’’درسِ نظامی‘‘کے فاضلین اور’’سول سروس‘‘کے حاملین کے درمیان’‘بُعد المشرقین‘‘ہے۔بر صغیر کا محراب و منبر ہمیشہ ہمیشہ کاآزاد رَو،خود مختار اور’’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘۔۔۔جبکہ خطیبِ شہر کی شعلہ نوائی اور آتش بیانی اس وقت تک مُسلَّم اور معتبر ہی نہیں ہوتی،جب تک کہ وہ ایوانِ اختیارواقتدار میں زلزلہ بپا کرنے اور سر کاری اہلکاروں کو للکار نے کے جذبے اور ولولے سے مالامال نہ ہو۔اس کا شاید ایک سبب یہ ہے،کہ ہندو ستان کا وہ قدیم نظامِ علم و ادب اور تعلیم و تعلّم،جس کا مدار"Nucleus" مسجد،مدرسہ اور خانقاہ تھا،کو لارڈ میکالے کی رپورٹ،2 فروری1935 کے نتیجہ میں تہس نہس اور باقاعدہ تباہ و بر باد کرنے کی منظوری عمل آئی تھی،ان مشرقی علوم و فنون جس میں’’درسِ نظامی‘‘سمیت دیگر کورسز بھی شامل تھے،کی بجائے انگریزی زبان اور یورپی روایت و کلچر کی ترویج اور موجودہ ایجوکیشن سسٹم کے فروغ کا اہتمام ہوا،فارسی،جو کہ صدیو ں سے اس ملک کی سرکاری تعلیمی زبان تھی،کو بے وقعت کردیا گیا،جس کے سبب مسلمان اپنی صدیوں پرانی ثقافتی روایات سے منقطع ہوگئے،انگریزی تہذیب، زندگی کے ہر شعبہ میں سرایت کرنے لگی،انگریزی زبان۔۔۔ دربار،سرکار اور تعلیمی اداروں کی زبان بن کر،ترویج و تشہیر کے مدارج طے کرنے۔۔۔خواندہ اور ناخواندہ کی تقسیم اور سرکاری ملازمتوں کے حصول اور’’سول سروس‘‘کی بنیاد قرار پائی۔گویا رسمی یا انگریزی تعلیم کو سرکاری سر پر ستی میسر آگئی،جبکہ دینی تعلیم یا مدرسہ ایجوکیشن،جس کو اس سے پہلے ریاستی تائید و حمائیت میسر تھی،وہ اس سے محروم ہوگئی،اس کے’’اوقاف‘‘چھن گئے،جبکہ سرکاری و ظائف اور مراعات کاخاتمہ ہوگیا۔اس بحران میں مذہبی ز عمأ نے کمال ہمت اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد اور مدرسہ کے نظام اور اپنے ایجوکیشن سسٹم کو،کسمپرسی اور وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود سنبھالا اور بتدریج مضبوط اور مستحکم کرتے ہوئے،ایک موثر نظام فکر و عمل میں ڈھالا،یہ وہ بنیادی اور تاریخی پس منظر ہے،جس کے سبب دینی طبقات اور مقتدر حلقوں کے درمیان ایک بُعد اور اجنبیت ہمیشہ موجود رہی،اگرچہ اب حالات قدرے بہتر ہیں، مگر پھر بھی دینی مدارس،انگریزی سکولوں سے اور رسمی تعلیم کے حاملین،مدرسہ ایجوکیشن سے غیریت،دوری اور بُعد کو محسوس کرتے ہیں ۔ ہمارے دیرینہ کرم فرما پیر محمد ضیا الحق نقشبندی اوسطاً دو اڑ ھائی سال کے بعد ایک نیا پر اجیکٹ"Launch" کرنے کے عادی ہیں۔