فرض کریں آپ برسوں سے ایسے مسائل کا شکار ہیں جو آپس میں باہم الجھے ہوئے ہیں۔اس پہ مستزادکوئی آپ کی بات سننے کو تیار ہے نہ آپ کی مجبوریاں سمجھنے کو۔ آپ کو یہ بھی علم ہے کہ آپ کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دی جائے گی۔اس کے باوجود اگر آپ کو کسی ایسے فورم پہ اپنی بات کہنے کا موقع ملے جہاں آپ اپنے تمام ترحوصلے، جرأت اظہار اور حکمت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا مافی الضمیر بیان کرسکیں تو آپ کیا کریں گے؟آپ یقینا اپنے مسائل کے بیان کی ترتیب وہی رکھیں گے جسے آپ درست سمجھتے ہیں۔جس موضوع کو آپ سب سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں اسے فوقیت دیں گے اور اپنی بات اس طرح شروع کریں گے کہ وہ آپ سے زیادہ آپ کے سامعین کے لئے اہم ہو تاکہ وہ آپ کی بات توجہ سے سنیں۔عمران خان نے اقوام متحدہ کی مجلس عامہ سے اپنے خطاب میں یہی کیا ہے۔ اب گنتی کے چند مخالفین سر میں خاک ڈالے لاکھ بین کریں،عمران خان بازی لے گئے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پہ حیرت ہے جو کشمیر کمیٹی کی سربراہی کی مراعات سے لطف اندوز ہوتے رہے اور آج وہ کشمیر کو دنیا کے مرکزی اسٹیج پہ لانے والے عمران خان پہ معترض ہیں۔مجھے اس سیاسی مذہبی جماعت کے سربراہ پہ حیرت ہے جو ریلیاں نکال کر فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے ترانے گاتی اور اسرائیل اور بھارت کے ایوانوں میں آگ لگاتی رہی اور آج اس کا امیر کہتا ہے کہ تقریروں سے کچھ نہیں ہوتا۔ مجھے اس سیاسی نوبالغ پہ حیرت ہے جس کے نانا جان ایک شرمناک معاہدہ کرکے لوٹے تھے اور وہ کہتا ہے کہ عمران خان کو پوری تقریر کشمیر پہ ہی کرنی چاہئے تھی۔ مجھے اسی کا جواب دینا ہے۔ عمران خان کو پوری تقریر کشمیر پہ کرنی چاہئے تھی۔انہیں اپنے پیش روئوں کی طرح تاریخی حوالوں اور اقوام متحدہ کی کرم خوردہ قراردادوں کی بوجھل اصطلاحات پہ ایک بے رس اور بے اثر قسم کی تقریر کرنی چاہئے تھی۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ دنیا سے ہاتھ جوڑ کر اپیلیں کرتے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق حل کیا جائے، جن کے ہوتے ہوئے بھارت نے کشمیر پہ ڈھٹائی کے ساتھ ہاتھ صاف کرلیا اور عالمی ضمیر تماشہ دیکھتا رہا۔ انہیں ناموس رسالت کا تذکرہ کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی؟کیا یہ ہمارا مسئلہ ہے؟کیا یہ کوئی مسئلہ بھی ہے؟ستاون اسلامی ملکوں میں سے کس نے کبھی اسے اپنا مسئلہ سمجھا جو عمران خان امت مسلمہ کے درد دل کا ترجمان بن کر بول اٹھا؟کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔کیا تھا اگرملعونین برس ہا برس سے توہین رسالت کی جسارت کرتے رہے تھے اور اس دوران کم سے کم چار سربراہان مملکت کو اسی جنرل اسمبلی میں خطاب کا موقع ملا تھا۔سوائے آصف علی زرداری کے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس پہ جنرل اسمبلی کے روسٹرم پہ آواز اٹھاتا۔عمران خان سے قبل یہ سعادت بہرحال انہیں حاصل ہے کہ انہوں نے آزادی اظہار کے نام پہ توہین رسالت کی جسارتوں کو لگام ڈالنے کی بات کی۔ان حالات میں جب طویل عرصہ سے کشمیر پہ مجرمانہ خاموشی چھائی رہی تھی، عمران خان نے ہی کشمیر کو عالمی اسٹیج پہ مرکزی حیثیت دلائی تو یہ عین منطقی اور حسب توقع ہوتا اگر وہ صرف کشمیر کی بات کرتے۔