روشنی بن کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں ہم وہی لوگ ہیں جو جاں سے گزر جاتے ہیں کتنے کم فہم ہیں یہ ہم کو ڈرانے والے وہ کوئی اور ہیں جو موت سے ڈر جاتے ہیں کم سنی ہی میں دادا حضور حبیب تلونڈری کی کتاب درد کشمیر دیکھی۔ تب سے مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے کشمیر کا درد میرے ساتھ ہی پیدا ہوا۔ میری سوچ اور فکر کا حصہ ہے۔ سچ مچ ایسے ہی لگتا ہے کہ لہو کے ساتھ رگ و پے میں دوڑنے والے۔ تہی بتا کہ تجھے کس طرح جدا کرتے ۔ہم نے بچپن سے ہی قائد اعظم کے الفاظ سماعت سے گزار کر دل کا حصہ بنائے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اور دشمن بھی تو مکار ہے اس نے ہماری شہ رگ پر وار کیا اور دھونس سے کشمیر کے بڑے علاقے کو مقبوضہ بنا لیا۔ایک کوشش سے ایک حصہ آزاد رہا۔ اقوام متحدہ کی قرار دادیں اب تک گواہ ہیں کہ یہ تنازع مسئلہ حل طلب ہے مگر ہندو بنیا وقت ٹالتا گیا اور کچھ ہماری مصلحت پسندیاں یا کمزوریاں کہ وہ دن آن پہنچا کہ مودی جیسے انتہا پسند ہندو نے یہ قدم بھی اٹھا لیا کہ مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنانے کا قانون پاس کروا لیا اور پورے مقبوضہ کشمیر کو ایک محاصرے میں رکھ دیا۔ ہزاروں کشمیریوں کی شہادت اور قربانیاں پھر مظفر وانی کے عہد تک بات پہنچی تو تحریک حریت کو انگیخت لگی۔ اس نے ثابت کر دیا کہ یہ آزادی کے قافلے رکنے کے نہیں۔ جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے ۔پھر یہ بھی ثابت ہوا کہ جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں۔ ساری دنیا نے دیکھا آزادی کی شمع کا شعلہ اور بلند ہو کر جلنے لگا اور آج تک شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ظالم اپنا تیر آزما رہا ہے اور آزادی کے متوالے اپنا سینہ ۔تڑتڑاتی گولیاں اور پیلٹ گن کے اندھا کر دینے والے کارتوس چل رہے ہیں مگر آزادی کی تڑپ جنوں خیز ہے: جو تنی تھی ہماری گردن تھی جو کٹا ہے وہ سر ہمارا ہے کشمیر ی تو اپنی سعی و کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے مقصد اعلیٰ پر قربانیاں دے کر سرخرو ہیں مسئلہ تو ہمارا ہے کہ ان کی اس محبت کا کیا جواب دیں کہ وہ تو شہید ہو کر پاکستانی پرچم میں دفن ہوتے چلے جا رہے ہیں اور وہ پاکستانی پرچم لہراتے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے اپنے خلوص اور اعتبار کو گل رنگ کرتے جاتے ہیں۔ کچھ مجبوریاں ہمارے پائوں کی زنجیر بنی ہوئی ہیں مان لیا کہ یہ بھی برا نہیں کہ ہم کشمیر کا نام لیتے ہیں۔ ہماری نرم پالیسیوں کے باعث ہی ایسا ہوا کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی جسارت کی اور بیچارے ہزاروں کشمیری ایک جیل میںمقید ہیں۔ ان کو بہانے بہانے سے مارا جا رہا ہے اور ان پر زندگی تنگ کی جا رہی ہے اور پھر ہندوئوں کو لا لا کر آباد کیا جا رہا ہے کہ ان کی زمین پر ہی ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیں ادھر ہم ابھی تک یوم یکجہتی کشمیر تک محدود ہیں اقبال نے کیا پتے کی بات کی تھی: صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سربکف ایک تقریر اور ایک دورہ امریکہ کے بعد ایک لمبی چپ عوام کی تشویش بڑھا گئی۔ ہمارے رویے اور ہماری اس حوالے سے سرگرمیاں کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں۔ ایک شعر پتہ نہیں کیوں میرے دل میں ترازو ہوتا رہا۔ تیر و تلوار تم مت اٹھائو‘ یونہی بے کار کرتے ہو زحمت جانتا ہوں میں تیری کلائی بار اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ چلیے حکومت نے کچھ کیا کہ ہمیں تو اس کی بھی امید نہیں تھی۔ پاکستان نے ایک نیا نقشہ جاری کیا ہے جس مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے ۔خان صاحب نے کہا ہے کہ یہ منزل تک پہنچنے کا پہلا قدم ہے انہوں نے ایک ترانہ بھی متعارف کروایا ہے بحیثیت شاعر میں یہ کہوں گا کہ اس نغمے میں کوئی مقصدیت اجاگر نہیں کی گئی وہی اقبال ،کہ عصانہ ہو تو حکیمی ہے کار بے بنیاد میں ان کوششوں کو غلط نہیں کہہ رہا مگر یہی کافی نہیں ہیں اس میں بھی ہم نے بہت دیر کی جس طرح سے کشمیری ایک خوف میں گھڑیاں گزار رہے ہیں کہ معلوم نہیں کوئی نوجوان واپس آئے گا کہ نہیں ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔اس حوالے سے ہومیو پیتھک قسم کی اقدامات کافی نہیں ہیں۔اسی جذبے کی ضرورت آن پڑی ہے کہ بس ازھر درانی یاد آ گئے: مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی سراج الحق نے کانفرنس میں بڑے شدو مد سے کہا کہ کشمیر ہاتھوں سے پھسل رہا ہے آزادی صرف جہاد سے ملے گی۔ حکومت کمزور وکالت کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا پورا سال ہو چکا۔ یکجہتی کے لئے آج ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ جتنے زور شور سے اب آواز اٹھائی جا رہی ہے ایسا بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔ پوری دنیا میں شور مچنا چاہیے تھا کہ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ ایک تین سالہ بچے کے سامنے اس کے سات سالہ نانا کو شہید کر دیا گیا۔ اس پوری دنیا کی بے حسی ان مظالم کو اجاگر کرنا ہمارا کام تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی شدید احتجاج ہو رہا ہے کہ انہیں 370تک کا خاتمہ کروانا ہے بھارتیوں کے مظالم کے حوالے سے لندن میں ایک نمائش جاری ہے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو دیکھ کر کس کا دل خون کے آنسو نہیں روتا۔ ان مائوں کے حوصلے دیکھیں جن کی گودیں اجڑ گئیں۔خالد احمد نے کہا تھا: کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے اسی لئے تو وہ بچوں کو مائیں دیتا ہے پتے کی اور حاصل بات یہ ہے کہ آزادی چھینی جاتی ہے اور اس کے لئے جہاد ہی لازم ہے اور ایک دن پاکستان کو اس جہاد کا حصہ بننا پڑے گا۔ یہ سارے نقشے ‘نغمے اور تقریریں اپنی جگہ اور جتنے بھی جتن ہم کر رہے ہیں یہ اپنی جگہ مگر اس مسئلے کا حل وہی ہے جو قرآن نے بتایا ہے ہمارا المیہ بھی یہی کہ ہم جہاد سے دور ہو چکے اور اس دنیا کو سب کچھ سمجھ لیا انگریزوں نے بھی اسی جذبے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے مرزا یت کا پودا لگایا کبھی ہمیں صوفی کانفرنسوں کے ذریعہ امن پسند بنانے یعنی جہاد کو بھول جانے کا درس دیا نہیں نہیں صاحب اٹھو اٹھو کہ وطن مانگتا ہے قربانی۔ کہاں تلک ہو ہمارے لہو کی ارزانی: کربلا والوں کا رستہ ہے ہمارا رستہ یہ وہ رستہ ہے کہ جس رستے میں سرجاتے ہیں ان کو معلوم نہیں کس سے ہے نسبت اپنی جس کی دہلیز پہ سب تاج اتر جاتے ہیں