ماہرینِ نفسیات اس امر پر متفق ہیں کہ ہر انسان کی ہستی سے کچھ غیر محسوس سی لہریں نکلتی ہیں جویا تو دوسروں کو اپنی طرف کھینچتی یا انہیں دور دھکیل دیتی ہیں۔ پہلی قسم کی لہریں صرف ان لوگوں سے نکلتی ہیں جن کے دل ودماغ میں محبت، مروّت ، اور پاکیزگی کی دنیا آباد ہو ، یہ پاکیزگی ان کے چہروں پر بھی اثر ڈالتی ہے ۔ ہم ہرروز کچھ ایسے چہرے دیکھتے ہیں جن کی طرف دل کھنچتا چلاجاتا ہے ،اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کی خشونت ، بدو ضعی اور بے آہنگی دل میں نفرت وکراہت پیدا کرتی ہے ۔ضاحِک ،متبسم اور خوشنما چہرے ،وہ انعامات ہیں جو پاکیزہ لوگوں کورحیم وکریم ربّ کی بار گاہ سے عطا ہوتے ہیں ۔جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے : ’’کتنے ہی چہرے اس دن ( نورِ ایمان سے ) چمک رہے ہوں گے ،ہنستے ہوئے خوش وخرم۔اور کئی چہرے اس دن غبار آلودہوں گے ۔ان پر سیاہی چھائی ہوئی ہوگی ۔‘‘ برصغیر کی تاریخ ۔صوفیائے اُمّت کے چہروں کی ضوء ریزیوں اور ضیاء پاشیوں سے مزّین اورمنور ہے ۔اسی سلسلۃ الذہب کی جلیل القدر ہستی اور عظیم المرتبت شخصیات جن میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ ،خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ ، بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ہیں،جو تاریخ تصوّف میں ’’محبوبِ الٰہی ‘‘ کے لقب سے معروف ہوئے ۔ بقول اقبال : نہاں ہے تیری محبت میں رنگِ محبوبی بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تیرا اللہ تعالیٰ نے ان اولوالعزم اورجلیل القدر ہستیوں کو ایسی امتیازی خصوصیات اور اعلیٰ صفات سے سرفراز فرمایا، کہ ان کے اسماء مقدسہ سنتے ہی انسان پر وجد ومستی کی ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔’’ تَرٰ ھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا ‘‘ کی معنوی تابشیں ان کی جبین ہائے سجدہ کوانوارِ الٰہیہ کا مظہر بنائے رکھتیں ۔ان کی ریاضتوں ،فقر وفاقے اور بزرگی کے باوجود ،ان کی تقدس مآبیاں اورجلوہ سامانیاں بڑے بڑے جوانانِ رعنا سے ،اُن کے حُسن وشباب کا اعتبار چھین لیتیں ، اوران کی رعنائیوں کے ماتھے پسینہ پسینہ ہو جاتے ۔ تنہا چلتے تو رُعب وجلالِ خدا وندی کا ہجوم ان کے جِلو میں ہوتا اور ادب شعار نگاہ بھی سامنا نہ کر پاتی ۔بقول طوطی ہند حضرت امیر خسرو دہلویؒ : برخاک زرحمت آسمانے بہ چرخ ز دولت آسمانے ’’وہ اپنی نوازشات کے باعث زمین پر فلک کی حیثیت رکھتے ہیں اور اُن کی اقبال مندی آسمان سے بھی بلند تر ہے ۔‘‘ درحجرۂ فقر، بادشا ہے در عالمِ دل، جہاں پنا ہے ’’وہ حُجرئہ فقر کے شہنشاہ ہیں ، وُہ عالمِ دل کے آسمان ذی جاہ ہیں ۔‘‘ شاہنشہ بسر یر و تاج شاہانش بہ خاکِ پائے محتاج ’’آپؒ تاج وسریرسے بے نیاز وہ شہنشاہ ہیں کہ شاہانِ وقت بھی آپؒ کے محتاج ہیں ۔‘‘ سلاسلِ طریقت میں سے اوّلین سلسلہ ، جس نے برصغیر میں ایک مرکزی نظام کے زیر اثر، گراں قدر اور تاریخ ساز خدمات سرانجام دیں، وہ بلا شبہ ہی "سلسلۂ چشتیہ "ہے ، اس خطے میں، جس کے،یقینا سرخیل اور امام حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ تھے، جو حضرت داتا گنج بخشؒ کے وصال کے تقریباً سوا سو سال بعد یہاں تشریف فرما ہوئے۔ اجمیر، جو کہ شمالی ہند کا سب سے موثر سیاسی اور ثقافتی مرکز تھا،کو آپ نے مرکز بنایا۔ ترائن کی لڑائی (1192ئ) میں پرتھوی راج کی شکست کے بعد،سلطان محمد غوری نے قطب الدین ایبک کواپنا نائب السلطنت مقرر کیا، تاہم سلطان شمس الدین التمش (1210ء تا 1236ئ)جب تختِ دہلی پر، اسلامی ہند کے پہلے خود مختار فرمانروا کے طور پر متمکن ہوا، تو ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ سیاسی طور پر اجمیر کی بجائے دہلی اور لاہور کی اہمیت میں اضافہ ہوا، خواجہ معین الدین چشتی ؒاز خود تو اجمیر ہی میں مقیم رہے، مگر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کو آپ نے، اپنے نائب کے طور پر دہلی میں قیام کا حکم صادر فرمایا۔ سلطان شمس الدین التمش جن کی طبیعت میں رقّت و گداز، اور مزاج میں عاجزی اور مسکنت کا رنگ نمایاں تھا، جلد ہی حضرت خواجہ قطبؒ کا حلقہ بگوش ہوگیا۔ چشتیہ سلسلہ "عوام دوستی"کی وجہ میں سوسائٹی میں بہت جلد رسوخ پا گیا، یہاں تک کہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب ---بالخصوص ہندو اور ما بعد سکھ بھی چشتی صوفیاء کے گرویدہ ہوگئے، حضرت خواجہ قطبؒ کے بعد، حضرت بابا فرید الدینؒ اور حضرت نظام الدین اولیائؒ کی خانقاہوں میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی کثرت سے حاضری دینے لگے، جس کا بنیادی سبب صوفیاء چشت کی رواداری، انسان دوستی، ہمدردی اور مخلوق کی بے لوث خدمت تھی، اگرچہ چشتی بزرگ اصولی طور پر "دربار داری"سے احتراز کرتے، تاہم اوائل دور میں سلطان محمد غوری، سلطان شمس الدین التمش ، قطب الدین ایبک سمیت دیگرشاھانِ ہندوستان ---ان بزرگوں کے درباروں پر حاضری کوسعادت سمجھتے، جس کے سبب برصغیر میں مسلم حکمرانی کے اس اوّلین عہد کو بالخصوص استحکام میسر رہا۔ یہ سلاطین --- اپنے اپنے عہد کی ان اولوالعزم اورجلیل القدر ہستیوں سے ہمیشہ دعاؤں اور نصائح کے طالب رہتے، سلطان شمس الدین التمش جس نے چھبیس سال تک نہایت پُرشکوہ انداز میں ہندوستان پر حکومت کی ، اور جس کی شجاعت وبہادری نے سارے ہندوستان کی گردنیں اس کے سامنے خَم کردیں، لیکن وہ جس ہستی کے آگے اپنی گردن خَم رکھنے کو اعزاز سمجھتا ،وہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ تھے ،جن کی نصیحت اور وصیت کو سلطان نے ہمیشہ اپنے لیے حرزِ جاں بنائے رکھا، خواجہ قطب نے سلطان کو ہدایت فرمائی تھی کہ ـ: ’’ اے والی دہلی ! تجھے چاہیے کہ غریبوں ،فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ نیکی سے پیش آئے، اورخلق کے ساتھ نیکی کرے ،رعیت پرور ہو ، جوبھی رعایا کے ساتھ رعایت کرتا اور خلقت کے ساتھ نیکی کابرتائو کرتاہے، اللہ اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے دشمن بھی اس کو دوست سمجھنے لگتے ہیں ۔‘‘ عہد سلاطین میں مساجد، مدارس اور خانقاہوں کے امور اور بالخصوص علماء ، خطبا اور دیگر طبقات کے معاملات دیکھنے کے لیے حکومتی سطح پر’’ صدر الصدور‘‘ اور’’ شیخ الاسلام‘‘ کے عہدے موجود تھے، جن کی وساطت سے تختِ شاہی اپنی رعایا کی دینی اقدار اور مذہبی جذبات سے آگاہی اور ان کے مسائل کے تصفیہ کی طرف متوجہ رہتا--- مولانا جمال الدین محمد کے انتقال کے بعد، التمش اس بات کا خواہش مند تھا کہ "شیخ الاسلام " کا منصب حضرت خواجہ قطبؒ قبول فرمائیں، ظاہر ہے یہ ممکن نہ تھا، چنانچہ یہ عہدہ مولانا نجم الدین صغریٰ کو عطا کر دیا گیا، جن کی طبیعت میں حسد اور غرور تھا، حضرت خواجہ قطب ؒ صاحب کی مقبولیت، اس کے لیے انتہائی بے چینی کا باعث تھی، جس کے سبب وہ ہمہ وقت آپؒ کو ایذا رسانی کے درپے رہنے لگا۔ شیخ الاسلام کے اس معاندانہ رویّے کے سبب حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے حضرت قطب الدینؒ کو ، اپنے ہمراہ اجمیر لے جانے کا فیصلہ کر لیا، التمش کو جب اس امر کی اطلاع ہوئی تو ہزاروں عقیدت مندوں کے ہمراہ میلوں تک ان دونوں بزرگوں کے پیچھے گیا، سیر الاولیاء میں میر خور دکے مطابق: "پس شیخ قطب الدین (اپنے ) شیخ کے ہمراہ اجمیر کی طرف روانہ ہوئے۔ اس بات سے تمام شہر دہلی میں ایک شور برپا ہوگیا۔ تمام اہالیانِ شہر معہ سلطان شمس الدین ،ان کے پیچھے روانہ ہوئے۔ جہاں شیخ قطب الدین قدم رکھتے تھے لوگ اس زمین کی خاک کو تبرک کے طور پر اُٹھا لیتے تھے"۔