کرونا متاثرین کی مدد کے لئے مختلف شہروں سے گمنام افراد سرگرم ہیں۔ یہ لوگ چہرہ نہیں دکھاتے‘ نام نہیں بتاتے سیلفی بنا کر تصویر بھی اپ لوڈ نہیں کرتے۔ بس خاموشی سے مستحق افراد کو راشن اور دوسری چیزیں دے کر یا ان کے گھروں کے باہر رکھ کر چلے جاتے ہیں۔اس سے بڑا تجربہ ترکی میں ہو رہا ہے۔ مالدار افراد راشن کے تھیلے سڑکوں کے کنارے رکھ جاتے ہیں۔ بہت سی شاہراہیں سامان کے ان تھیلوں سے اٹی پڑی ہیں۔ پاکستانی بطور قوم خیرات صدقات اور رفاہ کے لئے رقم دینے میں بہت پیچھے ہے۔عالمی انڈکس کے حساب سے اس کا نمبر 92ہے۔پھر بھی اتنے لوگ امداد کے لئے سرگرم ہیں تو یہ خوشی کی بات ہے۔خیر کا جذبہ ہمارے ہاں بہت کم ہے لیکن ہے تو سہی‘عنقا تو نہیں ہوا۔ ٭٭٭٭٭ گروہی طور پر صرف جماعت اسلامی نظر آ رہی ہے جس کی ’’الخدمت‘‘ فائونڈیشن پورے ملک میں بہت زیادہ متحرک ہے۔ پھر بھی اس کا دامن محدود ہے۔ ایدھی ٹرسٹ والے اپنے دائرے میں سرگرم ہیں۔ مسلم لیگ ن نے امدادی منصوبے کا اعلان کیا ہے لیکن اس پر عملدرآمد کی ابھی کوئی خبر نہیں آئی۔ واقفان حال یہ بدظنی ظاہر کر رہے ہیں کہ شہباز شریف کی واپسی کسی ’’امدادی‘‘ پیکیج کے لئے نہیں۔ مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی کو پھر سے جیل بھجوانے کے لئے ہوئی ہے۔ واللہ اعلم۔شاید یہ بدظنی جھوٹ اور محض جھوٹ ہو ۔ سوال یہ ہے کہ باقی جماعتیں کہاں ہیں؟ ٭٭٭٭٭ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کہاں ہے؟ہر ملک میں سب سے بڑا رفاہی ادارہ خود حکومت ہوا کرتی ہے لیکن ہمارے ہاں کی گنگا اب الٹی چال چل رہی ہے۔ ہمارے ملک کا باوا آدم بدل گیا ہے۔ حکومت میدان میں کہیں نظر نہیں آ رہی۔ایک سندھ حکومت سرگرم ہے لیکن بدقسمتی سے وہ ’’سلیکٹڈ‘‘ نہیں‘الیکٹڈ ہے۔ وہ روز پریس کانفرنسیں کر رہی ہے قوم سے خطاب کے ریکارڈ بنا بنا کر خود ہی توڑ رہی ہے۔ امدادی پیکیج کے اعلان پر اعلانات کر رہی ہے۔ لیکن کہیں کسی کو نظر آیا ہو تو بتا دے۔ پچھلے ہفتے غریبوں کے لئے تین ہزار روپے کی امداد کا اعلان ہوا۔ سراج الحق سنجیدہ ہو گئے اور کہا کہ یہ رقم بہت کم ہے۔میاں سادگی کی بھی حد ہوتی ہے‘ سراج الحق نے تو وہ بھی ٹاپ کی۔ یعنی سچ مچ سمجھ بیٹھے کہ یہ رقم ملے گی۔ ذرا میدان میں جا کر دیکھیے‘ قومی خزانے سے بننے والی کھچڑی کن یاروں کے پیٹ میں جا رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ سراج الحق تو سادہ تھے۔ پی ٹی آئی کے ایک چالاک اور حد سے زیادہ چالاک سمجھے جانے والے ایم این اے بھی اس سادگی کی لپیٹ میں آ گئے اور اس اعلان پر اعتبار کر لیا۔ کراچی سے ان ایم این اے نے اس پیکیج کا جی بھر کر مذاق اڑایا ۔