یہ سیاست ہے‘ جمہوری اختلاف یا قبائلی دنگا ‘ فساد‘ لڑائی جھگڑا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جاہلانہ روائت؟۔ حکومت اور اپوزیشن باہم دست و گریباں ‘وفاق اور صوبہ مدمقابل اور ایک ہی جماعت و گروہ میں تفرقہ ونفاق۔ زمانہ جاہلیت کا عربستان یاد آتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی یادگار زمانہ مسدّس میں جس کی نقشہ کشی کی ہے ؎ قبیلے قبیلے کا بُت ا ک جدا تھا کسی کا ہُبل تھا‘ کسی کا صفاتھا یہ غزاّ‘ وہ نائلہ پر فدا تھا اسی طرح گھر گھر نیا اِک خدا تھا چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ ہر اِک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے نہ ٹلتے تھے ہرگز جواڑ بیٹھتے تھے سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے تو صد ہا قبیلے بگڑبیٹھتے تھے بلند ایک ہوتا تھا گرواں شرارا تو اس سے بھڑک اٹھتا ملک سارا وہ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی قبیلوں کی کر دی تھی جس نے صفائی تھی اک آگ ہر سو عرب میں لگائی نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ کرشمہ اِک ان کی جہالت کا تھا وہ کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا لب جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا یونہی روز ہوتی تھی تکرار اُن میں یونہی چلتی رہتی تھی تلوار اُن میں جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر تو خوف شماتت سے بے رحم مادر پھرے دیکھتی جب ‘تھی شوہر کے تیور کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر وہ گودایسی نفرت سے کرتی تھی خالی جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی جوانی دن رات کی دلی لگی تھی شراب ان کی گھٹی میں پڑی تھی تعیش تھا‘ غفلت تھی ‘ دیوانگی تھی غرض ہر طرح ان کی حالت بُری تھی مولانا حالی نے پندرہ سو سال قبل کی عالم عرب کی نقشہ کشی کی ہے مگر آج ہم پاکستان کو دیکھیں تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی قائدین ملک و قوم کی بہتری کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے جتن کرتے ہیں‘ ہمارے ہاں قومی وسائل کی لوٹ مار‘ اقربا پروری‘ دوست نوازی اور ذاتی و خاندانی برتری الاّماشاء اللہ قیادت کا نصب العین ہے اور حصول مقصد کے لئے ہر غیر آئینی‘ غیر قانونی‘ غیر اخلاقی‘ عوام دشمن حربہ جائز‘ باہم لڑائی جھگڑا معمولی باتوں پرہوتا اور ملک دشمنی و عوام دشمنی کی حدود کو چھونے لگتا ہے۔ مہنگائی و بے روزگاری ‘قانون شکنی و ملک دشمنی‘ وحشیانہ جنسی تشدد کے بعد کمسن معصوم بچیوں اور بچوں کے سنگدلانہ قتل پر عوام‘ میڈیا اور اہل دانش کا ردعمل نہ ہونے کے برابر مگر ایک ڈرامے کے فرضی کردار کی موت پر کئی روز تک سوگ کی کیفیت ‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں چیف سیکرٹری و آئی جی سمیت پولیس و انتظامی افسران کی بار بار تبدیلی معمول کا واقعہ مگر سندھ میں آئی جی کی تبدیلی پر صوبہ اور وفاق دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل‘ وفاق سوچنے پر تیار کہ اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اعلیٰ افسروں کی تبدیلی اور تعیناتی میں صوبائی حکومت کی ترجیحات اور خوشنودی کو مدنظر رکھا جاتا ہے تو سندھ میں کیوں نہیں نہ سندھ میں برسر اقتدار گروہ اپنے ذاتی و سیاسی کے علاوہ زرداری خاندان کے مفادات سے بالاتر کوئی بات ماننے پر آمادہ‘ ضد یہ بھی ہے کہ مرکز صوبے کے پیش کردہ ناموں میں سے کسی ایک پر صاد کرے۔ آٹے اور چینی کی مہنگائی و قلت پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی بیان بازی دیکھیں اور ان کی اپنی صفوں میں مافیاز کی موجودگی کا جائزہ لیں‘ بیان بازی دھوکہ دہی اور فریب کاری کی واردات نظر آتی ہے۔ گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی سرکوبی کوئی چاہتا ہے نہ اپنی صفوں سے انہیں نکالنے پر آمادہ۔ شور مگر اس قدر مچا رکھا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی‘ سب جانتے ہیں کہ یہی گراں فروش‘ ذخیرہ اندوز‘ ملاوٹ مافیا سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو کروڑوں روپے کے فنڈز فراہم کرتا اور عطیات کا پھل کھاتا ہے۔ عوامی فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ ہو یا قانون سازی کی ضرورت‘ حکومت اور اپوزیشن کبھی اکٹھے نہیں ہوئے‘ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے لے کر ملک میں یکساں نظام تعلیم‘ صحت کی بہتر سہولتوں تک‘ تعلیم یافتہ و ہنر مند افراد کو ملازمتوں اور بے گھروں کے لئے رہائشی سہولتوں کی فراہی کے معاملے میں سنگین اختلاف رائے موجود ہے۔ قومی معیشت کو دستاویزی شکل نہ دینے‘ منی لانڈرنگ اور سمگلنگ کی روک تھام میں ناکامی اور سونے و زمین کے کاروبار کو چینلائز کرنے کے لئے قانون سازی پر اتفاق نہ ہونے سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف سے خطرہ ہے‘ گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں جانے کاشدید اندیشہ‘ مگر مجال ہے کہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں موجود پارلیمانی جماعتوں کے کانوں پر جوں رینگے اور وہ قومی مفادات کے تحفظ ، کے لئے اتفاق رائے کا مظاہرہ کریں مگر تنخواہوں میں اضافے‘ مراعات کے حصول اور طاقتور حلقے کی خوشنودی کے لئے قانون سازی کا مرحلہ ہو تو مسلم لیگ (ن) کو اپنا بیانیہ یاد رہتا ہے نہ پیپلز پارٹی کو جعلی اکائونٹس کے حوالے سے قائم مقدمات۔ قبائلی طرز کی دشمنی اچانک دوستی میں بدل جاتی ہے اور بدترین مخالف یوں شیرو شکرہو جاتے ہیں جیسے عشروں کے بچھڑے دو سگے بھائی۔ جھگڑا ہے تو صرف ان معاملات پر جن کا تعلق ملک کے استحکام‘ قومی ترقی اور عوامی خوشحالی سے ہو۔ اس تفرقہ اور نفاق کو ختم کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ شائد کسی کی بھی نہیں کہ قومی قیادت کے دعویدار تو اس میں اضافہ کر رہے ہیں‘ جلتی پر تیل ڈالنے میں مشغول۔پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