داتا دربار پر حملہ ہوا تو میں سوچ میں پڑ گیا۔ یہ کون لوگ ہیں جو بزرگوں کے مزارات کو بھی نہیں بخشتے۔ بلکہ شاید اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیںیہ کوئی مسلکی بحث نہیں ہے بلکہ ایک مزاج کا رونا ہے جو ہمارے ہاں تشکیل پاتا جا رہا ہے۔ یہاںمیں اس سے ہٹ کر ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اس سے مری بات زیادہ واضح ہو جائے۔ پروفیسر سراج پنجاب یونیورسٹی مرے انگریزی ادبیات کے استاد تھے۔ بلا شبہ ایک لیجنڈری شخصیت تھے۔ بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوںنے ایک انگریزی اخبار میں کالم لکھنا شروع کیا۔ شاید اس کا نام اوورا ے کپ آف ٹی‘ تھا۔ مجھے ان کا ایک کالم یاد پڑتاہے جس میں انیسویں صدی میں تیسویں ‘ چالیسویں اور پچاسویں دہائی کی فلموں کے حوالے سے اس بات کا تذکرہ تھا کہ جس عہد کی فلموں میں جو مزاج ہوتا ہے‘ وہ اس عہد کا مزاج ہوتا ہے اگر معاشرے میں تشدد ہو گا تو فلمیں تشدد سے بھر پور ہوں گی۔ اگر رومانس ہو گا تو فلمیں رومانوی انداز لئے ہوں گی۔ ہمارے سلیم احمد کہتے تھے کہ ہماری سوشیالوجی تو لے دے کر ہمارا ادب ہے۔ ہم اسی سے اپنے ذہنی اور فکری رویوں کو پہنچاتے ہیں۔ مجھے اس وقت یہ خیال آ رہا ہے کہ ان دہشت گردوں کے رویوں سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں مذہبی جنونیت کا پودا کس مٹی میں پروان چڑھتا ہے۔ یہ ہر طرح کی مذہبی فکر کا شاخسانہ نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کے لئے بھی ایک پس منظر درکارہوتاہے خود ہماری تاریخ میں کئی مذہبی رواتیں ایسی ہیں جن سے تشدد ظاہر ہوتا رہا ہے۔ خارجی حشیشین‘قراحطہ‘ حسن بن صباح ذرا اپنی تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ نہیں کہ یہ سب یونہی انتہا پسند اور متشدد تھے۔ ان کے پیچھے ایک فکر تھی۔ یہی خارجی ہی لے لیجیے۔ ان کی پارسائی کا یہ عالم تھا کہ ماتھوں پر سجدوں کے نشان اور دلوں میں قرآن اور یہ کہ علی اور معاویہ بھی ‘ خاکم بدہن آنکھوں میں نہ جچتے تھے۔ مگر وہ امت کے لئے ایک عذاب ہی ثابت ہوئے۔ خلافت کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ خلیفہ منتخب کرنے کا حق عوام کو ہے۔ یہ میں آج کی اصطلاحات میں بات کر رہا ہے۔وہ جب الحکم اللہ۔ الامراللہ کی تشریح کرتے تو اس کی ایسی تعبیر کرتے کہ گویا ریاست کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ جس پر حضرت علیؓ نے فرمایا کم بخت درست بات غلط موقع پر کہہ رہے ہیں۔ اصل الفاظ مجھے یاد ہیں‘ یہ میں ایک عالم اور دانشور کے انداز تقریر سے اخذ کر کے بیان کر رہا ہوں کہ اس سے میرے جذبات زیادہ واضح ہوتے ہیں۔ داستان طویل کرنا مقصود نہیں ہو سکتا ہے حسن بن صباح بھی ٹھیک ہووہ سلطنت میں فساد نہ ڈالنا چاہتے ہوں۔ بلکہ اپنا حق چھیننا چاہتے ہوں۔ اسی غرض سے جنت بنائی اور حشیشین کا تقرر کیا۔ یہ حشیشین کون تھے انہیں فدائی بھی کہا جاتا یہ وہ لوگ تھے جو لوگوں کو حشیش یعنی چرس پلا کر مدہوش کر دیتے ‘ پھر اسے ایک پوشیدہ مصنوعی جنت میں پہنچا دیتے ۔بعدمیں انہی سے خودکش حملوں کا کام تک لیا جاتا۔ ہمارے ہاں یہ فکر گاہے گاہے نمودار ہوتی رہی ہے۔ بعض اوقات یہ کسی مسلک کی غلط تعبیر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ آج بھی تکفیری فکر کے لوگ وہ جو خود کو توحید کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی مغالطے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مجھے ایک کتابچہ میں ایک بڑا دلچسپ مکالمہ یاد آ رہاہے۔ یہ کتابچہ مجھے جماعتہ الدعوہ کے ایک دوست نے عنایت کیا تھا اور انہیں کے کسی مستند مکتبہ سے شائع ہوا تھا۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوںکہ ان کا مسلک بھی مستند اور اس حوالے سے یہ مواد بھی قابل اعتبار‘ المغرب کے کسی ملک میں غالباً الجزائر میں سعودی عرب سے آل وہاب کا ایک وفد گیا ہوا تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ یہاں کے علماء میں محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں بڑی بدظنی پائی جاتی ہے اور یہاں ایسے فتوے بڑے عام ہیں جن میں بعض جید اہل علم کی طرف سے ان پر کفر کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ وہاں ایک ملاقات کا بندوبست کیا گیا جو ایک تہہ خانے میں برپا ہوئی۔ دونوں طرف کے جید علماء تھے۔ جہاں آغاز اس بات سے ہوا کہ جو کفر کا فتویٰ یہاں رائج ہے وہ تو فلاں زمانے میں دیا گیا‘ جب ہمارے پیشوا کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ یہ تو دوسری صدی کے اس نام کے ایک بزرگ ہیں جو اپنے علاقے ہی میں مصروف ہیں۔ وگرنہ دنیائے اسلام انہیں جانتی تک نہیں۔ پھر عقائد کا تفصیلی تذکرہ تھا۔ اتنا نازک فرق تھا کہ اچھے بھلے آدمی کو غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض عناصر توحید کے نام پر تکفیری فکر پھیلاتے ہیں جس کا اصل مسلک سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ خود برصغیر میں پیدا ہونے والے بعض فکری مباحث غلط فہمی کا سبب بنتے ہیں۔ علماء کے بعض گروہ سیاست اور انقلاب کے نام پر جہادی فکر کے علمبردار بن بیٹھے ہیں حالانکہ اس کا نہ ان حالات سے تعلق ہے نہ اپنی اصل میں وہ ایسے تھے۔ مثال کے طور پر یاروں نے تو حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تک کو ایک ایسی تحریک کا امام بنا ڈالا۔ ایک پوری تاریخ رقم کر دی جس میں تھا نہ بھون میں انگریز سے جہاد کی ایک پوری داستان ہے۔ اب تو اس مسلک کے لوگوں نے کتابیں لکھ ڈالی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ان باتوں کی کوئی اصل نہیں ہے۔ برصغیر میں انقلاب‘ جہاد سیاست کو ایک گروہ نے اس طرح اپنانے کی کوشش کی جو اپنی اصل میں ایسے تھا ہی نہیں۔ میرے ذاتی کتب خانے میں اس حوالے سے کتب موجود ہیں نقل مکانی کی وجہ سے یہ سب گڈ مڈ ہیں‘ وگرنہ شاید میں تفصیل سے احوال لکھتا۔ ایک تو یہ میرا مقصود نہیں۔ ورنہ تلاش کر لیتا۔ دوسرے میں اس معاملے پر کسی بحث میںنہیں پڑنا چاہتا۔ انگریز کے زمانے میں جو جدوجہد ہوئی۔ وہ اپنی جگہ۔ ہندوستان میں حاجی شریعت اللہ‘ سید احمد بریلوی بہت سے نام ہیں۔ جن میں بعض کو مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر آئیڈلائز بھی کہا گیا۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی اصل میں دین کی روح ذرا مختلف ہے۔ ان میں بعضوں سے عملی طور پر غلطیاں بھی ہوئیں اور دین کی ایسی تعبیریں بھی جو ان کے لئے ہی نہیں امت مسلمہ کے لئے بھی نقصان دہ ہوئیں۔ کبھی موقع ملا اور ہمت ہوئی تو اس پر الگ سے بات کروں گا۔ فی الحال صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ پورے عالم اسلام میں بعض حالات میں مسلمانوں نے ایسے رویے اختیار کئے جو امت کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے یہی دیکھ لیجیے کہ ایک بات تو خارجی کہتے تھے کہ خلیفہ منتخب کرنا عوام کا حق ہے جس کی وجہ سے اقبال نے انہیں اسلامی تاریخ کا پہلا ریپبلکن یا جمہوریت پسند کہا۔ ذرا سوچیے 14سو سال پہلے وہ کیسی بات کہہ رہے تھے جو آج کے جدید عہد میں بھی بعض لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی اور دوسری طرف ان کے ہاتھوں پر خلیفہ راشد چہارم کا خون لکھا گیا۔ ایسا واقعہ جس نے اسلام کی تاریخ بدل دی۔ وہ تو اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے کر نہ سکے۔ ہمارے ہاں بھی یہی فکر انہی ایک غلط اور تکفیری تعبیر کی وجہ سے رنگ لا رہی ہے۔ ابھی کل ہی ہم ایک سیمینار میں تھے۔ دائیںاور بائیں بازو کے سبھی دانشورتھے۔ محمود مرزا کی یادمیں اس پر الگ لکھوں گا۔ دو چارلوگوں نے حوالہ دیا کہ مرزا صاحب ایک ایک سے پوچھتے کہیں یہ بریلوی لوگ تشدد کی طرف نہیں آ جائیں گے۔ یہ بریلویت کسی مسلک کا نام نہیں ایک مزاج کا نام ہے۔ اوپر میں نے اس لئے کسی مسلک کا حوالہ نہیں دیا۔ غالباً وہ اس بات پر پریشان تھے کہ اگر یہ طبقہ بھی جو صاف کہتا ہے ہم درود والے ہیں بارود والے نہیں۔ کہیں ردعمل میں اس طرف چل پڑا تو پھر ہمارے سماجی اور تہذیبی فکر کا خدا حافظ ہے۔ میں نے دانستہ اس انگریزی لفظ کا ترجمہ نہیں کیا۔ ویسے کہہ سکتا تھا ہماری سماجی اور تہذیبی ساخت کس طرح تتر بتر ہو گی۔ یہ جو انتہا پسندانہ فکر ہمارے ہاں پیدا ہوئی ہے یہ نہ عرب و عجم کی لڑائی ہے نہ اس کے پیچھے کوئی مسلک ہے۔ بلکہ یہ دین کے نام پر غلط تعبیروں کا ایک تسلسل ہے جو اول روز سے چلا آتا ہے ۔آج آپ اگر جائزہ لیں تو دہشت گردی کی وارداتوں کے پیچھے یہی تعبیر ہے۔ سیاسی طور پر بھی اوپر چند مثالیں موجود ہیں‘ اس راہ پر چلنے والے سیاست کی غلط تعبیری کا شکار ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر جو ’’غیر مذہبی انتہا پسندی‘‘ ہے اس کا جائزہ لیجیے۔ اس کے پیچھے بھی اس طرح کی غلط تعبیریں ہیں۔ چاہے وہ کراچی کے قوم پرست ہوں یا کوئی اور ہوں‘ ہم خود ساختہ پارسائی کے زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پارسائی نہ کہیے سچائی کہہ لیجیے اور اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ابھی مرے دوست ڈاکٹر عبدالقادر نے ایک بحث مجھے ارسال کی ہے جس میں شرک و بدعت کی مخالفت کرتے ہوئے اہل تصوف کو بے نقط سنائی گئی ہیں۔ عبدالقادر اگرچہ خود شرک و بدعت سے نالاں ہیں۔ مگر انہوں نے بڑے سلیقے سے بتایا ہے کہ صوفیا کے بارے میں ان کا موقف کس قدر غلط ہے۔ بہرحال اس بحث کو یہیں ختم کرتے ہیں۔ اس میں بعض ذیلی مگر بنیادی بحثیں بھی برسبیل تذکرہ آ گئی ہیں ان پر لکھنا میں فی الحال مصلحت دینی نہیں سمجھتا۔ اس لئے اتنا ہی کافی ہے۔ خدا کے لئے غور کیجیے۔