یہی فرق ہے‘بس یہی فرق۔مولوی سے شاذ ہی کبھی کچھ ملتا ہے۔ درویش کے در سے خالی ہاتھ کوئی نہیں لوٹتا،الایہ کہ خان صاحب کی طرح خبطِ عظمت کا قتیل ہو۔ جب آپ کالم لکھتے ہیں تو کیا کوئی دعا پڑھتے ہیں؟ انہوں نے پوچھا۔عرض کیا جی ہاں!وہی دعا جو سب مسلمان پڑھتے ہیں۔’’اے میرے رب‘میرا سینہ کشادہ فرما،میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے‘‘۔ بولے:ایک دعا آپﷺ نے تعلیم فرمائی ہے۔ارشاد کیا تھا کہ پڑھ لی جائے تو ناکامی کا سوال ہی نہیں۔‘‘اے اللہ‘ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور دنیا کی خواری اور آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ‘‘۔عرض کیا:یہ تو ایک طرح کی ضمانت ہے‘خود عالی جنابﷺ کی ضمانت۔ہمیشہ کے رسان سے کہا:جی ہاں! کوئی دن بیت گئے توکہا:ایک اور دعا بھی پڑھ لیا کرو ’’لاحول ولا قوۃ الا بااللہ‘‘ میری کوئی قوت نہ ارادہ۔ میں پروردگار پہ بھروسہ کرتا ہوں۔پھر جیسا کہ فقیر کا مزاج ہے‘مختصر سی وضاحت کی:معاملہ جب خالق پر چھوڑ دیا جائے تو گویا بندے نے سب کچھ اسی پر چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ کہ کمال سرعت اور سہولت سے قوت متخیلہ بروئے کار آتی ہے۔حافظے میں نکات اجاگر ہونے لگتے ہیں۔یہی وہ درویش ہے‘جس کے بارے میں ایک مولوی صاحب نے کہا:ناظرہ قرآن تک وہ پڑھ نہیں سکتا، میڈیا کے بل پہ شہرہ بہت۔یا للعجب مولوی صاحب لاہور کی ایک مشہور یونیورسٹی میں شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ ہیں۔انہیں یاد نہ رہا کہ سنی سنائی پھیلانے والوں کا شمار غلط بیانی کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ تجوید کے ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے تو بہت سے قاری شاید ان سے بہتر ہوں۔ہاں البتہ قرآن کریم میں ایسا انہماک آج تک کبھی کسی عالم دین میں نہیں دیکھا۔ایک آدھ نہیں،پچھلی ایک صدی میں لکھی گئی تقریباً تمام تفاسیر دیکھنے کا اتفاق ہوا‘کوئی دوسرا نہیں۔ایسی وارفتگی اور ایسا گہراشعور جس میں کارفرما ہو۔ بندوں کی نہیں‘یہ اللہ کی کتاب ہے۔ایسا جادو اس میں پایا جاتا ہے‘ جیسا کہ ہونا چاہیے۔کسی ایک چھوٹی سی آیت پر آدمی اگر پڑاؤ ڈال دے تو ایک آدھ نہیں‘درجنوں نہیں‘کبھی سینکڑوں نکات اجاگر ہونے لگتے ہیں۔ اپنے شاگرد امام احمد بن حنبلؒ پر گرامی قدر استاد امام شافعیؒ کو ناز تھا۔ اپنے گھر میں ان کا ذکر کیا کرتے۔ الفت جس سے زیادہ ہو‘وقت بے وقت اس کی یاد آتی ہے۔امام احمد بن حنبلؒایک شب گرامی قدر استاد کے مہمان تھے۔ ان کے بچوں نے حیرت کی کہ تہجد کے لیے جاگے، نہ نوافل اور تلاوت کے لیے۔ عشا کے بعد جاگتے رہے۔ فقط نمازِ فجر میں شامل ہوئے۔امام شافعیؒ بھی تعجب میں مبتلا ہوئے۔ تنہائی ملی تو پوچھا۔ نادرروزگار شاگرد نے کہا: عشا کی نماز پڑھ کر لیٹا تو قرآنِ کریم کی ایک آیت یاد آئی۔اسی پہ سوچتا رہا، نیند اڑ گئی؛حتیٰ کہ فجر کے لیے موذن کی آواز سنائی دی۔الحمد للہ سو نکات اس میں نکالے ہیں۔ جس آدمی پر یہ تہمت مولوی صاحب نے تراشی‘معمول ان کا یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ شب بارہ بجے سو رہتے ہیں۔صبح تین بجے بیدار ہوتے اور مصحف میں منہمک ہو جاتے ہیں۔اپنے شاگردوں اور دوستوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ اشرف الحواشی سے استفادہ کیا کریں۔اس لئے کہ ہر آیت کے ساتھ احادیث اور اقوال صحابہؓ درج ہیں۔چھبیس برس بیت گئے،کبھی پوچھا نہیں کہ کتنی دیر وہ تلاوت کیا کرتے ہیں؟ریا سے گریزاں اور اپنی ذات سے درویش بے نیاز ہوا کرتا ہے۔اس طرح کا سوال اسے خوش نہیں آتا‘اس کی اپنی شخصیت‘جس میں نمایاں ہو۔ قرآن کریم کا بیشتر حصہ انہیں زبانی یاد ہے‘اس روانی سے آیات کا حوالہ دیتے ہیں‘عہد قدیم کے حفاظ جیسے دیا کرتے۔ تب حافظ کا لقب اس کے لئے برتا جاتا‘کتاب اللہ کے علاوہ احادیث اور اہم ترین کتابوں کے متون جسے ازبر ہوں جیسے حافظ ابن قییمؒ۔ ان گنت احادیث زبانی یاد ہیں۔برسبیل تذکرہ ایک دن ارشاد کیا‘کالج کے زمانے میں بخاری شریف پڑھ چکا تھا۔ پچھلی تین چار صدیوں کے تمام ممتاز سیکولر مفکرین بھی۔بتایا کہ مطالعے کی کثرت سے اطمینان کی بجائے بے چینی پیدا ہوئی۔زندگی‘انسان، کائنات اور خالق کائنات کے بارے میں کتنے ہی سوال تھے‘جن کا جواب چاہتا تھا۔یہی اضطراب قرآن کریم کی طرف لے گیا۔پروردگار کا ارشاد یہ ہے کہ وہ کتاب‘جس میں کوئی شک نہیں‘فرمایا:اس ارادے کے ساتھ میں نے قرآن کے مطالعے کا آغاز کیا کہ اگر یہ اللہ کا کلام نہیں تو کہیں نہ کہیں شاید اس میں کوئی کمی‘کوئی تشنگی ضرور ہو گی۔کمی اور تشنگی کیا ہوتی۔ اس گلستان میں وہ داخل ہوئے تو لوٹ کر نہ آئے۔اس لئے کہ اس باغ کا کوئی کنارہ ہی نہیں۔ یقین پختہ ہو چکاتو اپنے مالک سے عہد کیا: کم از کم آدھا دن تجھے یاد کیا کروں گا۔کم از کم 9گھنٹے اورایک منٹ روزانہ۔’’ہاتھ میں تسبیح تھامے پیدل چل نکلتا اورچلتا چلا جاتا۔‘‘اکثر تیس چالیس کلو میٹر روزانہ۔ پانچ برس ہوتے ہیں،گھٹنے کا آپریشن ہوا۔بہت بعد میں بتایا کہ درد ایسا تھا کہ درد کش دوا سے بھی نجات نہ ملتی۔اس حال میں بھی عالم یہ تھا کہ ہر تیمار دار کو چائے یا پھلوں کا رس پیش کرتے۔ شاگردوں میں سے کبھی کسی نے سوال نہ کیا کہ کیا اس حال میں بھی تسبیح واورادکا سلسلہ جاری رکھا۔سب جانتے تھے کہ ناغے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ایک بار خود کہا تھا:الحمد للہ تسبیح کبھی قضا نہیں کی۔ عمر اب اسی برس ہو چکی۔کرامات اور کشف کے واقعات بیان کئے جائیں تو ایک پوری کتاب بھی کفایت نہ کرے۔اہل علم کہتے ہیں کہ کشف و کرامات سے زیادہ اہمیت اخلاق کی ہوتی ہے۔پچاس ساٹھ برس کی رفاقت رکھنے والے بھی شہادت دیتے ہیں: کبھی انہیں برہم اداس اور رنجیدہ نہ پایا۔حسن اخلاق کا ایسا نمونہ کہ بڑے سے بڑا ناقد بھی قائل ہو جائے۔میزبان بہت دیکھے۔شفیق اور کریم لوگوں سے واسطہ پڑا۔اگر کسی کو دیکھنا ہو تو ڈاکٹر امجد ثاقب یا ڈاکٹر سہیل چغتائی کو دیکھ لے۔درویش سے کسی کا موازنہ مگر ممکن نہیں۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کہ ضبط نفس کا ایک نمونہ ہیں،درویش کے سامنے ایک طالب علم کی طرح مودب ہوتے۔خود وہ بہت باریک بیں ہیں مگر جب کوئی مشکل آ پڑتی تو ان سے مشورہ کرتے۔جنرلوں‘ججوں اور سیاستدانوں ہی کے نہیں‘ان سے بڑھ کر عام آدمی کے رفیق ہیں۔ایک شام کچھ دیر طالب علم ان کا انتظار کرتا رہا۔بتایا کہ محلے کے سبزی فروش کی دلجوئی کے لئے‘اس کی دکان پر بیٹھے رہے۔ عمر کے اثرات اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔ربع صدی تک مگر یہ دیکھا کہ کم از کم پانچ چھ گھنٹے دروازہ کھلا رہتا۔دو اڑھائی سو ملاقاتی۔ان سب کی بات سننے سے پہلے ان میں سے ہر ایک کی تشفی کئے بغیر کبھی نہ اٹھے۔ ایک بار عرض کیا:اپنے آپ کے ساتھ بہت زیادتی آپ کرتے ہیں۔معمول کے شیریں لہجے میں کہا: اب یہی طرز زندگی ہے اور اس کے ساتھ میں آسودہ ہوں۔جسم نہیں درویش روح کی غذا کے لئے فکر مند ہوتا ہے۔ عالم‘ایسا عالم کہ نگاہ خیرہ ہو جائے۔بے نیازی‘ایسی بے نیازی کہ کبھی دیکھی،نہ سنی۔بندگان خدا پہ مہربان‘ایسے مہربان کہ کبھی کوئی دوسرا نہ دیکھا۔وہ دروازہ کہ جس سے کبھی کوئی خالی ہاتھ لوٹ کر نہیں جاتا۔ اعتراض اور تنقید کرنے والوں پر بھی وہی شفقت‘جیسے کہ یاران کہن سے۔ میڈیا؟اکیس برس ہوتے ہیں پاکستان ٹیلی ویژن کو ایک نئے چینل کا آغاز کرنا تھا‘ انٹرویو کے لئے وہ اصرار کرتے رہے۔بار بار اس ناچیز نے بھی گزارش کی۔آخر کو کہا:آپ استخارہ کر کے بتائیں کہ کیا ذاتی تشہیر زیبا ہے؟ایک بار مجھ سے گلہ کیا:میرا تم ذکر کرتے ہو تو ہجوم بڑھنے لگتا ہے۔ یہی فرق ہے‘بس یہی فرق۔مولوی سے شاذ ہی کبھی کچھ ملتا ہے۔ درویش کے در سے خالی ہاتھ کوئی نہیں لوٹتا،الایہ کہ خان صاحب کی طرح خبطِ عظمت کا قتیل ہو۔