آیا صوفیہ کے مناظر ایسے دلکش ہیں کہ اٹھنے کو دل نہیں چاہتا مگر کالم لکھنے کا وقت گزرتا جا رہا ہے۔ جو موضوع چار چھ دن سے کچوکے لگا رہا ہے‘ وہ دوہری شہریت رکھنے والوں کا مسئلہ ہے۔ اسے خوامخواہ الجھایا جا رہا ہے۔ ملک کی اجتماعی ذہانت نے پارلیمنٹ میں فیصلہ کیا کہ دوہری شہریت رکھنے والے پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہو سکتے۔ پھر سوال اٹھ کھڑا ہوا آیا وہ کابینہ کے رکن ہو سکتے ہیں۔ اگر کابینہ کے رکن ہو سکتے ہیں تو آیا یہ پارلیمنٹ کا رکن ہونے سے کم تر ذمہ داری ہے یا کم حساس ذمہ داری ہے۔ جس مصلحت کے تحت انہیں پارلیمنٹ کا رکن نہیں بنایا گیا۔ کیا وہ مصلحت یہاں آ کر ساکت ہو جاتی ہے۔ اس میں ساتھ ہی ایک معاملہ اور آ گیا کہ وہ وزیر تو نہیں ہو سکتے‘ مگر کسی اور نام سے کابینہ کا حصہ بن سکتے ہیں۔معاف کیجیے تاریخ کے فیصلے عدالتوں کے فیصلوں کے محتاج نہیں ہوا کرتے نہ وہ عقل و دانش کے ان سب پیمانوں پر پورا اترنا لازم ہے جو قانون سے ہٹ کر ہو۔ اس سلسلے میں بعض اوقات یہ تک کہا جاتا ہے کہ عدالتیں قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں‘ انصاف کے مطابق نہیں۔ میرے خیال میں اس سے الٹ بات بھی درست ہو سکتی ہے۔ بات کابینہ تک رکھتے ہیں۔ یہاں بہت حساس معاملات کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ایسے معاملات جو ملک کی سلامتی کے لئے بھی ضروری ہوتے ہیں۔ ایسے میں سوال پوچھا جا سکتا ہے کیا کوئی ایسا شخص جس نے کسی غیر ملک سے وفاداری کا بھی حلف اٹھایا ہوا ہو۔ مملکت خداداد پاکستان کا مکمل وفادار ہو سکتاہے۔ خاص طور پر اس حوالے سے بھی کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ مطلب یہ کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔ اس ریاست کے بعض تقاضے بالکل منفرد ہوں گے جو شاید دنیا کی کسی اور قوم کو سمجھ نہ آئیں۔ بہرحال یہاں سوال یہی ہے کہ آیا کسی ایسے شخص کو اہم ترین اور حساس ترین فیصلوں میں شریک کیا جا سکتا ہے۔ اور کیا وہ اس کی راز داری رکھ سکتا ہے۔ بس اتنا سا معاملہ ہے۔ بڑا سیدھا اور سادا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک نکتے کی وضاحت کرتا چلوں۔ عام طور پر جب یہ معاملہ زیر بحث آتا ہے تو یار لوگ تارکین وطن کا مسئلہ لے کر سامنے آ جاتے ہیں۔ دیکھو‘ وہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں۔ پاکستان کے لئے کماتے ہیں اور ملک کو زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ ان کی حب الوطنی کسی شک سے بالاتر ہے۔میں اس معاملے پر کچھ نہیں کہتا‘ بلکہ یہ کہہ کر اس بحث سے گزر جاتا ہوں کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں تاہم یہاں معاملہ ان کانہیں جو دیار غیر میں دربدر کی ٹھوکریں کھا کر اپنے اور اپنے گھروالوں کا مستقبل سنوارنے کی سعی کرتے ہیں۔ہم نے ان کو ووٹ کا حق دے دیا ہے اگرچہ اس پر بعض حلقوں کو تکنیکی اعتراضات ہیں۔ یہاں معاملہ ان کا نہیں بلکہ ان کا ہے جو تاج برطانیہ سے یا امریکی آئین اور سرزمین سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ یہ بالکل الگ کیٹگری ہے۔ ان میں ان لوگوں کو بھی شامل کر لیجیے جو ان دوسرے ممالک کی فیوض و برکات سمیٹنے کے پراسس میں داخل ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے پاس امریکہ کا گرین کارڈ یا ریذیڈنس ہے۔ وہ جس راہ پر چل دیتے ہیں ۔ وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ انہیں نئے ملک کا شہری بننا ہے۔ ہمیں تو ہمارے علماء بھی یہ سکھاتے ہیں کہ جہاں رہو‘ وہاں کے وفادار رہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر انہیں معاونین خصوصی بنا دیا جائے یا ایسی ہی کوئی دوسری پخ ان کے ساتھ لگا دی جائے تو کیا اس حیثیت سے وہ کابینہ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اگر نہیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔ اور اگر ہاں تو اس کا جواز کیا ہے۔ دیکھیے کابینہ کو بعض ایسے فیصلے کرنا ہوتے ہیں جو بہت حساس ہوتے ہیں۔ کیا وہ اس فیصلہ سازی میں شریک ہو سکتے ہیں اور حساس معاملات کو رازداری میں رکھ سکتے ہیں‘ قطع نظر اس کے کہ ان کی حب الوطن پر سوال اٹھایا جائے۔ برطانیہ میں وزیر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وزیر اور دوسرا کیبنٹ منسٹر (یعنی کابینہ کا وزیر) ان کے ہاں دوہری شہریت کا مسئلہ نہیں مگر کابینہ ایسا نازک حساس اور اہم ادارہ ہے کہ جب وزیر اعظم کابینہ میں فیصلہ کرتا ہے تو اس کے ارکان کی تعداد محدود ہوتی ہے اور جب وہ وزراء کا اجلاس طلب کرتا ہے تو اس میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو محض وزیر ہوتے ہیں یا وزیر مملکت ہوتے ہیں اور وہ کابینہ کے رکن نہیں ہوتے۔برطانیہ نے اس بات کی احتیاط برت رکھی ہے۔ امریکہ کے صدارتی نظام کے تو خیر انداز نرالے ہیں ہمارے کرم فرما ڈاکٹر عبدالقادر خاں نے توجہ دلائی کہ اسلامی دنیا کے عظیم ماہر سیاسیات ماوردی نے بھی اس حوالے سے دو الگ الگ الفاظ استعمال کر رکھے ہیں۔ ایک وزیر التفویض اور دوسری قسم کی محدود اختیارات والی وزارت کہ وزارت التنفیذ۔ ہمارے علماء نے اس طرح کے بہت سے کام کئے ہیں۔ یا علمائے یونا ن یا علمائے ہند یا علمائے اسلام ان کے ہاں معاملات حکومت کے معاملے میں بڑی نکتہ سنجیاں ملتی ہیں۔ یہ کوئی انگریز سے مخصوص نہیں ہے۔ اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ کہنا یہ ہے کہ ہمارے آئین کے مطابق بھی پانچ مشیر رکھے جا سکتے ہیں جن کا درجہ وزیر کا ہوتا ہے‘ مگر یہ مشیر کوئی فیصلے کرنے میں خود مختار نہیں ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کا حصہ بھی نہیں بن سکتے۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارے مالی معاملات کے انچارج ایک مشیر ہیں‘ حفیظ شیخ صاحب ۔ مالی امور میں وہ حرف آخر ہیں۔ مگر اسمبلی میں بجٹ پیش نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ایک نوجوان وزیر کی مدد لی جاتی ہے۔ جنہوں نے قطعاً بجٹ نہیں بنایا ہوتا۔ان مشیر خزانہ کو قومی مالیاتی کمشن کا رکن بنایا جاتا ہے کہ سب فیصلے انہوں نے ہی کرنا ہوتے ہیں۔مگر اس پر اعتراضات آ جاتے ہیں کہ وہ وزیر نہیں ہیں مشیر ہیں۔ وزیر کے لئے پارلیمنٹ کا رکن ہونا ضروری ہے۔ صحت کے مشیر ظفر مرزا سے مالی اختیارات واپس لے لئے جاتے ہیں کہ یہ ان کا استحقاق نہیں اور وزیر صحت تو وزیر اعظم خود ہیں۔ سو ہر بل پر ان کے دستخط لئے جائیں۔ اب اس میں ایک الجھن اور آ گئی۔ ہمارا صرف پانچ مشیروں سے گزارا نہیں ہو رہا تھا۔ ہمیں مزید افراد چاہیے تھے۔ ہم نے انہیں معاون خصوصی کا نام دے دیا۔ ساتھ حکم جاری کر دیا کہ ان کا مرتبہ اور مراعات وفاقی وزیر کے برابر ہوں گی یا پھر وفاقی وزیر مملکت کے برابر‘ جو بھی ہم چاہیں اب بھلا یہ بتائیے یہ تیسرے درجے کا وزیر جو مشیر بھی نہیںکابینہ میں بیٹھ کر حساس معاملات پر رائے دینے کا اہل ہو سکتا ہے۔ جبکہ وہ غیر منتخب بھی ہے اور غیر ملکی بھی۔ چلیے یوں کہہ لیجیے نیم غیر ملکی۔ کیا کوئی ریاست ایسے شخص پر اعتبار کر سکے گی۔ اتنی سی بات تھی جسے ہم نے زیب داستان کے لئے اتنا بڑھا ڈالا ہے۔ان میں سے بعض صرف غیر منتخب اور غیر ملکی ہی نہیں‘ بلکہ ان کی اہلیت پر بھی اہل پاکستان کو اعتراض ہے۔ بہت سے معاونین خصوصی چاہے وزیر اعظم کے بہت چہیتے ہوں‘ پاکستان کے عوام پر اپنی صلاحیتوں کا سکہ نہیں جما سکے۔ ایسے میں انہیں کابینہ کا رکن بنانا کابینہ کے اجلاس میں شامل کرنا کہاں کی دانش مندی ہے‘ کہاں کی حب الوطنی ہے۔