کئی ایک قصہ ہائے پارینہ ایسے ہیں جنھیں گاہے گاہے دہراتے رہنا ضروری ہے کیونکہ یہ قصے ہمارے ملک کی زبانی تاریخ کالا زمی جزو ہیں۔ایسا ہی ایک قصہ بھٹو خاندان کا بھی ہے جس سے پردہ سابق پاکستانی سفیر جمشید مارکر نے اٹھایا تھا۔یہ 2010ء کے موسم بہار کی بات ہے جب جمشید مارکر صاحب نے ہر قسم کی احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سچ اور صرف سچ کو سامنے لانا کا فیصلہ کیا تھا۔انھوں نے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے ایسی کئی ایک مزید سچائیاں ہمارے سامنے رکھ دی تھیں۔ ذرا سوچئے کہ آ ج کتنے ایسے سفارتکار ہیں جواپنی ریٹائرڈمنٹ کے بعد لب کشائی کے لئے تیار ہوتے ہیں؟عموماً یہ لوگ ایسی باتوں کے بارے میں بھی چپ ہی سادھے رکھتے ہیں جو انھوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کیا ہوتا ہے حالانکہ ملکی مفاد یہ تقاضہ بھی کر رہے ہوں کہ ان رازوں سے پردہ اٹھادیا جائے۔جمشید مارکر صاحب ایک بہت بڑی شخصیت تھے۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ان کیساتھ انٹرویو کے دوران جب ہم نے اپنا سوال ’’مارکر صاحب‘‘ کہہ کر شروع کرنا چاہا تو انھوں نے ہماری بات کاٹتے ہوئے فو ری طور پر کہا کہ ’’پلیز مجھے جمشید ہی کہئے۔‘‘ ہم ان کے ساتھ آئی لینڈ کراچی میں واقع مکان پہ تھے۔مطالعے کے کمرے کی بڑی بڑی کھڑکیوں سے باہر لان کی سرسبزی جھلک رہی تھی اور کمرہ اس کی بدولت کافی با رونق دکھائی دے رہا تھا۔فرش سے چھت تک سفید رنگ کے بک شیلف لگے ہوئے تھے جن میں کتابیں اور ماضی کی یادگاریں پڑی تھیں۔یہ سب اس شاندار دور کی یادگاریں تھیں جب جمشید مارکر صاحب بطورِ سفیر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ انھوں نے ہمیں اجازت دی تھی کہ ہم ان سے کچھ بھی پوچھ سکتے ہیں ۔ہمیں انھیں ان کے نام سے پکارنے میں دشوار ی محسوس ہو رہی تھی چنانچہ ہم نے جھٹ بس سوال ان کے آگے رکھ دیا۔ ہمارا سوا ل فرانس میں ان کے قیام سے متعلق تھا جہاں انہوں نے بطور سفیر خدمات سرانجام دی تھیں۔مارکر صاحب نے بتایا کہ انھیںفنکاروں، لکھاریوں، فیشن ڈیزائنرز اور دانشوروں کی سنگت وہاں بہت پسند تھی۔موسیقار زوبین مہتہ اور فن کار عمر شریف کو انھوں نے اپنے اچھے دوستوں میں شامل بتایا تھا۔اب ہم آپ کے سامنے ان کے جواب کا وہ حصہ رکھیں گے جو بڑا خوفناک معلوم ہوتا ہے۔ یہ باتیں 2010ء میں ایک ہم عصر انگریزی روزنامے میں شائع ہو چکی ہیں ۔ تاہم ان کے حوالے سے بھٹو خاندان کی جانب سے ہمیں کوئی تردید کبھی موصول نہیں ہوئی۔جمشید مارکر صاحب نے بتایا کہ ان دنوں بیگم نصرت بھٹو کانز میں رہائش پذیر تھیں۔ وہاں ان کی رہائش کا انتظام فرانس کے وزیر انصاف نے کروایا تھا۔ وزیر صاحب موصوف بھٹو صاحب کے بڑے اچھے دوست تھے۔ لیبیا کے صدر معمر قذافی کے ساتھ بھی بھٹو صاحب کی بڑی دوستی تھی۔ قذافی نے بھٹو خاندان کو خطیر رقم بطور تحفہ دی تھی۔اس رقم کی تقسیم کے معاملے پہ بھٹو صاحب کے دونوں بیٹے مرتضیٰ اور شاہنواز ایک دن رات کے کھانے کے وقت ایک ریستوران میں ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔بے نظیر نے دونوں کے درمیان صلح صفائی کی کوشش کی جو بے سود رہی چنانچہ وہ اپنی بہن اور والدہ کو لے کروہاں سے گھر لوٹ گئیں ۔ دوسری طرف مرتضیٰ بھٹو شاہنواز کے پیچھے اس کے فلیٹ تک گئے۔ دونوں کی لڑائی مزید شدت اختیارکر گئی۔ اسی دوران فرانس کی پولیس بھی دونوں کو گرفتار کرنے وہاں پہنچ گئی لیکن تب تک شاہنواز بھٹو بے ہوش ہو چکے تھے۔انھوں نے ایک ڈرگ زیادہ مقدار میں استعمال کر لی تھی۔پولیس مرتضیٰ بھٹو کو گرفتار نہیں کر سکی کیونکہ ان کے پاس شام کا پاسپورٹ تھا۔بعد میں اسی رات شاہنواز بھٹو کی موت ہو گئی تھی۔ پولیس نے شاہنواز بھٹو کی افغان نژاد اہلیہ کو اس بنیاد پہ گرفتار کیا کہ وہ کیوں ایک مرتے شخص کی مد د کو بروقت نہ پہنچ سکیں؟ تاہم خاتون نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں اور سچ سے پردہ اٹھانے کی دھمکی دی تو بھٹو خاندان کی جانب سے مقدمہ ختم کر دیا گیا۔