مکرمی!کچھ سال پہلے پاکپتن ملتان رابط سڑگ کے کنارے اڈا رنگ شاہ تک نہر کے ساتھ ساتھ درخت لگانے کا کام بڑے احسن انداز میں سر انجام دیا گیا۔ کیکر شیشم شہتوت اور سفیدے کے یہ درخت انتہائی جاذب نظر تھے۔ ہر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی چاہ میں اپنے بازو پھیلانے اور سر دوسروں سے نکالنے کے در پہ تھا۔ منظر اتنا حسین لگتا کہ دل چاہتا وہیں بیٹھ کر انکی مستیوں سے لطف اندوز ہوا جائے۔ بلیز کے جنگلوں کی مانند گھنے درخت سڑک اور نہر کے درمیان ایک دیوار کا سا کام دیتے تھے۔ شہر کی فضا کو تروتازہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ شہر آلودگی جیسے وبال سے بچا ہوا تھا۔ انکا گھنا پن سورج کی شعائوں کو سیدھے زمین پہ اترنے نہیں دیتاتھا۔ مگر اب عید پہ انہی بلیز کے جنگلوں جیسے علاقے سے گزر ہوا۔ابھی انہوں نے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا ہی تھا کہ حضرت انسان سے برداشت نہ ہوا۔ کئی درختوں کے سر کاٹ دیے گئے۔ کئی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ جنگل جیسا لگنے والا علاقہ آج کسی بیابان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کٹے ہوئے درخت نہ صرف حضرت انسان کی بے حسی کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ ملکی اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہیں۔ جہاں درخت اگا کر شہر کی فضا کو صاف شفاف بنایا جا سکتا وہیں چند پیسوں کے عوض مقامی لوگ اس سونا اگلتی زمین کو اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ اورمقام حیرت یہ ہے کہ محکمہ انہار و جنگلات دونوں بے حسی کی چادر اوڑھے خود غرضی کے بستر پر رشوت اور کم عملی کا طوق پہنے خواب خوگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ درختوں کی کٹائی کا عمل اسی طرح جاری رہا تو ایک دن نہر کے دونوں کنارے درختوں کے سائے سے محروم ہو جائیں گے۔ اور بہت ممکن ہے کہ پھر کناروں میں اتنی مضبوطی بھی نہ رہے کہ بہتے پانیوں کو اپنی حد میں رکھ سکیں۔ ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ہوش کے ناخن لے۔ چند خاطر خواہ انتظامات کے ذریعے اس قومی خزانے کو لٹنے سے بچایا جا سکتا ہے سانس کو اگایا جا سکتا ہے۔ (مصباح چوہدری پاکپتن)