روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ کے مطابق کراچی کی بندرگاہوں پر شپنگ کمپنیوں اور کسٹمز عملے کی ملی بھگت سے قانونی امپورٹرز سے کسٹمز ایکٹ کے برخلاف 15ارب روپے سالانہ وصول کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس طرح چین سے پاکستان درآمد کنندگان کا سامان بک کرنے کے بعد پورٹس پر کئی ہفتوں تک روک کر طے شدہ معاہدے کے منافی بلیک میلنگ کے ذریعے تاخیری چارجز کے نام پر ہزاروں ڈالر اضافی وصول کیے جا رہے ہیں۔ رپورٹ سے مترشح ہوتا ہے کہ اربوں روپے کے سالانہ اضافی چارجز کا مقصد پاکستانی درآمد کنندگان کو نقصان پہنچانا ہے جبکہ کسٹمز ایکٹ 1969ء کے سیکشن 14اے کے مطابق اگر کسٹمز نے درآمد کنندہ کو پہلے ہی تاخیری وجوہات کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہو تو پورٹ یعنی پی آئی سی ٹی اضافی ڈیمرج اور ڈی ٹینشن کا مطالبہ نہیں کر سکتی لیکن اس سرٹیفکیٹ کے باوجود بھی پی آئی سی ٹی غیر قانونی طور پر درآمد کنندگان کا سامان روک لیتا ہے اور ان سے بھاری ڈیمرج لیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شپنگ کمپنیاں اور ان کا عملہ پاکستانی درآمد کنندگان کو چین سے پاکستان تک درآمدی سامان تین سو ڈالر میں لانے کی پیش کش کر کے پھانستے ہیں جبکہ کراچی سے لاہور تک سامان کی سپلائی پر ایک ہزار ڈالر تک خرچہ آ جاتا ہے درآمد کنندگان کو سالانہ اربوں روپے کے خسارے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ پی آئی سی ٹی اور کسٹمز عملے کی ملی بھگت توڑی جائے اور نقصان پہنچانے والی بڑی شپنگ کمپنیوں، ان کے ایجنٹوں اور پی آئی سی ٹی انتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے تاکہ درآمد کنندگان کے خلاف ان کی بلیک میلنگ کی روک تھام کی جا سکے۔ اس سے نہ صرف درآمدکنندگان کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے بلکہ یہ ملکی تجارت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