جمشید مارکر صاحب کو اس واقعے کی تمام تر تفصیلات فرانسیسی انٹیلی جنس پولیس نے فراہم کی تھیں۔ ان کے مطابق یہ سارا واقعہ بہت ہی افسوسناک بلکہ خوفناک تھا۔جنرل نصیر اللہ خان بابر جو بعد میں بے نظیر بھٹو کی حکومت میں وزیر داخلہ رہے، ان کا کہنا تھا کہ شاہنواز بھٹو کے قتل میں بھی جنرل ضیاء کا ہاتھ تھا اور یہ کہ جنرل ضیاء نے ایک ڈیتھ سکواڈ اس مقصد کے لئے وہاں بھیجا تھا۔جنرل بابر کہتے تھے کہ شاہنواز بھٹو کو زہر دیا گیا ہے۔ ہم نے جب اس بارے میں جمشید مارکر صاحب سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ایسی کوئی بات بالکل بھی نہیں تھی۔ جنرل ضیاء کا شاہنواز بھٹو کی موت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ شاہنواز بھٹو کی موت کسی دوائی کی زیادہ مقدار کے استعمال سے ہوئی لیکن قذافی نے جو لاکھوں کروڑوں ڈالرز بھٹو خاندان کو دئیے تھے، ان کا کیا ہوا؟بھائی بہنوں میں سے کس کو اس میں سے زیادہ حصہ ملا؟اسی کالم کے دوسرے حصے میں چند مزید چشم کشا واقعات قارئین کے سامنے رکھیں گے جو جمشید مارکر صاحب نے ہی ہمیں بتائے تھے۔ پاکستان کو ان جیسے مزید لوگوں کی بہت ضرورت ہے۔ہمیں اس بات کا افسوس ہمیشہ رہے گاکہ چند سال قبل مارکر صاحب کی دوسری کتاب جب منظر عام پہ آئی تو ہم ان کا انٹرویو نہیں کر پائے۔ پہلے وہ چاہتے تھے کہ ان کی یہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع ہو لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ پھر کس خیال کے تحت انھوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔اس کتاب میں ان کے وعدے کے بر عکس کوئی زیادہ مرچ مصالحہ بھی نہیں تھا۔شاید نوے سال کی عمر میں ا ن کے لئے یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ میز پہ بیٹھ کر کوئی بلاک بسٹر کتاب لکھیں۔ حال ہی میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ وفات کے وقت ان کی عمر پچانوے برس تھی۔ ایک ماہر سفارتکاراور ایک باذوق دانش ورکے طور پر انھوں نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔انھیں سات عشروں تک اس ملک کے ارتقاء کو قریب سے دیکھنے کا اعزاز حاصل رہا ۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ 71ء کی جنگ سے قبل جنرل یحییٰ خان پہ اپنے عہدے کا بہت دباؤ تھاجو ان کے لئے ناقابل برداشت ہو تا جا رہا تھا۔روسی اور چینی مہمانوں کے اعزاز میں منعقد کی گئی ایک تقریب کے دوران انھوں نے بھارتی وزیرا عظم اندرا گاندھی کو جنگ کے لئے للکار بھی دیا تھا۔ اس وقت جس شخص نے جنرل یحییٰ کو اس صورتحال کی بدولت پیدا ہونے والی شرمندگی سے بچایا تھا وہ جمشید مارکر ہی تھے جو ان دنوں ماسکو میں بطور سفیر خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان میں پیشہ واریت بھی حد درجے کی تھی۔انھوں نے ہمیں ایک واقعہ سنایا کہ جب بے نظیر بھٹو اپنی وزارت عظمیٰ کی دوسری میعاد میں سرکاری دورے پہ واشنگٹن آئیں تو ہمارے نجی اجلاسوں میں جہاں ہم پاکستان کے قومی مفادات پہ بات کرتے تھے بے نظیر بھٹو کے لابسٹ مارک سیگل اور دوست پیٹر گالبرائیتھ بھی ہمیشہ موجود رہتے۔بقول جمشید مارکر انھیں اس بات پہ سخت اعتراض ہوا کرتاتھا کیونکہ ان دونوں کا وہاں کوئی کام ہی نہیں تھا۔ تاہم ان کایہ احتجاج بے سود ہی رہا کیونکہ اس ضمن میں کسی نے ان کی نہیں سنی۔یہ وہی مارک سیگل ہے جسے کئی بار بے نظیر قتل کیس میںگواہی دینے کو کہا گیا تھا لیکن اس نے انکار کیا ۔ تاہم بعد میں پھر اس نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو نے اسے بتایا تھا کہ جنرل مشرف کی جانب سے انھیں کس طرح کی دھمکیاں دے کر پاکستان آنے سے روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ہمیں ایک باخبر ذریعے نے بتایا کہ مارک سیگل کا یہ بیان صرف ایک چال تھی۔مارک سیگل کی گواہی کا وقت خود زرداری کا منتخب کردہ تھا کیونکہ احتساب کے پھندے کو اپنے گلے کے قریب تر محسوس کرتے ہوئے مقصد ان کا یہ تھا کہ فوج کی توجہ کسی طور ان سے ہٹ جائے۔(جاری ہے)