انہوں نے لیکن ہماری شہہ رگ پہ بھی ناموس رسالت ﷺ کو فوقیت دی۔اپنی ترکیب میں خاص ہونے والی قوم رسول ہاشمی ﷺ کا ایک درد مند فرزند ہی اس راز سے واقف ہوسکتا ہے کہ ہمارے لئے ہماری بقا سے بھی زیادہ اہم کیا ہے۔بزعم خود لیڈروں اور حب علی سے زیادہ بغض معاویہ کے ماروں کو یہ نکتہ سمجھ آجائے تو ربِ رسول ﷺ ان کی توقیر میں بھی اضافہ کرے جیسا کہ اس نے عمران خان کو عزت سے نوازا ہے۔ مجبوریوں اور کمزوریوں کے بوجھ سے جھکتی کمر اس فلسفے کا بوجھ نہیں سہار سکتی جو عمران خان دنیا بھر کے نمائندہ اذہان پہ دھر گئے ہیں۔ اس سے قبل ہمیں کہا جاتا رہا کہ تم دہشت گرد ہو۔ ہم نے مان لیا کہ ہم دہشت گرد ہیں۔ یہ عمران خان ہیں جنہوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے اعلان کیا کہ دہشت گردی کے پالنہار اور بڑھوتکار تو تم ہو۔تم نے مسلم نوجوان کے دل زخمی کئے، تم نے اس کی روح پہ کچوکے لگائے۔ تم نے اس کی محبوبؐ ترین ہستی کی توہین کی پھر تم کیسے توقع کرتے ہو کہ وہ خاموش رہے گا۔ تم ہی تو اپنی ہالی ووڈ کی فلموں میں دکھاتے ہو کہ کیسے تمہارا ہیرو اپنی اولاد کے لئے انصاف نہ ملنے پہ قانون ہاتھ میں لیتا اور کشتوں کے پشتے لگا دیتا ہے اور تمہارے سستے ذوق والے تماش بین سیٹیاں اور تالیاں بجا کر تھیٹر کی چھت پھاڑ ڈالتے ہیں۔تمہارے کروڑوں ڈالر لے کر اولاد کے فرضی دکھ پہ نقلی گولیاں برسانے والے دو ٹکے کے اداکار کا دکھ کیا میرے دکھ سے بڑا ہے؟ جو میرے محبوبؐ پہ دشنام طرازی کے بوجھ سے چور ہوگیا ہے۔کیا تمہیں نہیں معلوم کہ جسمانی درد سے دل کا درد سوا ہوتا ہے؟تمہیں یقینا معلوم ہے اور تم یہ جان بوجھ کر کرتے ہو۔پھر کہتے ہو مسلمان دہشت گرد ہیں؟وہی دہشت گرد جو جب تک تمہارے کام کے تھے تو مجاہدین کہلاتے تھے اور تمہارا صدر وائٹ ہاوس میں ان کے ساتھ خوش گپیاں کیا کرتا تھا۔ میں نے مسلم نوجوان اور دہشت گردی کے اسباب پہ کئی کالم لکھے۔ میں نے معروف اسکالر اور اسلامی تاریخ پہ گہری نظر رکھنے والے برنارڈ لیوس کے کئی بار حوالے دئیے جنہوں نے کامل غیر جانبداری سے اس پہ تحقیق کی کہ مسلم نوجوان ہتھیار کیوں اٹھاتا ہے۔انہوں نے جو نتائج نکالے اور جن پہ وہ نام نہاد مغربی دانشوروں کی تنقید کا شکار ہوئے، کم سے کم میرے لئے نئے نہیں تھے۔وہ عمران خان کے لئے بھی نئے نہیں ہیں ۔ وہ مشرف ، نواز اور زرداری کے لئے بھی نئے نہیں تھے۔ یعنی کہ یہی کہ ایک مسلم نوجوان اس وقت ہتھیار اٹھا تا ہے جب اس کے ملک پہ غیرمسلم طاقت حملہ آور ہوتی ہے اور اسکی اپنی حکومت اس کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کردیتی ہے۔وہ اس وقت ہتھیار اٹھاتا ہے جب اس کی اپنی حکومت اس کی شریعت کو غیر ملکی آقاوں کی خوشنودی کے لئے موم کی ناک بنا دیتی ہے اور ایسے قوانین بناتی ہے جو ملک میں لبرل اقدار کو فروغ دیں۔ وہ اس وقت ہتھیار اٹھاتا ہے جب اس کے مسلمان بھائی کسی غیر ملکی غاصب کے ہاتھوں جبر و استبداد کا شکار ہوں اور اس کی حکومت خاموش تماشائی بنی رہے یا پھر اس وقت جب وہ یورپ میں اپنی اقدار پہ عمل کرنے کی آزادی سے محروم ہو اور تیسرے درجہ کا شہری بنا دیا جائے۔عمران خان نے اس پہ اضافہ کیا ہے۔نبیؐ کی ناموس پہ حملہ ہوگا تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔باقی برنارڈ لیوس کی تائید ہی تو ہے۔ ظلم ہوگا تو ردعمل بھی آئے گا ۔ تب خاموش بیٹھا تماش بین عالمی ضمیر ہمیں دہشت گرد نہ کہے۔