سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی اور ان کے عزیز طارق بشیر چیمہ جو وفاقی وزیر ہاؤسنگ بھی ہیں کی جہانگیر ترین کے ساتھ ملاقات کی ویڈیو لیک ہونے سے بلی بالآخر تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ وہ بات جو پہلے ہی سے سب کو معلوم اور زبان زد خاص و عام تھی، میڈیا کی بھی زینت بن گئی ہے۔ متذکرہ ملاقات میں چودھری پرویزالٰہی کے پہلو میں بیٹھے ہو ئے طارق بشیر چیمہ جہانگیر ترین سے یہ گلہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ اگر گورنر پنجاب چودھری سرور کو کنٹرول نہ کیا گیا تو وہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو نہیں چلنے دیں گے۔ اسی روز (ہفتہ کو) وزیراعظم عمران خان نے جو لاہور میں ہی تھے رات گئے معاملہ رفع دفع کرا دیا اور چودھری سرور کو یہ کہنا پڑا کہ عثمان بزدار مکمل بااختیار ہیں اور وزیراعظم عمران خان کے ویژن پر عمل پیرا ہیں۔ عمران خان نے نسبتاً غیر معروف شخصیت کو وزیراعلیٰ بنانے کے فیصلے کی مدافعت کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح میں کرکٹ میں کھلاڑی چنتا تھا اوروہ وسیم اکر م اور انضمام الحق بن جاتے تھے۔ عثمان بزدار بھی وسیم اکرم اورانضمام الحق کی طرح اچھا انتخاب ثابت ہوں گے۔ عثمان بزدار یقینا نوآموز وزیراعلیٰ ہیں، شریف اور مرنجان مرنج ہیں، وہ اپنے باس عمران خان کی طرح بڑھکیں نہیں مارتے بلکہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ شاید یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہو کہ ڈیرہ غازی سے تعلق رکھنے والے اس سیاستدان کے والد اور ان کے دادا بھی سیاست کے دشت کی سیاحی کرتے آرہے ہیں۔ اب یہ بھی واضح ہو گیاہے کہ انھیں وزیراعظم کی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ، وزارت عظمیٰ کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی عہدہ قرار دیا جاتا ہے لیکن اقتدار کا ہما اسی کے سر پر بیٹھتا ہے جس کا مقد ر ہو۔ اس عہدے کے لئے حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں میں کئی امیدوار تھے اور اب بھی ’دا‘ لگنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ چودھری سرور برطانیہ میں ہاؤس آف کامنز کے رکن رہنے کے بعد مراجعت کر کے میاں نواز شریف کے دور میں یہاں واپس تشریف لائے تھے۔ میری ان سے پہلی ملاقات گلبرگ میں واقع چودھری برادران کی اقامت گاہ پر ہی ہوئی تھی لیکن پھروہ میاں نواز شریف کے بہت قریب ہو گئے۔ چودھری سرور خود کو پنجاب کی حلقہ جاتی سیاست کا ماہر سمجھتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ دینے کے عمل میں ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا گہرا تعلق تھا، وہ برملا کریڈٹ لیتے تھے کہ جہاں جہاں ان کے مشورے پر ٹکٹ دیئے گئے وہاں مسلم لیگ (ن) کامیاب ٹھہری۔ اس وقت بھی پنجاب میں حکمرانی کرنا ان کے خوابوں کا حصہ تھا اور اسی لیے وہ گورنر پنجاب بن گئے۔ گورنری کے دوران انھوں نے صاف پانی، قانون، امن وعامہ اور پولیس کے معاملات میں غیرمعمولی سرگرمی دکھائی لیکن شہباز شریف جیسے مضبوط وزیراعلیٰ جو تمام اختیارات کے منبع تھے۔ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح تمام اختیارات انہی کے گرد گھومتے تھے، ان کے سامنے چودھری سرور کی ایک نہ چلی۔ مایوس ہو کر چودھری سرور گورنر شپ سے مستعفی ہو گئے اور جلد ہی وہ جہانگیر ترین کی ترغیب پر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے، انھیں شاہ محمود قریشی کے توڑ کے طور پرلایا گیا۔ بلدیاتی انتخابات میں چودھری سرور کو اپنے جوہر دکھانے کاموقع ملا لیکن اس معرکے میں تحریک انصاف کی ناکامی کے بعد ان کا ستارہ گردش میں آ گیا۔ عام انتخابات کے بعد سینیٹر چودھری سرور کو وفاقی وزارت کی پیشکش کی گئی لیکن وہ دوبارہ گورنر بننے پر مصر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ چودھری سرور کے علاوہ پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان، چودھری پرویزالٰہی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی (جواپنی صوبائی سیٹ ہار گئے تھے)، پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے اب بھی امیدوار ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں چودھری اور شریف برادران ایک ہی زلف کے اسیر تھے، اس وقت یعنی 1985 ء میںوزارت اعلیٰ کا قرعہ فال نواز شریف کے نام نکلا تھاجبکہ چودھری پرویزالٰہی ان کی کابینہ میں وزیر بلدیات تھے۔ اس دوران اپوزیشن لیڈر مخدوم حسن محمود جو پیر پگاڑا کے قریبی عزیز تھے،پنجاب میں نواز شریف کو ہٹانے کیلئے سرگرم تھے جنہیں مبینہ طور پر چودھری برادران کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس وقت بھی صدر، جنرل ضیاء الحق لاہور تشریف لائے اور انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف کا کلہ بہت مضبوط ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا کلہ بلکہ قبلہ وکعبہ آمر مطلق جنرل ضیاء الحق ہی تھے ۔اس کے بعد نواز شریف کے خلاف مہم کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور چودھری پرویزالٰہی نے نواز شریف کو جپھی ڈال لی اور انہیں دورہ گجرات کی دعوت دیدی۔ اس موقع پرنواز شریف کو جس سوزوکی کیری ڈبہ میں بٹھایا گیا اسے کندھے پر اٹھا لیا گیا۔ بعدازاں جب نواز شریف 1997ء میں دوبارہ بھاری مینڈیٹ سے کامیاب ہوئے تو وزارت اعلیٰ کا وعدہ چودھری پرویزالٰہی سے تھا لیکن بنایا برادرخورد شہباز شریف کو گیا اور چودھری صاحب کو سپیکر بنا دیا گیا۔ حالیہ انتخابات کے بعد جب چودھری پرویزالٰہی کو سپیکر نامزد کیا گیا توسیاسی مبصرین کو حیرانگی ہوئی کہ پرویزالٰہی جو پرویز مشرف کے دور میں وزیراعلیٰ پنجاب رہ چکے تھے اور بعدمیں آصف زرداری کے دور میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں ڈپٹی وزیراعظم بنے، نے اب دوبارہ یہ عہدہ کیوں قبول کیا۔ میں نے جب پرویزالٰہی سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے میں ہاں یا ناں کرتا تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھ ملاقات میں چودھری شجاعت حسین نے ہاں کردی تھی۔ اصل معاملہ یہی تھا کہ اب بھی پرویزالٰہی نے یہ منصب غا لباً اس لیے قبول کیا کہ شاید کسی وقت وزارت اعلیٰ جھولی میں آن گرے لیکن ان کی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے ارکان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پرویزالٰہی کی موجودگی میں طارق بشیر چیمہ کا گلہ دراصل پرویزالٰہی کا گلہ ہے۔ ایک ہی زلف کے اسیر ہو نے کے دوامیدوار گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ چودھری سرور کی خواہشات کے پس منظر میں طارق بشیر چیمہ کی شکایت درست بھی ہو سکتی ہے۔ گورنر چودھری سرور ان کے حلقہ میں مداخلت کررہے ہیں۔ پرویزالٰہی نے واضح کیا ہے کہ ان کے چودھری سرور سے کوئی ذاتی اختلافات نہیں ہیںلیکن سیاسی طور پراپنے گھر میںبیٹھ کر قومی قیادت کو اپنے اپنے گلے کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ دوسری طرف چودھری سرور نے بھی وضاحت دی ہے کہ ہمیں اپنے اتحادیوں سے کوئی اختلاف نہیں ہے جب کہ خاندان کے افراد کی آپس میں باتیں ہوتی رہتی ہیں، اتحادی جماعتیں ایک خاندان کی طرح ہیں تاہم ہم اتحادیوں کے گلے شکوے دور کر دیں گے۔ وزارت اعلیٰ کے ایک صریحاً امیدوار علیم خان تھے جواسی لیے صوبائی اسمبلی کی دونشستوں پرانتخابات لڑ رہے تھے، یہ کہہ کر وہ نیب میں اپنے کیس بھگت رہے ہیں لہٰذا انھیںوزیراعلیٰ تو نہیں بنایا گیا بلکہ اشک شوئی کے لیے سینئر وزیر بنا دیا گیا۔ 90شاہراہ قائداعظم ان کا سیکرٹریٹ بن گیا اور وہ وہاں بیٹھ کرپنجاب میں ہونے والے آئندہ بلدیاتی انتخابات کے خدوخال تیار کر چکے ہیں۔ حال ہی میں انہیں 90 شاہراہ قائداعظم کا دفتر خالی کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ پنجاب کے اعلیٰ عہدے کے جتنے بھی امیدوار ہوں وزیراعلیٰ تو ایک ہی شخص ہوتا ہے اور رولز آف بزنس کے مطابق پنجاب کی بیوروکریسی اور پولیس سمیت تمام مشینری اسی کے ماتحت ہوتی ہے وہ مہربانی کے طورپر بھی کسی اور شخصیت کو اپنے اختیارات منتقل نہیں کرسکتے۔ نہ جانے یہ حقیقت پرویزالٰہی، چودھری سرور اور علیم خان کی نظروں سے اوجھل کیوں رہتی ہے۔ تاریخ کا ایک اور ورق الٹتے ہیں، وہ وقت یادرکھنا چاہیے جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے منظور وٹو کو پنجاب میںوزیراعلیٰ بنایا، اس وقت فیصل صالح حیات بڑے طمطراق سے سینئر وزیر بنائے گئے، ان کا پروٹوکول وزیراعلیٰ سے بھی زیادہ تھا لیکن منظور وٹو نے انھیں پلہ ہی نہیںپکڑایا۔ اس موقع پر وہ اپنے خالو جان خالد کھرل جو ذوالفقار علی بھٹو کے بھی قریب تھے کے پاس گئے کہ میں کیا کروں؟۔ توکھرل صاحب جو سینئر بیوروکریٹ تھے نے برخوردار فیصل صالح حیات کو سمجھایا کہ وٹو تو چوری کی بھینس کا کھرانہیں بتاتے آپ کو اقتدار میں حصہ کہاں سے دیں گے؟۔ یہی حقیقت پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدواروں کوگھول کر پی لینی چاہیے جب تک عثمان بزدار کاکلہ مضبوط ہے ان کی دال نہیں گلے گی۔