مسلم لیگ ن کے صف اول کے راہنما، حکومت کے مضبوط ناقد اور پانچ سال تک پنجاب کے وزیر قانون رہنے والے رانا ثناء اللہ جو کبھی پاکستان پیپلز پارٹی لائل پورکے جیالے بھی ہوا کرتے تھے اس وقت اینٹی نارکوٹکس فورس کی تحویل میں ہیں، دو دن پہلے وہ اپنی بلٹ پروف لینڈ کروزر میں فیصل آباد سے لاہور میں داخل ہوئے تو سکھیکی کے قریب انہیں روک لیا گیا، قیمتی گاڑی کی تلاشی لی گئی تو سرکاری بیانیہ کے مطابق اس سے اعلیٰ کوالٹی کی پندرہ کلو ہیروئن برآمد ہوئی، جس کی عالمی منڈی میں مالیت کروڑوں روپے بتائی جاتی ہے، دعوی یہ بھی کیا گیا ہے کہ رانا ثناء اللہ جب پانچ سال تک قانون کے وزیر رہے اس سارے عرصہ میں وہ منشیات کی اسمگلنگ کا دھندا ہی کرتے رہے، اس سرکاری دعوے کو آسانی سے ہضم نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ حکومتی ارکان پہلے سے ہی ان کی گرفتاری کی پیش گوئیاں کرتے چلے آ رہے تھے، حتی کہ دو دن پہلے ان کی گرفتاری سے چند گھنٹے پہلے بھی ایک آواز گونجی تھی، رانا ثناء کی گرفتاری میڈیا کی سب سے بڑی خبر بنی رہی لیکن اینٹی نارکوٹکس فورس والے مسلسل انتظار کے باوجود اس حوالے سے کوئی ہینڈ آؤٹ، کوئی پریس ریلیز جاری کرنے سے قاصر رہے، ہو سکتا ہے کہ پندرہ کلو ہیروئن برآمد ہونے کی اطلاع سو فیصد درست ہو۔ ماضی کی سیاسی حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہیں، اے این ایف کے ترجمان قوم کو ان تمام قیاس آرائیوں سے بچا سکتے تھے ، ٹی وی چینلز پر سارا دن اسی موضوع پر پروگرام چلتے رہے، حکومت کی ترجمانی کرنے والوں کا پلڑا بے وزن دکھائی دیتا رہا، کئی سینئر صحافیوں نے انکشاف کیا کہ رانا ثناء اللہ کو اپنی گرفتاری کا علم تھا اور وہ سب سے کہہ رہے تھے کہ انہیں کسی بھی وقت پکڑ لیا جائے گا، انہیں اس کے علاوہ بھی کئی خدشات تھے، انہوں نے اپنی سکیورٹی پر مامور عملے کی بھی چھٹی کرادی تھی اور نئے لوگ بھرتی کر لئے تھے، وہ ہر آدمی سے کہہ رہے تھے کہ انہیں اپنی گرفتاری کا پکا یقین ہے، چینلز نے ان کی گرفتاری کے حوالے سے عمران خان کے کلپس بھی چلائے، ان میں نہ صرف دھرنے کے دوران کی جانے والی تقاریر تھیں، بلکہ ایک تقریر وہ بھی تھی جو انتخابی مہم کے دوران موجودہ وزیر اعظم نے فیصل آباد میں کی، اپنے اس خطاب میں وہ کہہ رہے تھے۔۔۔۔۔ رانا ثناء اللہ اب تمہارے پاس چند ماہ باقی ہیں، اس کے بعد میں تمہیں مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں لے جائوں گا، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے وزراء کرام بیان بازی کے شوق میں ن لیگ کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال چکے ہیں، یہاں تک کہ عدالتوں سے آنے والے فیصلوں کی بھی وقت سے پہلے تشہیر کرکے عدالتوں کے وقار کو بھی داو پر لگا دیا جاتا ہے، جس پارٹی نے بائیس سال جدوجہد کرکے عوام کو پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے متنفر کیا تھا آج اس پارٹی کی حکومت میں وہ لوگ کرتا دھرتا ہیں جو لوگوں کو اب خود پارٹی سے متنفر کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، اس وقت پنجاب میں ن لیگ کو ایک مظلوم اپوزیشن جماعت کا درجہ مل رہا ہے، بالکل ویسا ہی درجہ جیسا کہ ضیاء الحق کے دور میں پی پی پی کے نصیب میں آیا تھا لیکن اس درجے میں لاکھوں لوگوں کی قربانیاں شامل تھیں، ن لیگ کے پاس نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ معاملہ اینٹی نارکوٹکس فورس یا دوسرے گرفتاریاں کرنے والے اداروں پر کیوں نہیں چھوڑ دیا جاتا؟ پرابلم یہ بھی ہے کہ عمران خان اور ان کی حکومت کو قومی اداروں پر بھی اعتبار نہیں، انہیں لگتا ہے کہ سارے ادارے اب بھی شاید نواز شریف کے لئے ہی کام کر رہے ہیں، اس ساری صورتحال سے اور کسی نے انجوائے کیا ہو یا نہ کیا ہو، حکومت میں شریک چوہدری برادران ضرور ہنسے ہوں گے اور انہیں یقینا وہ دور یاد آیا ہوگا جب چوہدری ظہور الٰہی کو بھینس چوری کرنے کے الزام میں جیل بھیجا گیا تھا اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا تصویر کا دوسرا رخ یہ نہیں ہو سکتا کہ رانا ثناء اللہ صاحب واقعی منشیات کے عالمی اسمگلر ہوں اور دو دن پہلے ان کی قیمتی کار سے واقعی پندرہ کلو خالص ہیروئن برآمد ہوئی ہو؟ ہاں ! یہ ہو بھی سکتا ہے، ان کے کالعدم تنظیموں سے مراسم بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی، جن سیاستدانوں کے کالعدم تنظیموں اور ان کے قائدین سے تعلقات رہے ان پر منشیات کی سمگلنگ کا شک بھی کیا جا سکتا ہے، رانا صاحب اس وقت وزیر قانون نہیں ہیں ، انہیں موسٹ وانٹڈ مین ضرور کہا جا سکتا تھا، وہ فیصل آباد سے لاہور تک کا سفر اکیلے نہیں کر رہے تھے ان کے ہمراہ پانچ لوگ اور بھی تھے انہیں بھی گرفتار کیا گیا ہے، دوسرے پانچ لوگ رانا صاحب کی بلٹ پروف لینڈ کروزر کے پیچھے دوسری گاڑی میں تھے، رانا صاحب نے پندرہ کلو منشیات پانچ ساتھیوں کے سپرد کرنے کی بجائے اپنی تحویل میں کیوں رکھیں جبکہ وہ اپنی ذات کے حوالے سے خطرناک خدشات کا بھی شکار تھے، اور انہیں اپنے مارے جانے کا خطرہ بھی تھا،سوال اور بھی ہیں جن کے جواب ہمیں یقینا اینٹی نارکوٹکس کے حکام دیتے رہیں گے۔ ٭٭٭٭٭ اداکارہ میرا جنہیں اسکینڈل کوئین کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک بار وہ میرے اور میں ان کے ہتھے چڑھ گیا تھا اور انہیں لمحات میں ایک مختصر ترین اور انتہائی نامکمل انٹرویو نے بھی جنم لیا تھا جسے یو ٹیوب پر ایک ماہ میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا تھا لیکن جس چینل پر یہ انٹر ویو چلا تھا اس نے مالکانہ حقوق کا دعوی کرکے اسے یوٹیوب سے اتروا دیا تھا، میں نے اپنی طویل صحافتی زندگی میں کبھی بھی رپورٹنگ نہیں کی، یہ کام میں نے شعوری طور پر نہیں کیا، وجوہات بے شمار ہیں، اپنے نام کے ساتھ مسلسل ایڈیٹر کی چھاپ لگائی اور ہمیشہ مطمئن رہا، کئی سال پہلے جب میرا کا ایک نوجوان عتیق کے ساتھ تکذیب نکاح کا مقدمہ چل رہا تھا(یہ کیس شاید ابتک موجود ہے) میں نے اپنے رپورٹرز کی ڈیوٹی لگائی کہ میرا کا انٹرویو کرکے حقائق سامنے لائے جائیں اس سے سوال ہی ایسے کریں کہ وہ سچ بولنے پر مجبور ہوجائے، کسی کو کامیابی نہ ہوئی، ایک رات دو ڈھائی بجے جبکہ میں سویا ہوا تھا، سنگیتا بیگم نے فون کرکے بتایا کہ میرا ان کے گھر میں ہے، انٹرویو کرانا ہے تو کسی رپورٹر کو بھجوا دو، میری بد قسمتی کہ اس وقت کوئی رپورٹر دستیاب نہ تھا، صرف دو کیمرہ مین تھے جو میں نے سنگیتا بیگم کے گھر بھجوا دیے، اس کے بعد خود بھی وہاں پہنچ گیا، یہ میری اور میرا کی پہلی ملاقات تھی، میرے بارے میں اس نے شاید اندازہ لگایا کہ کوئی انجانا سا فلم رپورٹر ہوں، اسی لئے وہ انتہائی نامکمل اور ادھورا سا انٹرویو تھا جو محض میرا کی سادگی کے باعث ہٹ ہو گیا، اس کے بعد میرا نے شادی کے مقدمے کے باوجود کیپٹن نوید سے شادی کر لی، کیپٹن نوید کے والد نے اس شادی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو میرا نے ثبوت کے طور پر ایک اس جمعہ کو میرا کی ایک فلم ریلیز ہوئی ہے’’ باجی‘‘میں یہ فلم دیکھنے چلا گیا، یہ فلم نہیں میرا کی زندگی کے وہ سارے سچ ہیں جنہیں وہ ہمیشہ جھوٹ کے پردوں میں چھپاتی رہی، میرا نے اسکرین پر یہ اعترافات کیوں کئے؟ کس کے لئے کئے ؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، میرا نے اپنی زندگی کے سچ جس خوبصورتی سے خود پیش کئے ہیں، میں اس پر انہیں شاباش دیتا ہوں۔۔۔