔ مظاہرین خامنائی اور صدر روحانی دونوں کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ ماضی قریب کے برعکس ان جلوسوں پر فوج نے گولی نہیں چلائی۔ گزشتہ ماہ جلوسوں کی لہر چلی تھی اور ان کو نہایت سخت گیری سے کچلا گیا،کئی مظاہرین مارے گئے۔ دارالحکومت تہران میں بہت بڑا جلوس نکلا جو روایت کے برعکس ہے۔ ماضی میں تہران کا جلوس چھوٹا ہوا کرتا تھا۔ باقی شہروں میں مظاہرین کی تعداد زیادہ ہوا کرتی تھی۔ مظاہروں کی نئی بات یہ تھی کہ انہوں نے قاسم سلیمانی کے پوسٹر پھاڑے اور نذر آتش کئے۔ بیرون ملک مسئلہ یہ بنا کہ بہت سی فضائی کمپنیوں نے ایرانی حدود کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ سیاحوں کی آمد میں بھی کمی آئی ہے اور یوکرائن نے مطالبہ کیا ہے کہ حادثے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ایرانی حکومت کا خیال تھا کہ قاسم سلیمانی کی موت کی وجہ سے عوام کی توجہ مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن سے ہٹ جائے گی ۔ ٭٭٭٭٭ بدلے کی کارروائی اپنی جگہ سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ ایران نے اعلان کیا تھا کہ عراق میں امریکی اڈے پر اس کے میزائل حملے میں 80امریکی مارے گئے ہیں۔ ایرانی حکام نے بتایا کہ انہوں نے میزائلوں پر وار ہیڈ یعنی بم گولہ قسم کی کوئی شے لگائی ہی نہیں تھی۔ یہ اپنی نوعیت کا دنیا بھر میں واحد اور منفرد میزائل حملہ تھا۔امریکہ نے کہا کہ اسے حملے کی پہلے ہی اطلاع مل گئی تھی۔ اس لئے اس نے فوجی نکال لئے تھے۔ عراقی حکام نے بتایا کہ امریکہ کویہ اطلاع انہوں نے دی تھی اور انہیں یعنی عراقی حکام کو ایران نے بتا دیا تھا کہ وہ حملہ کرنے والا ہے۔ ٭٭٭٭٭ امریکہ اور ایران میں کوئی بڑا تصادم ہونے کا امکان تھا، نہ ہے۔ ہمارے ہاں کے تجزیہ نگار تو تیسری عالمی جنگ شروع کرا ہی چکے تھے۔ مسئلہ پھر کیا ہے؟ سادہ سی بات ہے ایران تباہ یا بہت کمزور ہو جائے گا تو عرب آپے سے باہر ہو جائیں گے۔ ایران سے محاذ آرائی کی وجہ سے یہ ملک اسرائیل کے دوست بن گئے ہیں۔امریکہ اور مغرب کو اور کیا چاہیے ۔ ایران کا خطرہ ٹل گیا تو عرب پھر اپنی توپوں کا رخ اسرائیل کی طرف کر لیں گے۔ اسے ہرا نہیں سکتے‘ پریشان تو کر سکتے ہیں۔ امریکہ ایران کو ایک حد میں رکھے گا اس کے لئے وہ ’’محدود‘‘اور ٹارگٹڈ آپریشن گاہے گاہے کرتا رہے گا۔ ایران بھی کوئی ٹھوس جوابی کارروائی نہیں کرے گا جس پر امریکہ کو مجبور ہو کر کوئی زیادہ سخت آپریشن کرنا پڑ جائے یا وہ رجیم بدلنے کا سوچے، چھوٹے آپریشن جاری رہیں گے۔ امریکہ کی طرف سے بھی اور اسرائیل کی طرف سے بھی۔ ایران کے میزائل حملے کے اگلے روز اسرائیل نے عراق اور شام کی سرحد پر بوکمال کے علاقے میں ایران نواز ملیشیا حشب الشعبی کے قافلے پر حملہ کیا اور ایران سے آنے والے میزائلوں کی کھیپ اڑا دی۔ چھ گوریلے اور دو شہری مارے گئے۔ عراق سے شام کے درمیان تین سڑکیں ہیں۔ ایک کردستان سے گزرتی ہے اس لئے ایران کے لئے ممنوعہ ہے۔ دوسری جنوب کے صحرا سے جاتی ہے اسلئے دشوار گزار ہے واحد آسان راستہ بوکمال ہے۔ ایرانی ہتھیار اسی راستے شام جاتے ہیں اور اسرائیل نے حال ہی میں چار بار ایرانی کھیپ پر حملے کئے ہیں۔ ایران نے دو سال کے لئے اعلان کیا تھا کہ وہ بوکمال کے راستے لطاکیہ (بحرہ روم کی ساحلی بندرگاہ )تک ہائی وے کھولے گا۔ ابھی تک اس حوالے سے ہونے والی ہر کوشش ناکام ہوئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ امریکہ اور ایران کے درمیان عراق کا میدان جنگ سجا رہے گا۔ دونوںمیں کشمکش یہ ہے کہ ایران وہاں اپنا اثر غالب کرنا چاہتا ہے اور امریکہ ایسا نہیں چاہتا ایران نے اپنی پاسداران انقلاب کی اچھی خاصی نفری عراق بھیج رکھی ہے اور عراقیوں کی کئی ایرانی نواز ملیشیا بھی سرگرم ہیں جیسا کہ حشب الشعبی ہے۔ لیکن دوسری طرف عوامی سطح پر اکثریت ان کی ہے جو ایران کے خلاف ہیں اور یہ بھی اہل تشیع ہیں۔ یعنی معاملہ مذہبی یا مسلکی نہیں، سیاسی ہے۔ بغداد‘ کربلا بصرہ سمیت شیعہ علاقوں کے بہت سے شہروں میں ایران کے خلاف مسلسل مظاہرے ہو رہے ہیں۔