تین روزہ دھرنا بالآخر اختتام کو پہنچا دیا گیا۔ اس ڈراپ سین پر یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ رسیدہ لود بلائے ولے بخیر گزشت کیونکہ آج ہی ایک وزیر مراد سعید کا بیان ہے کہ اس تین روزہ دھرنے میں اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ ایک اور سرکاری منصب دار کی رپورٹ ہے کہ ان تین دنوں میں معیشت کو 150ارب کا نقصان پہنچا۔ اگر یہ بیان درست ہے تو پھر یہ شکر الحمد اللہ کہنے کا مقام ہے کیونکہ چار سال پہلے بھی ایک دھرنا ہوا تھا جس نے لگ بھگ چھ سو ارب روپے کا نقصان کیا تھا۔ حالیہ نقصان اس کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے۔ شکر الحمد للہ۔ چار سال پہلے دھرنا کس نے دیا تھا۔ ٭٭٭٭٭ دھرنے کا اختتام ایک معاہدے پر ہوا جس کی الگ الگ تشریحات دو وزیروں نے کی ہیں وزیر مذہبی امور نے کہا ہے کہ گستاخی کی مرتکب آسیہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ اور یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ آسیہ کو بری کرنے کا فیصلہ برقرار رکھنے یا ختم کرنے کا فیصلہ بھی عدالت کرے گی۔ اور یہی دو اہم مطالبات اصحاب دھرنا کے تھے۔ دونوں کام بلا شبہ عدالت ہی نے کرنے ہیں لیکن اس صورت میں وزیر مذہبی امور کو یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ معاہدہ پھر حکومت نے کیوں کیا ہے۔دوسری تشرح وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کی۔ انہوں نے فرمایا‘ ہم نے تو صرف آگ بجھائی ہے۔ مسئلہ کا مستقل حل تو ابھی نکالنا ہے۔گویا ’’معاہدہ‘‘ محض آگ بجھانے کے لیے تھا،۔ بہرحال مستقل کا لفظ بھی خوب استعمال کیا۔ قبلہ‘ مستقل حل کسی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ یہ کام تو ’’مستقل‘‘ والے ہی کر سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ فواد چودھری کی ’’تشریح‘‘ کے بعد ہی مراد سعید کا یہ بیان آیا کہ دھرنے میں توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کرنے والوں کو پکڑا جائے گا۔ بعدازاں تشریحات پر عملیات کے حوالے سے بھی خبریں آئیں یعنی کوئی چار پانچ صد افراد کے خلاف مقدمات درج ہونے شروع ہو گئے۔ ساتھ ہی خبر آئی کہ وزیر اعظم نے سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ تشریحات اور عملیات کا رخ الگ الگ سمتوں میں لگتا ہے۔ معاہدے میں یہ شق تو شامل ہی نہیں تھی۔معاہدے میں اصحاب دھرنا کی طرف سے معذرت والی شق اپنے طور پر لطف دے گئی۔ لکھا تھا‘ اگر کسی کی بلا جواز دل آزادی ہوئی تو معذرت۔یعنی جن کی دلآزاری ’’با جواز‘‘ ہے‘ وہ صبر کا گھونٹ پی کر گزارہ کریں۔ جن کی کاریں‘ موٹر سائیکلیں‘ ٹرک‘ بسیں وغیرہ جل گئی ہیں وہ البتہ خون کا گھونٹ پی کر فریقین کو دعائیں دیں۔ ٭٭٭٭٭ دھرنے میں کون ’’فاتح‘‘ رہا؟ سوال بے جا نہیں ہے۔ کوئی بھی معرکہ ہو‘ ایک فریق فتح یاب ہوتا ہے دوسرا مفتوح۔ لیکن سوال زیر نظر کا جواب کچھ زیادہ ہی ’’محل نظر‘‘ ہے یہ کہ دونوں فریق ہی مفتوح رہے۔ ایک فریق یعنی حکومت کو ’’رٹ‘‘کی بے نقابی کا سامنا رہا۔ تو دوسرے کے مطالبات ایسے تھے کہ حکومت پورا کر ہی نہیں سکتی۔ مثلاً آسیہ کا نام لسٹ میں کس قانون کے تحت ڈالا جائے گا۔؟ عدالت کے سوا یہ کسی کے اختیار میں نہیں‘ فریق دوم کو یہ خسارہ بھی ہوا کہ آئندہ کے لیے اسے پہلے جیسے ’’معاملات‘‘ برپا کرنا بہت مشکل ہو گا‘ قومی اثاثہ اب قومی رہا نہ اثاثہ۔ بہرحال ‘ تین دن تو دھرنے والوں نے ملک بھر میں اپنی رٹ خوب قائم کی۔ حکومت بے بس تھی یا بے پروا خدا جانے۔ ٭٭٭٭٭ رٹ سے یاد آیا‘ وزیر اطلاعات نے دھرنے والوں کو انتباہ جاری کرتے ہوئے فرمایا تھا‘ ریاست سے مت ٹکرانا‘ وہ اپنی رٹ قائم رکھے گی۔ ریاست کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں۔اس پر بعض نادان یہ سمجھ بیٹھے کہ حکومت نے مظاہرین کو ’’ایٹم بم‘‘ کی دھمکی دی ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ وزیر موصوف تعلیم یافتہ ہیں۔ جانتے ہیں ایٹمی ہتھیاروں کی دھمکی مقابل ریاست کو دی جاتی ہے۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ پھر وزیر موصوف نے ایٹمی ہتھیاروں کا ذکر ہی کیوں کیا تو جواب یہ کہ بھئی‘ بات سے بات نکلتی ہے۔ کبھی خود نکل آتی ہے۔ کبھی نکالنا پڑتی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے محلے کے ایک تھڑے پر چار پانچ عوام بیٹھے تھے۔ مہنگائی کے دکھڑے رو رہے تھے۔ ایک نے کہا دو ہی مہینوں میں مہنگائی کی شرح کو 3.8فیصد سے بڑھا کر 7فیصد کر دیا۔ ایسا تو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا دوسرے کی فریاد تھی کہ سکول کی فیسیں بھی لوگوں نے گیارہ بارہ فیصد بڑھا دی ہیں۔ تیسرا عوام غصے سے بولا۔ میری تنخواہ تو آدھی رہ گئی۔ یہ تبدیلی لانی تھی؟ عوام کے درمیان ایک ’’انصاف‘‘ بھی تشریف رکھتا تھا۔ بولا مہنگائی کر دی تو کیا ہوا خاں نے 1992ء کا ورلڈ کپ بھی تو جیتا تھا۔ ایک ’’عوام‘‘ نے بھنا کر پوچھا مہنگائی میں ورلڈ کپ کدھر سے آ گیا۔ جواب ملا بس بات سے بات نکلتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ اس حوالے سے’’تاریخ آزادی صحافت‘‘ کا ایک یادگاری باب بھی لکھا گیا۔ چلئے اسے آزادی صحافت سے نہ جوڑیے‘ خبر جاننے کے بنیادی عوامی حق کی شکل سمجھ لیجیے۔پہلے دو روز ٹی وی پر خبروں کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جو بے خبر تھے‘ وہ سر کھجاتے رہ گئے۔ یعنی ٹکر یوں آ رہے تھے‘ کراچی میں کل سکول بند رہیں گے۔ پنجاب کے تعلیمی ادارے بھی کل بند ہوں گے‘ امتحانات ملتوی‘ لوگ حیران تھے کہ ارے بھئی کون بڑا آدمی مر گیا۔ پھر یوں خبریں آنے لگیں‘ فلاں فلاں موٹر وے بند۔ جی ٹی روڈ بھی بند‘ ملتان روڈ بھی بند۔ بھئی کون پھر رہا ہے ان سڑکوں پر خان تو خصوصی طیارے پر چین گیا ہوا ہے۔ یہ کس کے پروٹوکول میں سڑکیں دھڑا دھڑ بند ہو رہی ہیں۔ اچھا اپنے صدر صاحب ہوں گے ‘ جوانی پھر نہیں آنی والے۔لیکن شام تک سڑکیں دھڑا دھڑ بند ہونے لگیں تو انہیں پتہ چلا کہ ہر طرف دھرنا پھر گیا ہے۔ سوشل میڈیا اور فون کی وجہ سے ہر ایک کو پوری کہانی کا پتہ چل گیا۔ اب سوچتے رہیے کہ ’’پابندی‘‘ لگا کر کیا ملا‘ سوائے اس کے کہ ٹی وی والے ادھوری خبر دیتے رہے اور لوگ حکومت کی بھد اڑاتے رہے۔ بھلا خبروں پرپابندی نہ لگاتے تو کون سا ایسا طوفان آ جانا تھا جو پابندی کے باوجود آ کر رہا۔