بہت دردناک تھا یہ احساس کہ تعلیم کے نام پر جو کچھ میں حاصل کر رہا ہوں یہ مجھے صرف اس لائق بنائے گا کہ میں کسی مسجد میں امامت کر سکوں اور وہاں کچھ کھانستے بوڑھے صرف اس لئے میری تذلیل کرسکیں کہ وہ اپنی اولاد پر کنٹرول کھو چکے ہیں اور ان کے پاس اپنی بھڑاس نکالنے کے لئے 1400 روپے تنخواہ والے امام مسجد کے سوا کوئی سافٹ ٹارگٹ نہیں۔ اور امام اس خوف کے سبب یہ ذلت برداشت کرتا جائے کہ اگر اس نے اْف کی تو اگلے ہی لمحے مسجد سے نکال دیا جائے گا اور اگر وہ نکال دیا گیا تو اس کے بچے کھلے آسمان تلے حالات کا جبر کیسے سہیں گے ؟ میرے والد نہایت جری انسان تھے، مسجد کمیٹی کے صدر سے لے کر مدرسے کے مہتمم تک ہر کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن اس کے باوجود 1984ء کا وہ سال بھلائے نہیں بھولتا جب ہم مسجد کے اس مکان میں کسی پناہ گزین جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ میرے والد کی آنکھوں میں اندیشے اور والدہ کے چہرے پر سناٹے براجماں تھے اور ہم بچوں نے مسکرانا چھوڑ دیا تھا۔ "تو میں اس لئے مدرسے میں پڑھ رہا ہوں کہ اپنے والد کے بعد اس کا بار اٹھا سکوں ؟ کیا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ؟" یہ وہ دوسوالات تھے جو پندرہ برس کی عمر میں درجہ ثالثہ کے طالب علم کی حیثیت سے میرے ہوش اڑا گئے تھے۔ دوسرا آپشن تدریس تھا لیکن وہ پارٹ ٹائم جاب تو ہو سکتی تھی مگر متبادل نہیں کیونکہ اس کے پیکج میں مکان شامل نہیں تھا اور تنخواہ بھی ایسی شرمناک کہ اتنی تو قریبی چوک کا بھکاری ایک دن میں پا لیتا ہو۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ کوئی متبادل موجود نہیں تو اگلا سوال یہ تھا کہ ایسا کیوں ہے ؟ اس کا سبب کیا ہے ؟ ہر درسی کتاب کے آغاز پر مصنف کے حالات ضرور پڑھائے جاتے تھے۔ پچھلے تین سالوں سے جو ڈیڑھ درجن کتب پڑھ رکھی تھیں ان میں سے کسی ایک کا مصنف بھی پیشہ ور امام مسجد نہ تھا بلکہ تاریخ کا انکشاف یہ تھا کہ امامت کا پیشہ بننا ماضی قریب کا سانحہ تھا اور جب سے یہ ہوا علم اور اہل علم کی عزت خاک میں مل کر رہ گئی۔ اب سیدھا سا سوال تھا کہ پھر اس سے قبل علماء کا ذریعہ معاش کیا تھا ؟ وہ کماتے کیسے تھے اور گھر کیسے چلاتے تھے ؟ تاریخ بتا رہی تھی کہ علماء انہی پیشوں سے وابستہ تھے جن سے عوام و خواص وابستہ تھے۔ پیشے کے لحاظ سے عوام اور علماء کی کوئی تفریق نہ تھی۔ ایک ہی بازار میں سب کی دکانیں یا چھوٹی چھوٹی صنعتیں ہوتیں۔ ماضی کے بڑے بڑے ائمہ مجتہدین اور نامور علماء دین کے پیشے اور بزنس اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ صدموں کے سمندر میں ڈوبتے چلے جائینگے اور سمجھ آتا چلا جائے گا کہ وہ اس قدر عزت دار کیوں تھے کہ صدیوں بعد بھی نام احترام سے لیا جاتا ہے اور ہم اتنے تہی دامن کیوں کہ لمحہ موجود میں ہی ذلت سہہ رہے ہیں ؟ انہوں نے غلہ، برتن، فرنیچر، کپڑا، مویشیوں اور ان کی پیداوار کو ذریعہ معاش بنایا تھا جبکہ دین کا فہم اور علم کی نعمت وہ پانی کی طرح مفت بانٹتے تھے اور ہم نے اللہ کے دین اور اس کے علم کو ہی ذریعہ معاش بنا لیا۔ اب ایک ہی سوال رہ گیا تھا کہ ہم نے اجتماعی طور پر دین کو پیشہ کیوں بنا لیا، کوئی تو اس کی وجہ رہی ہوگی ؟ جواب سامنے کھڑا تھا کہ انگریزی استعمار کے دور میں دوہرا نظامِ تعلیم رائج ہوا۔ نیا نظام تعلیم انگریزی زبان اور انگریزی تمدن پر مشتمل تھا۔ یہ نظام ایک نئی اور دلچسپ چیز تھی عوام نے فوری قبول کرلی اور ہم اسے ناجائز ! ناجائز ! کہتے چلے گئے نتیجہ یہ ہوا کہ پچاس سال بعد بازار اور اس کے قاعدے اس نئی تعلیم پر مبنی تھے اور یہ تعلیم ہمارے پاس تھی نہیں لھذا ہم بازار سے آؤٹ ہوگئے۔ بازار سے تو ہم آؤٹ ہوگئے لیکن وسائل رزق کی ضرورت برقرار تھی۔ ان حالات میں ہمارے پاس بیچ کھانے کے لئے دو ہی چیزیں تھیں ایک خدا کا دین اور دوسرا اس کا علم سو ہم نے اسی کو ذریعہ معاش بنا لیا، اگر ہم چاہتے تو اپنے درس نظامی میں فوری طور پر رد وبدل کر کے اسے نئے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکتے تھے جس سے یہ صورتحال پیش نہ آتی لیکن افسوس ہم نے ایسا نہ کیا۔ صاحبو ! کیسے بتاؤں کہ کس قیامت کے تھے آگہی کے یہ لمحے۔ طبیعت میں آوارگی تو پہلے سے موجود تھی۔ اس صدمے کے نتیجے میں درس نظامی سے دل اچاٹ ہوگیا مگر دبنگ قسم کے والد کے ہوتے اسے چھوڑنا بھی ممکن نہ تھا چنانچہ درس نظامی خانہ پری کی حد تک پڑھتا بھی رہا لیکن درحقیقت اس کی آڑ میں فل ٹائم آوارگی ہونے لگی اور ساتھ ہی ساتھ غیرنصابی مطالعہ جاری رہا۔ میں جس ماحول میں کھڑا تھا وہاں اپنے خیالات کا اظہار آ بیل مجھے مار والی بات تھی۔ دورہ حدیث کرتے ہی حضرت لدھیانوی شہید کے ہاں نوکری شروع کردی۔ یہیں کافی عرصے بعد "غبار خاطر" ایک بار پھر نظر آئی جو لڑکپن میں ثقیل زبان کے سبب چوم کر چھوڑ دی تھی۔ غبارِ خاطر پڑھنی شروع کی تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میری فکر میں یہ اسی طرح کا انقلاب لے کر آئی جیسے پچھلی قوموں کے لوگوں کے لئے آسمانی صحیفے لایا کرتے تھے۔ جب مولانا آزاد کو روایتی مولویت کی اینٹ سے اینٹ بجاتے دیکھا تو میری کیفیت اس مظلوم کی سی تھی جو عرصے سے غنڈوں میں گھرا ہو اور اچانک ایک ہیرو نمودار ہو کر انہیں پیٹنا شروع کردے۔ میں اس زمانے میں پنجابی فلمیں بہت زیادہ دیکھا کرتا تھا۔ مولانا آزاد میرے مولاجٹ بن گئے جو علمی نوری نتھوں کا اپنے قلم کے گنڈاسے سے بھرکس نکال رہے تھے۔ جبکہ میری آوارگی اور باغیانہ سوچ کو جو منظم فکری سرمایہ میسر آیا اس کی الگ بے پناہ اہمیت تھی۔ اس کتاب نے مجھے آگاہ کیا کہ حقیقی مولویت کیا ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ میری فکر کا ہر حاصل اس کتاب سے ہے۔ اس میں بے شمار دیگر کتب کا بھی حصہ ہے لیکن یہ کتاب آغاز ثابت ہوئی تھی۔ اس نے میرے منتشر خیالات کو منظم کیا تھا اور مجھے گمراہی کے عین آغاز پر اپنے صفحات کی آغوش میں سنبھال لیا تھا۔ میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر غبارِ خاطر نہ ہوتی تو آج میں مولویوں کا سب سے بدترین دشمن ہوتا۔ اس کتاب نے میری سوچ کو یہ رخ دیا کہ اس زمانے کا مولوی وہ مظلوم ہے جو اپنے اکابر کی عاقبت نااندیشی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ اسے پڑھایا ہی وہ نصاب گیا ہے جو اسے فقط ایک امام مسجد بنا سکتا ہے۔ اس غریب کے پاس کسی اور چیز کو اپنا ذریعہ معاش بنا کر علم کی خیرات مفت بانٹنے کا آپشن ہی نہیں۔ اور اکابر کی تعریفوں کے مصنوعی پل باندھ کر اسے اتنا اندھا کردیا گیا ہے کہ اسے نظر ہی نہیں آ رہا کہ اس کے ساتھ واردات کیا ہوگئی ہے۔ ایسے شخص سے دشمنی نہیں صرف ہمدردی کی جانی چاہئے جبکہ دشمنی اس سسٹم سے ہونی چاہئے جو اس اندوہناک سانحے کا ذمہ دار ہے۔ امت مسلمہ ہر شعبہ حیات میں زوال کا شکار ہے اور اس زوال میں علمائے دین اور علم دین کا زوال یہ ہے کہ یہ جنس بازار بن چکے۔ درس نظامی کا سقم ہی یہ ہے کہ یہ دین اور اس کے علم کو جنس بازار بنانے کی صلاحیت تو پیدا کر دیتا ہے لیکن کسی اور ذریعہ معاش کی اہلیت مہیا کرنے سے اس کا دامن خالی ہے۔