میری ان سے ابتدائی ملاقات’’اتحادِ اُمّت‘‘کے داعی کے طور پر کم و بیش آٹھ،دس سال قبل،اس وقت ہوئی، جب وہ ارشد گارڈن،کینال بینک روڈ پر،ایک وقیع اور عظیم الشان’’اتحادِ اُمّت سیکرٹریٹ‘‘کا سنگِ بنیاد رکھنے جارہے تھے،جس میں علمی،دینی اور بالخصوص صحافتی حلقوں کی ممتاز اور معتبر شخصیات ان کی ہمنوا و ہم خیال ہی نہیں۔۔۔ ہمر کاب بھی تھیں،مزید یہ کہ وہ اس قریے کے باقاعدہ’’خطیب اعظم‘‘بھی ہیں،وہ اس طر ح کہ ۔۔۔ وہاں کی الحسن مسجد کے واعظِ خوش بیاں ہونے کے ناطے،وہاںجمعتہ المبارک کا خطبہ ارشاد فرماتے،مسندِ دعوت وارشاد کو زینت بخشتے ہیں ، گویا کہ فاضل ِ درسِ نظامی اور اپنے ظاہری حُلئیے سے پوری طرح متشرع اور متدیّن شخصیت،مستزادیہ کہ انہوں نے جنگ میں’’اِجتہاد‘‘کے نام سے ہفتہ وار کالم شروع کر لیا،جو ابتدائی طور پر ہر جمعتہ المبارک کو بڑی باقاعدگی سے طبع ہونے لگا۔پھر بتدریج یہ’’باقاعدگی‘‘۔۔۔ بر قرار نہ رہی،اسی اثنأ میں،ان کے اندر کے مولوی نے زور مارا اورپنجاب حکومت کے ایک اہم اور معتبر دینی فورم’’متحدہ علمأ بورڈ پنجاب‘‘کے ممبر بلکہ’’کوآرڈ ینیٹر‘‘کے منصب پر جلوہ آرأ ہوگئے۔یہاں پر بھی ان کی طبیعت زیادہ دیر نہ جَمی اور انہوں نے’’موٹیویشنل سپیکر‘‘کے طور پر ملک کے طول و عرض میں دورے شروع کیے،اور ساتھ ہی’’سجادئہ تصوف و روحانیت‘‘پر خود کو فائز کرتے ہوئے،اپنے نام کیساتھ’’پیر‘‘ کا اضافہ کرلیا،ظاہر ہے ان کی اِس حرکت پر بھی کسی کوکوئی اعتراض۔نہ ہو سکتا تھا اور نہ ہی ہونا چاہیے،اس لیے کہ اس خطّے میں،یہ۔ اور اس جیسے جتنے بھی ٹائیٹل۔ جیسے حضرت، علّامہ، مفتی، الشیخ،پروفیسر وغیرہ،کوئی بھی شخص۔جب اور جہاں استعمال کرنا چاہے، کر سکتا ہے، اس حوالے سے،کسی نے،کسی کو نہ کل پوچھا اور نہ کوئی آئندہ پوچھنے کا امکان ہے اور نہ ہی یہ عمل کسی حدود یا تعزیرات کی زَد میں آتا ہے۔اس کو کوئی ان کی متلون مزاجی نہ سمجھے بلکہ یہ ان کی ہمہ جِہت شخصیت ہے کہ وہ بیک وقت بہت کچھ کرنے اور کر گزرنے کا داعیہ اور جذ بہ رکھتے ہیں۔ لیکن موصوف نے اب،جو’’آئیڈیا‘‘فلوٹ کیا ہے، وہ میرے لیے از حد دلچسپی کا حامل ہے،اس لیے کہ میں ہمیشہ سے’’درسِ نظامی‘‘۔۔۔ اور اس کے طلبہ کی ذہانت و فطانت اور مدارس کے مضبوط تدریسی نظام کا بہت قائل بلکہ گھائل ہوں،شومئی قسمت پاکستان کے تدریسی نظام اور ایجوکیشن سسٹم میں ایسا کوئی’’کمبی نیشن‘‘دستیاب نہ ہوسکا،جہاں محض ایک طالبعلم اپنی استعداد اور محنت وقابلیت کی بنیاد پر درسِ نظامی کا فاضل ہونے کے ساتھ کسی گرائمر سکول کا تعلیم یافتہ بھی ہو سکے،بالفاظِ دیگر ۔۔۔