اسلام آباد (خبر نگار،مانیٹرنگ ڈیسک ) اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں حکومت کی نمائندگی سے معذرت کر لی ہے ۔ گزشتہ روزسپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کے دوران فاضل بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید کا خیر مقدم کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ محنتی شخص ہیں، اس کیس پر بھی اپنا ذہن استعمال کریں۔اٹارنی جنرل نے کیس میں حکومت کی نمائندگی سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرونگا، ریفرنس پر اعتراضات اٹھا چکا ہوں ، میرا حکومت کی طرف سے پیش ہونا مناسب نہیں۔ سپریم کورٹ بار کے صدر قلب حسن اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین عابد ساقی نے کیس میں وزیر قانون کے بطور وکیل پیش ہونے پر اعتراض کیا اور موقف اپنایا کہ فروغ نسیم کا لائسنس معطل ہے ،پہلے وہ وزارت چھوڑ کر لائسنس بحال کرا ئیں ۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ توہین عدالت کی درخواست کو نمبر لگا دیا جائے گا لیکن شک اور گمان سے بچنا چاہیے ۔وزیر قانون فروغ نسیم نے عدالت سے استدعا کی کہ عالمی سطح پر ایک کیس میں مجھے اور اٹارنی جنرل کو پیش ہونا ہے ،جس پر عدالت نے سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ سماعت پر اونچا بولنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا سے علم ہوا کہ میں نے بلند آواز میں بات کی، وکلا سمیت تمام افراد سے معذرت خواہ ہوں۔دوسری جانب اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اٹارنی جنرل آفس کی خود مختاری کیلئے وزیر اعظم عمران خان کوخط لکھ دیا ہے جبکہ نئے لا افسران کی تقرریوں کے معاملے پر وزیر قانون سے وضاحت طلب کرلی ہے ۔وزیر اعظم کے نام خط میں انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل آفس کی خود مختاری یقینی بنانے کیلئے اسے لا ڈویژن کے انتظامی کنٹرول سے آزاد کیا جائے ۔ وزیر قانون کے نام دوسرے خط میں نئے لا افسران کی تقرریوں کے بارے میں میڈیا رپورٹس پر تحفظات کا ظہار کرکے کہا گیا کہ ہمارے درمیان ملاقات میں یہ طے ہوچکا تھا کہ اٹارنی جنرل اور وزارت قانون وانصاف آئین کے تحت اپنے اپنے ڈومین میں کام کریں گے ۔ابہام دور کرنے کیلئے وزیر قانون سے وضاحت مانگی گئی اور اٹارنی جنرل آفس کے معاملات میں لا ڈویژن کو غیر ضروری مداخلت سے اجتناب کا کہا گیا ۔ایک اور خط میں کہا گیا کہ ملک سے باہر انٹرنیشنل تنازعات کو دیکھنا اٹارنی جنرل آفس کی ذمہ داری ہے ،اسلئے اٹارنی جنرل آفس کو انٹرنیشنل تنازعات کا معاملہ دیکھنے دیا جائے ۔