بھانت بھانت کی بولیاں اس روز بھی تھیں جب بھارتی نیتائوں نے اپنی ناپاک نیت کو جھوٹ کے غلاف میں لپیٹ کر دن کی روشنی میں شور مچایا کہ ہم نے پاک فضائوں کو ملیچھ کیا ہے۔ تب ارض پاک میں چھپے ہوئے منافقین کے چہرے کھل اٹھے۔ چھٹانک بھر کی زبان سے وہ شور اٹھایا کہ محب وطن ذرا دیر کو پریشان تو ہوئے لیکن کسی بھی لمحے کے ہزارویں حصے کے برابر بھی دشمن سے مرعوب نہیں ہوئے۔ منافقین کا کردار عبداللہ بن ابی سے اپنا رشتہ تازہ رکھتا ہے۔ اہل ایمان حالات کی چیرہ دستی سے پیچ و تاب کی حالت میں آتے ہیں، پھر نور ایزدی ان کا ہم سفر ہوتا ہے تو یہ منافقین کی بولی کو سمجھنے لگتے ہیں۔ بھارت کا میڈیا پائوں جوڑ کر صف بہ صف ہوئے جھوٹ کے کنکوے اڑا رہا تھا کہ دوسرے روز ساری دنیا نے فضائوں میں بھارتی ہوائی فوج کی ذلت کا تماشا دیکھا۔ باطل بل کھا کر رہ گیا۔ مشرکوں کی خام تمنائوں پر ایسی برف پڑی کہ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ انسانیت کے بدخواہ بھارتی نیتائوں اور سینا کی پشت پر سوار ابلیس دانت پیستا رہ گیا۔ اہل پاکستان پر، عالم اسلام پر خدا ئے وحدہ لا شریک کی رحمت کی چادر تن چکی تھی۔ ابھی نندن بھارت کی رسوائی کی علامت بنا دنیا کے سامنے تھا۔ پاک فوج کے ناقدین کے گھر ماتم کا آغاز ہوا۔ پاک فوج کے اندرونی دشمنوں کی صفوں میں کھلبلاہٹ تھی۔ ایک ہی جھٹکے میں دشمن کی کلائی موڑ دی عقل کے اندھوں کو ہر مرحلہ تنقید پر دیکھنا پڑے گا کہ سپاہ اسلام افواج پاکستان کے لیے صفحہ تقدیر میں فتح و نصرت کی جلی سطور موجود ہیں۔ بدخواہ اپنی رو سیاہی کا ہر مرحلہ دیکھیں گے۔ حکومتی ایوان ہوں یا اقتدار سے محروم پارٹیاں اگر پاکستان سے محبت کا اقرار کرتی ہیں، اظہار کرتی ہیں تو سب محترم ہیں، اگر کوئی ادارہ، فرد، سیاستدان اہلکار وفائے پاکستان کا انکار کرتا ہے تو اسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ یہ پاکستان ہے اس کی بنیاد لاالٰہ الا اللہ محمد رسول (ﷺ) ہے۔ عصمتوں نے، جوانیوں نے، معصوم نونہالان ملت نے اپنے خون سے بنائے وطن کی شہادت رقم کی ہے۔ جارح دشمن اور بغل میں چھپے منافقین خبردار رہیں کہ ابلیسی اسرائیلی قوتوں کی تہذیب بالآخر ذلت کے خنجر سے خودکشی کرے گی۔ کتنے بدبخت ہیں وہ لوگ جن کی اولاد پاکستان کی فضائوں میں زندہ رہ کر اپنی منحوس، بے برکت زبان سے پاکستان اور افواج پاکستان پر بے بنیاد اور شرمناک تنقید کرے۔ یہ لوگ حکمرانی کے نشے میں چور ہیں۔ وفاقی وزیر کی بیٹی اگر ماضی میں سپاہ پاکستان کے جری نوجوانوں پر زبان طعن دراز کرتی تھی تو آج بھی اس کی قسمت میں کوئی خیر کی خبر دکھائی نہیں دیتی۔ ابھی نندن کی رہائی کے لیے وفاقی وزیر کی بیٹی نے جلوس نکالا، قومی غیرت کے کسی باب میں ایسی بھی دختران وطن ہوتی ہیں؟ سب چپ، اسے کون سی مصلحت کا عنوان دیں؟ کیا یہ منافقین کی آماجگاہ سے اٹھنے والے غداروں کے نمائندہ نہیں ہیں؟ جناب وزیراعظم آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ اپنی رائے قائم کریں، آپ کو اختیار ہے کہ وسیع قومی مفاد میں مشاورت سے کوئی قدم اٹھائیں لیکن ابھی نندن کے درد میں تڑپنے کی اجازت حب الوطنی کا کون سا تقاضا دیتا ہے؟ یہ آپ کی حکومت میں شامل وفاقی وزیر اپنی اولاد کے قوم دشمن عمل کی تردید کیوں نہیں کرتے۔ ’’ہمارا دین، ہماری ثقافت، ہمارے رسم و رواج سب جدا جدا ہیں‘‘ یہ حق بات تھی، اس قائداعظم کی اخلاقی، سیاسی، دینی پشت پناہی کے لیے امیر ملت پیر جماعت علی شاہ، نعیم الدین مراد آبادی، شاہ عبدالعلیم مرہٹی، علامہ شبیر احمد عثمانی، پیر صاحب بھر چونڈی شریف، شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی، راجہ صاحب محمود آباد، علامہ ابن حسن جارچوی، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا دائود غزنوی،اکابر ملت کا جم غفیر موجود تھا۔ کہ ہم گائے کا گوشت کھاتے ہیں، وہ گائے کی پوجا کرتے ہیں، ہمارے ہاں تو نومولود جگرجان بچے کا پیشاب بھی ناپاک ہے، ان کے ہاں طہارت کا معیار گائے کا پیشاب ہے۔ ابھی تک یہ دینی اور ثقافتی فرق چلا آ رہا ہے۔ وہ گائو موتر سے مشروبات تیار کرتے ہیں، ان کے حکمائے حاذق بے شمار روگوں کا علاج یہی پیشاب بتاتے ہیں اور اگر کوئی بے چارہ مسلمان گائے ذبح کرلے تو پوری جمعیت مشرکان اس غریب مسلمان کے وجود کا قیمہ کردیتی ہے۔ ہاں آج بھی جی ہاں آج بھی۔ بھارتی برہمن آج بھی مسلمان کو دلتوں کی طرح بھرشٹ (ناپاک) بتاتا ہے۔ یہ ہنگام حرب ہے، جذبات کو توانائیوں کا امتحان ہے۔ کوئی وزیر، کوئی مشیر اپنے ایمان سے کیوں ہاتھ دھونے لگا۔ فیاض چوہان نے قائداعظم کے افکار کو تازہ بیانیے کا رنگ دیا تھا کہ اسے وزارت سے محروم ہونا پڑا۔ وفاق میں پاک فوج پر جارحانہ بیان دینے والوں کے آبا و امہات اب حکومتی پردوں میں محفوظ ہیں۔ ایک دانش مار اینکر کی جرأت کہ بولا، نعت خوانوں کو وزیر بنایا جاتا ہے۔ تف ایسی سوچ پر اور منحوس و حرف جو نعت کی نسبت پر تنقید کا تبر بنیں۔نعت تحریک دین و ملت میں اثاثہ کا مقام ہے کہ جب جناب حسان بن ثابت ؓ نے میز پر بیٹھ کر ممدوح کونین ﷺ کی نعت پڑھی اور مشرکین عرب کی ہجوکہی۔ دربار رسالت پناہ ﷺ سے تائید حاصل تھی۔ مضمون شعر فخر صداقت ابوبکرؓ نے فراہم کیا تھا۔ آسمان سے جبرائیل علیہ السلام فکر کو اجال رہے تھے اور یہ اسلامی ادب کی جان ہے قصیدہ حسان۔بھارت کی عدلیہ کا ممتاز نام مرکنڈے کا بیان مدعی لاکھ پر بھاری ہے گواہی تیری ’’گائے کوئی مقدس وجود نہیں۔ یہ گھوڑے کی طرح ایک جانور ہے۔ ہندو اس کی آڑ لے کر انسانیت کا قتل عام نہ کریں۔ اغیار کی وکالت کا بخار اتنا بڑھا کہ اپنے جیسے انسان کو تمام انسانوں سے اور تمام مخلوقات پر برتر ثابت کرنے کا نیا جنون آسیب بن کر چمٹا۔جناب وزیراعظم آپ کے وزیر کا بیان بندہ پرور آپ کے وزیر حواس سے ہٹ کر ایمان سے پیٹھ پھیر کر ثابت کر رہے ہیں۔ بہت بڑا، بڑا متکبرانہ، بہت ہی غیر مومنانہ بیان ہے۔ راقم مفتی نہیں ہے۔ نورالحق قادری وزیر مذہبی امور، سعیدالحسن شاہ صوبائی وزیر مذہبی امور برملا تردید کریں۔ برملا اہل فتویٰ سے رجوع کریں۔ حکومتی اداروں سے متعلق علماء حق اپنا ایمانی فریضہ ادا کریں۔