ڈاکٹر امجد ثاقب نے منیرؔ نیازی کو یاد کیا: بیٹھ جائیں سایۂ دامان احمد میں منیر اور پھر ان باتوں کو سوچیں جن کو ہونا ہے ابھی ناچیز سے بھی اصرار تھا لیکن عرض کیا کہ اخبار نویس کی خطابت کا یہ موقع نہیں۔ ایک سامع کی حیثیت سے آیا ہوں‘ بس سننا چاہتا ہوں۔ ’’عرصہ امتحان‘‘ کی تیسری قسط آج لکھنا تھی۔ پروفیسر احمد رفیق اختر کا ایک تاریخی لیکچر۔ سب ضروری کام نمٹا کر‘ ایک بجے کمرے میں پہنچا۔ کھانا کھا لوں‘آرام کچھ دیرکر لوں اور کالم لکھوں۔ اتنے میں ڈاکٹر امجد ثاقب کے ڈرائیور پر نگاہ پڑی۔ اس نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب قریب ہی اپنے دفتر میں تشریف فرما ہیں۔ سلام کرنے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بتایا کہ ایک تقریب کے لئے‘ پابہ رکاب ہیں۔ ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ عرض کیا کہ مصروفیت ہے۔ مگرسہل نہیں‘ ڈاکٹر سے معذرت کرنا سہل نہیں۔ ان نادرو نایاب لوگوں میں سے وہ ایک ہیں‘ جن کا وجود بجائے خود ایک مشعل ہوتا ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا: مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں‘ اندھیری رات میں اور ناصرؔ کاظمی نے یہ کہا تھا: آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے غالبؔ‘ اشعر الشعرا غالبؔ یہ کہتے ہیں: سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں اور یہ کہا: مقدور ہو تو خاک سے پوچھوںکہ اے لعین تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے بیتے ہوئے اکابر کیوں؟ وہ لوگ کیوں نہیں جو ہمارے درمیان جیتے اور سانس لیتے ہیں۔ ان کی طرف ہم کیوں نہیں دیکھتے۔ ان سے اکتساب فیض کیوں نہیں کرتے؟ ڈاکٹر ادیب رضوی کا ادارہ ہے‘ غزالی فائونڈیشن ہے‘ ریڈ فائونڈیشن‘ تعمیر ملت فائونڈیشن اور کتنے ہی دوسرے ادارے۔ لگ بھگ پانچ ہزار سکول ہوں گے‘تعلیم جن میں مفت دی جاتی ہے۔ قصور میں ایسا بھی ایک سکول ہے‘ جہاں بچوں کو بستہ‘ کتاب اور وردی بھی پیش کی جاتی ہے۔ نو دیہات کے دو ہزار چھوٹے کاشت کار خاندان۔ بلا سود قرض اور کاشت کاری کے لئے ہر طرح کی رہنمائی۔ سو فیصد بچے اور بچیاں سکول میں داخل۔آمدن میں تین گنا تک اضافہ۔ کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں جہاں غسل خانہ موجود نہ ہو۔ برادری کے اجلاس مسجد میں ہوتے ہیں۔ خدیجہ عامر نے کہا:دیہاتی کہتے ہیں:حکومت کا سکول اور ہماری مسجد۔ دل پر چوٹ لگی۔ اشرافیہ نے‘حکومت نے کبھی انہیں اپنا سمجھا ہی نہیں۔وہ کیوں سمجھیں؟ مفلس ممالک ہوںیا تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستیں‘ ترکی اور ملائشیا کے سوا‘ ساری مسلم دنیا کا یہی حال ہے۔حکمران الگ ہیں‘ عوام الگ۔ شہری نہیں وہ رعایا ہیں۔ ایک صدی ہوتی ہے جب اقبالؔ نے کہا تھا: دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمیں ہے آج بھی حالت وہی۔ ساٹھ فیصد پاکستانی دیہات میں بستے ہیں‘پچھڑے لوگ‘ افتادگان خاک۔ پسماندگی الگ ‘ جہالت الگ‘ سب سے بڑا مرض مایوسی ہے۔ ’’اخوت‘‘ کے کارکن قصور کے ان دیہات میں پہنچے اور مدد کی پیشکش کی‘ بلا سود قرض کی پیشکش۔ اکثریت شک و شبے کا شکار تھی۔ ایک دوسرے سے انہوں نے کہا: ایک اور شعبدہ باز گروہ۔ چوروں اور ٹھگوں کا ایک اور ٹولہ۔ مفت میں کون کسی کی مدد کرتا ہے۔ انقلابِ سے پہلے کے روسی معاشرے کا درد ٹالسٹائی‘ دستوفسکی اور گورکی ایسے عظیم لکھاریوں نے کہانیوں میں مجسم کر دیا ہے۔جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے‘ لکھنے اور پڑھنے والے ان سے بالیدگی پاتے رہیں گے۔ ان سماجی کارکنوں کی تصویر گورکی کے قلم نے بنائی ہے‘ جو دیہاتیوں کی مدد کرنے جاتے۔ ٹھکرائے جاتے‘ ان کا مذاق اڑایا جاتا۔ انہیں زچ کیا جاتا۔غلامی کا برا ہو۔ آدمی کو آدمی رہنے نہیں دیتی‘ بوزنہ بنا دیتی ہے۔ فرانس کے نادر روزگار ادیب فرانزز فینن نے لکھا ہے:وہ اپنے آقا کے ذہن سے سوچتا ہے۔ خواب بھی اسی کی طرح دیکھنے کی آرزو رکھتا ہے۔ ایک آدھ برس‘ایک آدھ عشرہ نہیں‘کسی قوم کا مزاج صدیوں میں ڈھلتا ہے اور آسانی سے بدلتا نہیں۔صدیوں کی غلامی ہے۔ صدیوں کی تاریکی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اکثریت کو تعلیم سے محروم رکھا گیا۔ بہتر برس بیت گئے‘ اکثریت ناخواندہ۔ عمران خان سے مہاتیر محمد نے کہا تھا‘ روشنی اور ترقی کا سفر تعلیم سے شروع ہوتا ہے‘ تعلیم پہ تمام۔ وہ بھول گئے‘ بالکل ہی بھول گئے۔ نوجوان لیڈر سے بوڑھے مدبر نے کہا تھا: قومی اتفاق رائے اور صنعت کاری کے سوا فروغ کا کوئی راستہ نہیں۔ وہ بھول گئے‘ بالکل ہی بھول گئے۔ چھ سال میں صوبے کی معیشت کو چار گنا کرنے والے ‘ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے خان صاحب سے کہا تھا: پولیس میں اصلاحات اور سرکاری دفتروں کی سخت نگرانی۔تاکہ عام آدمی کی شکایت بروقت نمٹا دی جائے۔ عدالتی نظام کی کجی اور سست رفتاری دور کر کے‘ زیادہ سے زیادہ دو تین ماہ میں مقدمات کے فیصلے اور کرپشن کا خاتمہ۔صرف کرپشن کا خاتمہ خان صاحب کو یاد رہا اور وہ بھی سیاسی حریفوں کی کرپشن۔ باقی سب کچھ وہ بھول گئے‘ بالکل ہی بھول گئے۔ ’’حکومت کی طرف ہی ہم دیکھتے رہے تو عام آدمی کی حالت کبھی نہ سدھرے گی‘ کبھی نہیں‘‘ قصور کے دیہات میں کارفرما ’’اخوت‘‘ کے سرپرست نے کہا۔ اور یہ کہا: نسخہ وہی ایک ہے جو چودہ سو سال پہلے کے مدینہ منورہ میں سرکارؐ نے عطا فرمایا تھا۔ایک آسودہ خاندان‘ ایک بے نوا گھرانے کی ذمہ داری قبول کر لے۔ اقبالؔ پھر یاد آئے:جہاں کہیں روشنی ہے‘ مصطفیٰ ﷺکے طفیل ہے یا مصطفی ؐ کی تلاش میں۔ یہ ایک عملی آدمی کا تجزیہ تھا‘ بہت سے ادارے جس نے بنائے ہیں۔ اپنے زور بازو سے جس نے اپنی دنیا بدل ڈالی ہے۔ وہ جو فلسفی نے کہا تھا: تاریکی کو کوسنے سے بہتر ہے کہ ایک چراغ جلا دیا جائے۔ نجی یونیورسٹی کے کیمپس میں طلبہ کے چمکتے ہوئے چہرے۔ سٹیج سیکرٹری نے کہا اور بالکل بجا کہا گھنٹے بھر میں چہروں کے تاثرات بدل گئے ہیں۔کسی نے کہا دل بھی بدلنے چاہئیں۔دوسروں کا حال معلوم نہیں‘ مقرر نے جب یہ کہا کہ حکومتوں کو لعن طعن کرنے کی بجائے‘ اپنی ذمہ داری ہم کیوں نہیں نبھاتے تو شرمندگی سی شرمندگی تھی۔ بولے اپنی راہ میں مالک نے اپنا مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں اور ابھی ابھی جو تلاوت تھی‘ اس میں واضح تھا کہ صدقے سے مال بڑھتا ہے۔ آخرت ہی نہیں دنیا بھی سنور جاتی ہے۔عام آدمی کو دلدل سے نکالے بغیر ترقی کے کیا معنی؟ کہا‘ رحمت اللعالمین کی پسندیدہ دعائوں میں سے یہ ایک ہے: اے ہمارے رب ہماری دنیا کو بہترین بنا دے اور آخرت کو بھی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے منیرؔ نیازی کو یاد کیا: بیٹھ جائیں سایۂ دامان احمد میں منیر اور پھران باتوں کو سوچیں جن کو ہونا ہے ابھی