وہ،اے لیول،او لیول یعنی،کیمبرج سسٹم سے بھی آگاہ اور آراستہ ہو،میری رائے میں جس طالب علم نے صحیح جذبے اور ا سپرٹ کے ساتھ قرآنِ پاک حفظ کیا ہو، وہ عام طلبہ سے زیادہ سبک خرام۔۔۔اور اُسکے ذہن کے دریچے زیادہ تاباں اور روشن ہوجاتے ہیںاور پھر اگر اس کی سَمت درست ہو تو،وہ تعلیم و تدریس میں،کسی کی پکڑائی میں نہیں آتا۔اسی طرح جس سٹوڈنٹ نے صحیح معنوں میں درسِ نظامی پڑھا ہو اور پھر اس کو یونیورسٹی کی ایجوکیشن بھی میسر آجائے،تو اس کو کوئی پیچھے نہیں دھکیل سکتا۔حال ہی میں اسکی تازہ مثال ہمارے جامعہ ہجویریہ داتا دربار کے دورۂ حدیث کے طالبعلم عبد الوحید ولد عبد الغفور کی ہے،جس نے ایم اے اسلامیات میں پنجاب یونیورسٹی کے امتحان میں ٹاپ کیا ہے ۔نقشبندی صاحب نے سفید پوش گھرانوں اور دینی مدارس کے ایسے با صلاحیت نوجوانوں، جو محض وسائل کی کمی اور گائیڈنس کی عدم دستیابی کے سبب اعلیٰ سرکاری مناصب تک پہنچنے اور سول سروس کیلئے مقابلے کے امتحان کے تصوّر اور ویژن سے محروم ہیں،کیلئے خصوصی کورسز کا اہتمام کیا ہے ، انہوں نے بطور خاص دینی مدارس کے ذہین طلبہ کو اس طرف راغب کرنے کے لیے بڑی جدو جہد کی، اور یوں اپنی سرکردگی میں سرگرم ِ عمل’’الامین اکیڈمی‘‘کو ایک منفر د اور معتبر راستے اور خیرو فلاح کے جادے پر گامزن کردیا ہے۔ سرکاری اور ریاستی سطح پر دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے نام پر کتنی ہی کمیٹیاں بنیں، کیسے کیسے کمیشن معرض ِ عمل میں آئے،لیکن عملی سطح پر ایک انچ بھی پیش رفت نہ ہوسکی۔9/11 کے بعد سے اس شعبہ پر قومی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور توجہ مرکوز رہی،وسائل آنے کو بیتا ب تھے۔مگر،کوئی ایک مختصر سا ادارہ بھی نہ بن سکا،جہاں مدرسہ ٹیچرز کو کسی ٹریننگ یا ریفریشر کورس کے بہانے ہفتہ دس دن کے لیے اکٹھا کیا جاسکتا۔پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ مقفل اور مدرسہ ایجوکیشن آرڈنینس عملاً غیر موثر ہوگیا۔پبلک سیکٹر کی کسی یونیورسٹی کو یہ ٹاسک نہ سونپا جاسکاکہ اس نے مدارس کے فارغ التحصیل ان سٹوڈنٹس کے لیے،کچھ کورسز کا اہتمام کرنا ہے،جس کے سبب " Main Streamingـ" کا خواب شرمندۂ ہو پاتا۔ بہر حال پیر محمد ضیا الحق نقشبندی کی الامین اکیڈمی کی خدمات کی بہت سی جہتیں ہیں، ان میں مجھے جس نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہی ہے کہ انہوں نے دینی مدارس کے طلبہ کو " سول سروس" کے افق پر پرواز کے لیے تیار کیا ہے ۔