ہم سالہا سال سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ حکومت ِ وقت مدارسِ عربیہ میں اصلاحات کا ایک شوشہ چھوڑتی ہے جواباََ کچھ سیاسی و نیم سیاسی علماء گھسے پٹے ڈائیلاگ بول دیتے ہیں اور معاملہ سٹیٹس کو کے سپرد ہو جاتا ہے۔ حکومت اس معاملے پر کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے اور نہ ہی علماء اپنی روایتی ڈگر چھوڑنے پر غور کرتے ہیں۔ کوئی اس حقیقت سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ ارتقاء فطرت کی تین بڑی صداقتوں میں سے ایک ہے، انسانیت نے اپنی پوری عمر میں ایسا ایک سیکنڈ بھی نہیں دیکھا جب ارتقاء کا عمل رک گیا ہو ۔ پھر یہ بھی ایک بڑی صداقت ہے کہ ارتقاء ہر زمانے میں تمدن اور معاشرت کو ایسی تبدیلیوں سے گزارتا ہے جس کے نتیجے میں نت نئے مسائل اور سوالات جنم لیتے ہیں یہ مسائل اور سوالات ہر شعبہ زندگی کو حل کا چیلنج دیتے ہیںاور یہ حل تب ہی ممکن ہوتا ہے جب متعلقہ شعبے نے حل کے لئے درکار صلاحیتوں اور ٹولز سے خود کو آراستہ کیا ہو ۔ اسلامی دنیا میں عالمِ دین معاشرے کی اہم ترین ضرورت ہے، اور عالمِ دین کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ جب جب زمانہ کوئی نیا فقہی سوال کھڑا کرے تو وہ معاشرے کو اس کا حل فراہم کرے۔ ارتقاء کی رفتار کا دارو مدار انسانی زندگی کی رفتار پر ہے، آج کا دور سائنس کا دور ہے۔ اور یہ سائنس ہی کا کمال ہے کہ انسانی زندگی کی رفتار ہر روز اپناپچھلا ریکارڈ توڑ رہی ہے، ہر روز نئی ایجادات ہو رہی ہیں اور ہر ایجاد نئے فقہی سوال کھڑے کر رہی ہے لیکن ہمارے علماء ان کے حل کے حوالے سے کنفیوژڈ نظر آتے ہیں، یہ کنفیوژن آئے روز ایسے افسوسناک تضادات کا سبب بن رہا ہے جن سے علماء کا وقار متاثر ہو رہا ہے ۔ہم آج ایک چیز کو حرام قرار دیتے ہیں پندرہ سال بعد اسی کو حلال کر رہے ہوتے ہیں ایسے میں عام آدمی اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ جو آج سے پہلے کیا وہ گناہ تھا یا جو آج کے بعد کرونگاوہ گناہ ہوگا ؟ یہ صورتحال کسی اور کی نہیں بلکہ ’’درسِ نظامی‘‘ کے اس نصاب کی پیدا کردہ ہے جو ارتقاء کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکا اور اپنے عہد سے سو سال پیچھے رہ گیا۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ارکان سے دست بستہ التجاء ہے کہ اپنے ہی اندر سے ایسے افراد کو آگے لائیے جو اس عہد کے پیدا کردہ مسائل کا ادراک اور انکے حل کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوں اور جو استاذ الکل تو بیشک ہوں لیکن عقلِ کل ہر گز نہ ہوں۔ آپ کو اس وقت اہل التقویٰ کی بہ نسبت اہلِ نظر کی زیادہ ضرورت ہے، اہل التقویٰ سے دعائیں اور اہلِ نظر سے کام لیجئے۔ پھر آپ تو خوش قسمت ہیںکہ آپ کو درجنوں ایسے اہلِ نظر بھی میسر ہیں جن کے اہل التقویٰ ہونے میں بھی شک نہیں۔ اپنے نصاب پر خود نظر ثانی کیجئے اور اسے وہ شکل دیجئے جسے پڑھ کر ایسے علماء تیار ہوں جو اس عہد کے مسائل کا ادراک اور حل رکھتے ہوں۔ میری رائے میں اعدادیہ کے تین سالوں میں اردو، عربی ، فارسی اور انگلش لینگویجز کے سوا کچھ نہ پڑھایا جائے ، یہ تین سال طلباء میں ان چاروں زبانوں کے بولنے ، لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے خاص کردیئے جائیں ۔ درجہ اولیٰ سے تدریسی زبان عربی کردی جائے اور کلاس میں اردو پر مکمل پابندی لگادی جائے۔ ایسا تدریجا ہی ممکن ہے سو پہلے سال اولیٰ ، دوسرے سال ثانیہ اور تیسرے سال ثالثہ کو عربی میڈیم کرتے ہوئے اس عمل کو آخری سال تک لے جایا جائے ۔اولیٰ سے سابعہ تک نصاب میں ایسے جدید اضافے ناگزیر ہیں جو طلباء کو اپنے عہد اور اس کے مسائل سے آشنا کر سکیں مثلاََ جدید فقہ ، فلسفہ،تاریخ اور عمرانیات وغیرہ۔ یہ تخصصات یعنی سپیشلائزیشن کا دور ہے، دورہ حدیث کے بعد چار سالہ لازمی تخصص متعارف کر وایا جائے۔ مختلف طلباء مختلف ذوق رکھتے ہیں، اسی طرح معاشرے کی ضروریات بھی مختلف جہتوں میں ہیں لھذا لازمی ہے کہ تخصص کے مضامین میں تنوع ہو ۔ تخصص، تفسیر، حدیث ، فقہ، فلسفہ،قانون، اسلامی معیشت، تاریخ، ادب، اور سیاسیات میں کروا ئے جائیں ، مضمون کا انتخاب طالب علم کے ذوق پر چھوڑدیا جائے ۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ اپنے اپنے فن کے جید اور ماہر علماء معاشرے کی رہنمائی کے لئے میسر آئیں گے، جبکہ دوسرا فائدہ یہ ہوگا ان ہر فن مولاؤں سے بھی جان چھوٹ جائے گی جو در حقیقت کسی ایک فن کے بھی ماہر نہیں ہوتے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ایک مہربانی یہ بھی کردی جائے کہ جذباتی خطابت کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے، یہ جذباتی خطیب تباہی مچا رہے ہیںاور غضب تو یہ ہے کہ جذباتی خطیبوں کی غالب اکثریت درسِ نظامی کے بھگوڑوں پر مشتمل ہے۔ حالت یہ ہے کہ ثالثہ سے آگے پڑھا نہیں ہوتا اور نام کے ساتھ ’’علامہ‘‘ سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔ حکومت کے لئے مشورہ ہے کہ وہ مدارس کو کالجز بنانے کا خواب دیکھنا بند کرے۔ اگر کرنا ہے تو یہ کرے کہ وزیر اعظم پاکستان کے ممتاز غیر سیاسی علماء کا اجلاس بلائیں اور انہیں صاف صاف کہدیں کہ ہم کوئی اصلاحات مسلط نہیں کرنا چاہتے اصلاحات آپ خود کیجئے لیکن آپ کی اصلاحات کے نتیجے میں ایسے علماء پیدا ہونے چاہئیں جو اس عہد کے مسائل کا ادراک اور حل رکھتے ہوں۔ ان علماء کو اصلاحات کے لئے ایک معقول ڈیڈلائن دی جائے۔ اگر یہ اصلاحات نہیں ہوتیں تو اس کے بعد حکومت دو اقدامات کرے ۔ ایک یہ کہ وفاق المدارس کے متوازی ایک سرکاری وفاقی امتحانی بورڈ قائم کرے جو درجہ ثانیہ، رابعہ، سادسہ اور دورہ حدیث کا امتحان لے مگر انگلش، تاریخ، قانون اور اسلامی معیشت کے اضافی مضامین کے ساتھ ۔مدارسِ عربیہ کے طلباء بلا کے ذہین ہوتے ہیں پاکستان کی تقریباََ تمام یونیورسٹیوں میں آج یہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں، جہاں یہ درسِ نظامی کے بعد عصری تعلیم میں نمایاں پیش رفت کر رہے ہیں ان چاروں اضافی مضامین کو کور کرنا انکے لئے بالکل مشکل نہ ہوگا۔ اس سرکاری بورڈ کے تحت امتحان دینے والے طلباء کو میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے کے مساوی نہیں بلکہ حقیقی ڈگریاں دینے کا اعلان تو کرکے دیکھئے صرف تین سال میں وفاق المدارس کے امتحان ہال اجڑ نہ گئے تو کہئے گا۔ دوسرا کام حکومت یہ کرے کہ وفاق المدارس کی ڈگریوں کی ایچ ای سی سے ایکولینسی ختم کرتے ہوئے پاکستانی یونیورسٹیوں میں وفاق المدارس کی ڈگری کی بنیاد پر پی ایچ ڈی پر پابندی لگا دے۔