جیسے ہماری نسل کے بابا جات ویت نام کو ہوچی منہہ کے حوالے سے جانتے تھے اسی طرح کمبوڈیا کو ہم پرنس سہانوک کی صورت میں پہچانتے تھے۔ وہ ایک بہت محب الوطن ‘ متحرک اور ترقی پسند سوچ رکھنے والا لیڈر تھا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ اپنے ملک کو اردگرد کے خطوں میں جنگ کے جو شعلے بھڑک رہے تھے‘ ان سے بچا کے رکھے۔ لیکن ہوچی منہہ ٹریل کمبوڈیا کے جنگلوں میں سے بس گزرتا تھا اور امریکی اسے برباد کرنے کی خاطر بے دریغ بمباری کر رہے تھے۔ سہانوک ویت نام اور امریکہ کی منت سماجت ہی کر سکتا تھا کہ پلیز کمبوڈیا کو برباد نہ کرو اور پھر سہانوک معزول ہوا۔ فرانس میں تعلیم حاصل کرنے والے چند سر پھرے کمیونسٹ نوجوانوں نے واپسی پر ملک پر قابض ہو کر ظلم اور بربریت کی حد کر دی۔ یہ کمیونزم کی داعش تھی۔ اس کا لیڈر پول پاٹ نام کا ایک ایسا شخص تھا جس نے پورے ملک کو اتھل پتھل کر دیا۔ لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا اور لاکھوں لوگوں کی کھوپڑیوں سے عہد جدیدکے کھوپڑیوں کے کھیت کاشت کئے۔ اس لیے کمبوڈیا’’کلنگ فیلڈ‘‘ کہلایا۔ اس کے صدر مقام نوم پنہ میں کھوپڑیوں کا ایک یادگاری عجائب گھر ہے۔ کمیونسٹ اب بھی کمبوڈیا پر حکمرانی کرتے ہیں لیکن انہوں نے بادشاہت کو بھی قبول کر لیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے تڑکے سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ آج کا کمبوڈیا اگرچہ زیادہ متمول نہیں لیکن وہ ایک خوش و خرم اور صابر شاکر ہمہ وقت مسکراتا ملک ہے۔ کل ہم نے صبح سے تقریباً رات تک سیم ریپ کے سب قابل ذکر مندروں کو بھگتا دیا تھا اور آج ہمیں سیم ریپ کے شہر سے فرار ہو کر کمبوڈیا کی ہریاول بھری لینڈ سکیپ میں دور تک سفر کرنا تھا‘ کسی آبشار تک جانا تھا۔ ایک ایسے دریا تک پہنچنا تھا جس کی تہہ کے پتھروں میں ہندوئوں کے خدا تراشے گئے تھے۔ وہ کون سے خدا تھے؟ جب وہاں پہنچیں گے تو عرض کروں گا کہ ابھی مجھے شرم آتی ہے۔ پھر کسی استراحت فرماتے ہوئے مہاتما بدھ کا قدیم مجسمہ دیکھنا تھا اور سیم ریپ واپسی پر راستے میں دوچار مندر بھی دیکھنے تھے اور ان میں ’’بنت سرائے‘‘ کا گلابی معبد بھی تھا جو سنگ تراشی اور تزئین کا ایک معجزہ بتایا جاتا تھا۔ ڈیوڈ ایک فرمانبردار غلام کی مانند ہوٹل کے باہر ہماری آمد کا منتظر تھا ہم نے حسب معمول ایک سپر سٹور سے منرل واٹر‘ جوس‘ چپس‘ چاکلیٹ اور سینڈ وچز وغیرہ خریدے اور ہو گئے روانہ۔ لینڈ کروزر کے ڈیش بورڈ پر مہاتما بدھ کا ایک چھوٹا سا سنہری مجسمہ نصب تھا۔ ’’ڈیوڈ آپ تو ڈیوڈ ہو۔ یقینا عیسائی ہو تو یہ مہاتما بدھ کو کیوں اپنے سامنے آویزاں کر رکھا ہے‘‘ ’’اس لیے سر کہ میں ایک نہائت راسخ العقیدہ بدھسٹ ہوں۔ چونکہ میرا کمبوڈین نام سیاحوں کی زبان پر نہیں چڑھتا اس لیے ان کی آسانی کے لیے ڈیوڈ ہو گیا ہوں‘‘ ’’نہیں ڈیوڈ‘‘ میں نے کہا’’میں چاہتا ہوں کہ میں تمہیں تمہارے آبائی نام سے پکاروں‘ وہ کیا ہے‘‘ اس نے کچھ تنگ پھنگ ہوتی ہوئی بہ جنگ آمد قسم کا نام بتایا۔’’میرا خیال ہے ڈیوڈ ہی بہتر رہے گا‘‘ سیم ریپ سے نکلے تو ہر جانب ایک عجب خوشنمائی اور ہریاول بھری دیدہ زیبی تھی۔ چھپروں والے گائوں تھے جن میں مرغیوں کے علاوہ ننھے منے سوّر بھی گلیوں میں پھرتے تھے۔ دیہات کے کھیتوں میں ہل کے آگے بھینسیں جتی ہوئی تھیں بلکہ ایک جگہ’’بھینس فارم ہائوس‘‘ کا بورڈ نظر آیا ۔ ڈیوڈ نے بتایا کہ لوگ اس فارم ہائوس میں پکنگ کے لیے آتے ہیں۔ بھینسوں کو نہلاتے ہیں‘ ان پر سواری کرتے ہیں اور ان کا دودھ دوہتے ہیں۔ مجھے سرفراز گجر یاد آ گیا وہ کتنا پرمسرت ہو گا کہ کمبوڈیا میں بھینسیں ہیں اور یہ لوگ بھی گجر ہیں۔ لیکن یہ پاکستانی فلموں کے وحشی گجر نہیں۔ نہائت دھیمے مزاج کے معصوم سے گجر ہیں۔ بڑھاپے کے بہت سے مفت ہاتھ آنے والے تحفے ہیں۔ گھٹنوں کے درد ہیں۔ پراسٹیٹ ہیں‘ دل کے عارضے ہیں اور ہر ایک دو گھنٹے کے بعد فراغت کی آرزو ہے کہ آبی بوجھ فارغ ہونے کی درخواستیں کرتا ہے۔ میں نے پہلی مرتبہ ڈیوڈ سے رکنے کی استدعا کی تو وہ کہنے لگا’’سر آپ تصویریں اتارو گے۔ نہیں؟ تو آپ بوڑھے ہو‘ جنگ میں جائو گے۔ کنارے پر فارغ ہو جائو۔ جنگل میں قدم نہ رکھو۔ ابھی تک امریکیوں کی دبائی ہوئی ہزاروں لینڈ مائنز شاہراہ کے آس پاس کے جنگلوں میں پوشیدہ ہیں۔ لوگ کبھی ان پر پائوں رکھتے ہی اڑ جاتے ہیں یا اپاہج ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ میں نے جنگل سے گریز کیا بلکہ اس اطلاع کے بعد کہ وہاں ابھی تک زمیں دوز سرنگیں موجود ہیں نہ صرف میرا خون بلکہ میرا آبی بوجھ بھی خشک ہو گیا۔ شائد میں تذکرہ کر چکا ہوں کہ ڈیوڈ نے نہ تو ریڈیو کو آن کر کے کسی کمبوڈین عیسیٰ خیلوی کے نغمے سنے‘ نہ سگریٹ پیا اور نہ ہی گنگنایا اگر میں نے کسی جوس کی آفر کی‘ کوئی سینڈ وچ پیش کیا تو اس نے مسکرا کر معذرت کرلی۔ عجیب ڈرائیور تھا۔ البتہ وہ قدرے کھل گیا باتیں کرنے لگا۔ ’’سر جس سٹور سے آپ نے منرل واٹر اور جوس وغیرہ خریدے ہیں۔ وہاں میری بیوی سیلز گرل ہے اور اسے دن بھر کی مشقت کے چھ ڈالر ملتے ہیں۔ مجھے بھی اس لینڈ کروزر کی ڈرائیونگ کے عوض میں ہوٹل کی جانب سے چھ ڈالر ادا کئے جاتے ہیں۔ مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔ لیکن میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے کوریا کے باغوں میں پھل اتارنے کی نوکری چھ ماہ کے لیے مل گئی ہے اور کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وہ روزانہ پچاس ڈالر کی ادائیگی کرتے ہیں‘ شائد میں اس رقم سے اپنے گائوں میں ایک ذاتی جھونپڑا تعمیر کر لوں۔ ان خطوں کے باسیوں کے لیے جنوبی کوریا ایک ایسی جنت ہے جس میں داخل ہونے کی یہ لوگ آرزو کرتے ہیں‘ خواب دیکھتے ہیں۔ کوریا ان کے لیے ایک امریکہ ہے۔ ’’ڈیوڈ آپ کون سے ہمسایہ ملکوں کو پسند کرتے ہیں؟‘‘ ’’سر۔ لائوس والے اچھے ہیں۔ ویت نامی بھی ٹھیک ہیں اگرچہ ہمیں حقارت سے دیکھتے ہیں لیکن تھائی لینڈ والے بہت بُرے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سیم ریپ کا مطلب ہے جہاں سیام کی سلطنت کو شکست ہوئی۔ انہوں نے ہم پر حملہ کیا تو ہم نے انہیں بھگا دیا۔ ہمارے شہر کا نام کچھ اور تھا لیکن ہم نے اسے سیم ریپ قرار دیا۔ ’’ڈیوڈ ۔ میں نے سیم ریپ کے بازاروں میں ایسے ایسے جانور روسٹ ہوتے دیکھے ہیں جن کے مقابلے میں سوّر بہت مناسب لگتے ہیں تو آپ بدھ لوگوں میں کھانے پینے کے معاملے میں کچھ پابندیاں ہیں‘‘ ’’سر۔ ہم لوگ سب کچھ کھا جاتے ہیں۔‘‘ ’’یہ بتائو کہ کیا کیا کھا جاتے ہو اور تمہیں کس جانور یا پرندے کا گوشت سب سے زیادہ پسند ہے‘‘ ’’سر مجھے تو چکن بہت پسند ہے ۔ بہترین گوشت ہے ہمارے ہاں اگر کوئی بہت عزیز مہمان آئے تو ہم اس کے لیے گائوں کی گلیوں میں پلنے والا چکن لاتے ہیں(یعنی دیسی اور آرگینک چکن) چکن کے بعد بھینس کا گوشت مزیدار ہوتا ہے اگرچہ مہنگا ہوتا ہے۔ سوّر کا بچہ مل جائے تو کیا ہی کہنے لیکن روز روز نہیں ملتا۔ البتہ ہم جیسے لوگ مگرمچھ کے گوشت پر گزارہ کر لیتے ہیں کہ یہ ذرا سستا ہوتا ہے۔ مگرمچھ فارم کثرت سے ہیں اور انہیں ہلاک کر کے ان کی کھال سے بیگ‘ جوتے اور سوٹ کیس وغیرہ بنائے جاتے ہیں یوں گوشت فالتو ہوتا ہے لیکن سخت ہوتا ہے‘‘ ’’ڈیوڈ ۔ کیا آپ سانپ بھی رغبت سے کھاتے ہو؟‘‘ اس نے ایک سرد آہ بھر کر کہا’’سر ۔ سانپ کہاں ہمارے نصیب میں۔ کبھی کبھار شادی بیاہ کے موقعوں پر ’’سانپ پلائو‘‘ مل جاتا ہے اور آخری سوال تھا کہ ڈیوڈ کبھی کتا بھی کھایا ہے؟ ڈیوڈ کی حالت غیر ہو گئی’’سر میں ایک غریب شخص ہوں‘ میری کیا اوقات کہ کتا کھائوں۔ صرف ایک بار کھایا تھا اور دوسری بار کھانے کی ہوس ہے۔ اس کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے۔ امیر لوگ کھاتے ہیں اور اس کے ساتھ لائوس کی بیئر پیتے ہیں۔ سر آپ کتا کھائیں گے؟سیم ریپ میں ریستوران ہیں جہاں سالم روسٹ شدہ کتوں کے علاوہ ان کے لیگ پیس بھی ملتے ہیں۔ چلیں گے؟‘‘ واپسی پر چلیں گے۔ایک عرصہ ہو گیا کتے کا لیگ پیس کھائے ہوئے۔ کیوں نہیں چلیں گے۔ وہ لیگ پیس بھونکتے تو نہیں؟‘‘