کہا کہ اتنی زیادہ رقم سے غریب لوگ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اپنی ہی نہیں‘ پڑوسیوں کی غربت بھی دور کر سکتے ہیں۔ ’’اخلاقیات‘‘میں یہ ایم این اے صاحب پی ٹی آئی کے معیار پر پوری طرح پورا اترتے ہیں اورحکمران وقت کی مداحی میں حد سے گزر جاتے رہے ہیں لیکن اب پتہ نہیں کیا ہوا۔ کیوں یہ پینترا بدل لیا۔ بہرحال تحریک انصاف کے گالی گلوچ سیل کی زدمیں آ گئے۔ دوسروں کو جو مزا چکھاتے رہے‘ وہی مزا اب خود چکھ رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک مضمون نگار نے تو باقاعدہ اپیل کر دی کہ رقم بڑھائی جائے۔ گویا یہ بھی مرزا سادہ بیگ نکلے۔ موجودہ حکومت کی ساری مہارت لینے میں ہے‘ چاہے پھر وہ چندہ ہو ٹیکس ہو یا بدلہ ہو۔ دینے کا اس کا کھاتہ ہے ہی کہاں۔ آتے ہی پٹرول بجلی گیس کھاد اور نہ جانے کہاں کہاں ٹیکس لگا دیے۔ بل بڑھا دیے آن کی آن میں قوم سے کھربوں روپے نکلوا لئے اور ابھی تک نکلواتی جا رہی ہے۔ کل ہی کی خبر ہے کہ بجلی کے ریٹ تین روپے فی یونٹ بڑھانے کا فیصلہ ہو گیا‘ اعلان گرمیوں کے زور پکڑتے ہی ہو گا۔ کرونا نے بھاگ بھری کے بھاگ اور جگا دیے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے لاک ڈائون پر اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے بڑے دکھ سے فرمایا تھا۔ اس سے 25فیصد غریب آبادی متاثر ہو گی۔ میاں 25فیصد کہاں۔25فیصد ہوا کرتی تھی‘پچھلے پونے دو سال میں آپ کی محنت غیر شاقہ سے بڑھ کر 50فیصد سے بھی اوپر ہو گئی۔ دو کروڑ کے لگ بھگ افراد کا تبادلہ آپ نے غربت کی لکیر کے اس پار کر دیا ہے سال بھر یہ فیصدی 60سے بھی بڑھ جائے گی۔ کیا یہی آپ کا ہدف تھا؟کچھ اور تھا تو بتائیے۔ ٭٭٭٭٭ حکومت کی ترجیح کچھ اور آٹھ دس دن پہلے خبر آئی۔حکومت نے میڈیا سیل کے لئے ساڑھے چار کروڑ روپے مختص کر دیے۔ حیرت ہوئی کہ مرکز اور صوبوں میں ترجمانوں کی فوج ظفر موج پہلے ہی موجود ہے پھر اس سو رکنی نئے سیل کی کیا ضرورت تھی۔ پھر یہ حیرت دور ہو گئی یہ سو رکنی سیل حکومت کی ترجمانی کے لئے نہیں‘ اپوزیشن بالخصوص اخبار نویسوں کے مزاج درست کرنے کے لئے بنایا گیا جس نے بنتے ہی کام شروع کر دیا۔ ہر ناپسندیدہ صحافی کے نام پر ٹرینڈ چلا دیا۔ جسے ہوش والے پڑھیں تو ہوش کھو دیں۔ کان کی لویں سرخ نہیں تو گلابی ضرور ہو جائیں۔ اطلاعات ہیں کہ ’’صاحب‘‘ روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی کا جائزہ لیتے اور شاباش دیتے اور مزید ہدایات بنفس نفیس دیتے ہیں۔ فی الحال یہی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ ٭٭٭٭٭