محرم الحرام کی آمد سے قبل ہی مختلف سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اور تنظیمیں امن و امان کے قیام اور بین المسالک رواداری اور ہم آہنگی کے حوالے سے سرگرمِ عمل ہو جاتے ہیں ، اگرچہ ابھی یکم محرم آنے کو ایک ہفتہ باقی ہے، تاہم یہ گرم جوشی بلکہ فرض شناسی اور ذمہ داری معمول سے کہیں بڑھ کر ہے،جو کہ بہر حال۔۔۔خوش آئند اور مثبت ہے۔ ان تمام شخصیات اور تنظیمات کے تعاون کے سبب ہی گزشتہ سالوں سے عاشورہ کی جملہ محافل و مجالس پْر امن اور باوقار انداز میں روبہ انعقاد رہیں، اس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی قیادت میں کیبنٹ کمیٹی لا اینڈ آرڈر کی محنت کیشی اور عرق ریزی کا بھی بڑا دخل ہے ، جو وزیر قانون راجہ بشارت کی سرکردگی میں،ہمہ تن متوجہ اور منہمک ہوکر،امن و امان کے قیام اور بین المسالک ہم آہنگی کے استحکام کو نہایت موثر انداز میں‘ضلعی بلکہ تحصیل کی سطح تک مانیٹر کرتی ہیں۔اس میں علمی اور فکری داعیے اور جذبے فراواں کرنے میں اوقاف و مذہبی امور کا کردار بھی بڑا تحسین و تبریک کا حامل ہے ،جو محرم الحرام کی آمد سے قبل علما اور مذہبی شخصیات پر مشتمل امن وفود کی تشکیل و ترسیل کا اہتمام کر کے تمام مسالک کے دینی طبقات کو ایک مسلمہ اور مصدقہ پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے‘آج جس وقت یہ سطور آپ کے پیش نظر ہوں گی،تو ایوان اوقاف سے پنجاب کی تین مختلف سمتوں میں،محبت و یگانگت کے حامل یہ قافلے روانہ ہو چکے ہوں گے‘جن میں ایک گوجرانوالہ‘ راولپنڈی‘ دوسرا فیصل آباد‘ سرگودھا اور تیسرا ساہیوال‘ ملتان‘ بہاولپور اور ڈی جی خان کے لیے مستعد۔۔۔جبکہ ڈویڑنل ہیڈ کوارٹرز پر ان اجتماعات میں مقامی امن کمیٹیوں کے ساتھ کمشنر‘ آر پی او اور ڈپٹی کمشنر و ڈی پی او صاحبان سمیت تمام متعلقہ ذمہ داران موجود ہونگے ان دورہ جات کی تکمیل کے بعد،جناب وزیراعلیٰ کی صدارت میں ایک وقیع اور موقر اجلاس روپذیر ہو گا،جس میں مذکورہ وفود کے شرکا‘ اتحاد بین المسلمین کمیٹی پنجاب اور متحدہ علماء بورڈ کے ممبران سمیت عمائدین حکومت و سلطنت شامل ہو کر اپنے اپنے شعبے کی کارگزاری سے آگاہ کریں گے۔ میرے خیال میں یہ ایک انتہائی جاندار میکنزم ہے،جس کو مضبوط اور مستحکم رکھنے میں موجودہ حکومت کو بڑا کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ایوان اوقاف میں ایک مستقل سیل قائم کر کے صوبہ بھر کی مذہبی شخصیات اور دینی اداروں سے روابط مستحکم کرلیے جاتے ہیں۔خانوادہ اہل ِ بیت اطہار کے تذکرہ کیساتھ‘ ذوالحجہ کے ان ایّام میں ذوالنورین حضرت عثمان بن عفانؓاور پھر مرادِ رسول حضرت عمر بن خطابؓ کے ایّام شہادت پر ان ذوات مقدسہ کی بارگاہ میں اپنی عقیدتوں اور محبتوں کا نذرانہ بھی پیش ہوتا ہے۔ یہ اعزاز اور امتیاز بھی محکمہ اوقاف ہی کو میسر ہے کہ وہ امہات المومنینؓ‘ خانوادۂ نبوت‘ اہل بیت رسالتؓ اور خلفاء راشدینؓکے خاص ایام پرایسی کانفرنسز اور سیمینار کا اہتمام کر کے ان کے محاسن و مناقب‘ اسلوب زیست اور طرز حیات سے آگاہی کا سامان کرتا ہے۔ دلچسپ‘ اہم اور خوبصورت بات یہ ہے کہ اس میں تمام مکاتب فکر کی علمی و دینی شخصیات کی تشریف آوری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ ابھی تین روز قبل 18 ذوالحجہ کو حضرت عثمان غنیؓ کے یوم شہادت پر منعقدہ کانفرنس میں شیعہ سکالر علامہ سجاد حسین جعفری نہ صرف شامل ہوئے بلکہ عمدہ خطاب بھی فرمایا،جو معاصر حلقوں کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث ہو سکتا ہے۔ اصل میں اس کے لیے قلبی‘ نظری و علمی وسعت کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم دوسروں کی پسند کے لیے گنجائش نہیں نکالیں گے،اس وقت تک محبت آمیز ماحول پیدا ہونا دشوار ہے۔ بلاشبہ 18 ذوالحجہ ہی کو غدیر کی فضائوں میں ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ ‘‘ یعنی جس کا میں مولا ہوں،پس اس کے علی مولا ہیں۔ کی جو صدائیں بلند ہوئیں‘ ان سے بھی اپنے قلب و نظر کو آراستہ اور اپنی محافل و مجالس کو مشکبار کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ اصل واقعہ اور بیانیہ کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے مختلف توجیحات اور استدلال پر اپنی توانائیاں بلاوجہ صرف کریں۔ اسلامی یا قمری سال ہرباراختتام اور آغاز پذیر ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا،کہ گردشِ لیل ونہار کے اہتمام و انعقاد کا یہی پیمانہ ہے۔لیکن اے کاش کہ یہ ایّام اور ساعتیں انجانے خدشے‘و سوسے اور خوف کی بجائے۔۔۔عقیدت،ارادت اور محبت و مودٔت ہی سے عبارت ہوں،ابھی کل ہی جامعہ عروۃ الوثقی میں قومی مشاورت کااہتمام تھا،گذشتہ ہفتے عیدگاہ شریف میں ایسی ہی بزم آراستہ تھی۔یہ کانفرنسیں اور امن کمیٹیوں کی ترتیت و تشکیل مبارک و مستحسن۔۔۔ لیکن اس کی تو وہاں ضرورت ہونی چا ہیے‘ جہاں کوئی نزاع ہو، ایسا نزاع۔۔۔جو امن کے لیے خطرہ کا باعث ہو، لیکن یہاں تو سب ہی حسینؓ اور اس کے خاندان سے محبت کرنے والے ہیں، کون مسلمان ہے ، امام حسینؓ جس کے ایمان کا حصہ نہیں ، جس کی آنکھیں حسین کے تصوّر میں بھیگ کر فرات نہ بن جاتی ہوں ، کونسا دل ہے جو حسینؓ کی محبت کو سمیٹنے کے لیے صحرائوں کی طرح پھیل جانے کا خواہشمند نہ ہو ، حسینؓ پر اگر کوئی معاملہ ہوسکتا ہے‘ تو ان کی ذات سے عشق کا معاملہ ہے ، اور وہ یہ کہ ، ہر مسلمان اس میں دوسرے پر سبقت لے جانے کا داعی اور تمنائی ہے،امامؓ کے حوالے سے اگر کوئی تنازعہ ہے‘ تو اس جذبۂ قربانی پر ممکن ہے ، جس کی وہ زندہ اور عہد آفرین مثال ہمارے سامنے پیش کر گئے۔ جس تتبع،تقلید اور پیروی میں،ہر مسلمان دوسرے سے بڑھ کر قربانی پیش کرنے میں فراواں نظر آتا ہے،عشق و عقیدت کے یہ مناظر اور مظاہر،فساد اور عناد کا باعث تو نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ہونے چاہیں۔ امن کیلئے یہ فرضی اہتمامات…اگر اْس معاشرے میں ہوں ،جہاں کسی کو حسین کی عظمت پہ اختلاف محسوس ہوتا ہو،توبات سمجھ میں آتی ہے،لیکن جو خطہ مسلمانوں کا ہو،جس کی بنیاد اسلام پر ہو،جہاں کے وسنیک اور باشندے کلمہ گو ہوں ، وہاں یہ انتظامات۔۔۔چہ معنی دار…؟،جب ہم سب ہی حسینؓ کے سپاہی ہیں،جب ہم سب ہی حسین کے وفادار اور غمخوار ہیں،جب ہم سب ہی حسین کے پیغام کے علمبردار ہیں، جب ہم سب ہی یزید اور یزیدیت سے بیزار ہیں ، تو پھر یقیناسماج اور معاشرت میں خطرہ پیدا کرنے والے وہ ہی ہوسکتے ہیں،جو اس وقت بھی حسین اور قافلہ حسین کے لیے خطرہ تھے اور آج بھی اس کی فکر اور آئیڈیالوجی سے بیزار۔حسین اور حسینیت تکریم آدمیت اور شرف انسانیت کا سرنامہ ہے۔ جس کے لیے جوش نے کہا تھا: انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ تصوف و طریقت کے امام خواجہ معین الدین چشتیؒ نے کیا خوب فرما دیا: شاہ است حسین بادشاہ است حسین دین است حسین دین پناہ است حسین سرداد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنائے لاالہ است حسین حضرت خواجہ خواجگان نے فرمایا کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ دین کیا ہے تو میں کہوں گا کہ دین تو حسین ہی کا نام ہے‘ یعنی دین کا دوسرا نام حسین ہے اور حسین کا دوسرا نام دین ہے۔ دین اور حسین ہم معنی ہیں‘ یعنی دین کی بقا کے لیے سربلندی کے لیے اس کی قربانی… رہتی دنیا تک اسلام کے لیے زندگی اور تابندگی کا باعث ہے۔