کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ حرف تصویریں بناتے ہیں اور آنکھوں کے سامنے گزرے وقتوں کے سارے منظر زندہ ہو جاتے ہیں۔ میں نومبر 2018ء میں ایک کتاب ہاتھ میں اٹھاتی ہوں۔ اس کے صفحات الٹ پلٹ کر پڑھنے لگتی ہوں۔ جوں جوں تحریر پڑھتی جاتی ہوں ایسا لگتا ہے کہ عالی مرتبت فلسفی‘ عظیم مفکر‘ شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبال کو اپنی آنکھوں سے گھر کی چار دیواری کے اندر بالکل گھریلو ماحول میں اپنے خاندان کے افراد سے بات چیت کرتے معاملات کرتے دیکھ رہی ہوں۔ اور ان منظروں میں اقبال کی بے ساختگی اور فطری سادگی کے دل موہ لینے والے مناظر بھی شامل ہیں۔ وہ فطرتاً سادہ مزاج تھے۔ گرمیوں کے موسم میں سفید قمیض کے ساتھ دھوتی پہنتے اور زیادہ تر اسی سادہ لباس میں دکھائی دیتے خواہ بڑے سے بڑا کوئی ملا قاتی ملنے آ جاتا گرمیوں میں اقبال اسی لباس میں نظر آتے۔ سردیوں میں دھسا اوڑھے‘ کوئلوں کی انگیٹھی جلا کر بیٹھنا اقبال کو مرغوب تھا۔ کبھی شلوار کے ساتھ چھوٹا کوٹ اورشیروانی بھی پہنتے۔ کبھی لباس خریدنے یا سلوانے بازار نہ گئے۔ منشی طاہر دین اور ملازم خاص علی بخش ان کی ضرورت کا کپڑا خرید لاتے یا والدہ جاوید اپنی پسند کا کپڑا خریدتی۔ ایک ہی درزی تھا جسے مدتوں پہلے اپنا ناپ دیا پھر اس کے بعد درزی خود ہی ناپ سامنے رکھ کر ردوبدل کرتا رہتا۔ کپڑے سِل جاتے تو گھر دینے آ جاتا۔ سائز میں کوئی اونچ نیچ بھی ہوتی تو اقبال بغیر کسی شکایت کے کپڑے پہن لیتے۔ کتاب پڑھتے ہوئے ہم اقبال جیسے عظیم مفکر اور شاعر کو اپنے خاندان کے بچوں کو چومتے۔ چمکارتے اور گود میں اٹھاتے دیکھتے ہیں اپنی بھتیجی وسمیہ جنہیں گھریلو نام سیما سے مخاطب کرتے تھے ان سے اقبال خصوصی شفقت کرتے۔ یہ کتاب اقبال درون خانہ ایک آئینہ ہے اور ہم اس آئینے میں اقبال کے بڑے ہی سوہنے من موہنے‘ سادے اور بے ساختہ روپ دیکھتے ہیںۃ کھانے میں بھی سادہ مزاج ہیں مگر نفاست پسند طبیعت پائی ہے۔ کچھ چیزیں بالکل اپنی مرضی کی کھاتے ہیں مثلاً ہم انہیں عید کے دن سویوں پر دہی ڈال کر کھاتے دیکھتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنی والدہ کو یاد کرتے ہیں کہ ایسا کھانا میری والدہ کو مرغوب تھا۔ کھانے کے ساتھ شلغم کا اچار شوق سے کھاتے اور کہتے اچار شلغم ایک نعمت ہے ۔شب دیگ بھی پسند تھی مگر خشکہ کی جگہ روٹی طبیعت کو زیادہ بھاتی۔ سیالکوٹ کا سفر چند گھنٹے کا ہوتا ہے مگر اقبال اس سفر کے لیے خاصے فکر مند ہو جاتے۔ خصوصاً جب گھر کی خواتین بھی ہمراہ ہوتیں تو سفر کی تیاری اس طرح ہوتی گویا سفرحج کو روانہ ہو رہے ہیں۔ کبھی سردیوں میں دھسا اوڑھے‘ انگیٹھی جلائے مطالعے میں مصروف ہیں تو سخت گرمی میں بنیان دھوتی میں پنکھے کے بغیر کسی گہری سوچ میں گم ہیں۔ گھروالے اس موقع پر آواز دینے سے گریز کرتے کہ اس وقت سوچ کی کسی اور ہی دنیا میں موجود ہیںہو سکتا ہے شعر کے الہام کا وقت ہو۔ کبھی یہ کتاب ہمیں اقبال منزل کی اندرونی نشست گاہ میں تخت پوشوں پر جمی ہوئی خاندان کی محفل میں لے جاتی ہیں جہاں بلند پایہ فلسفی اور عالی مرتبت مفکر۔ شاعر مشرق۔ علامہ محمد اقبال خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ گائو تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ گاہے‘ حقے کے ہلکے ہلکے کش لیتے ہیں اور اپنی چھوٹی بہنوں اور بڑی بھاوج سے خاندان اور محلے کے چھوٹے چھوٹے قصے بڑی دلچسپی سے سن رہے ہیں یہ قصے کیا ہیں۔ کسی شادی کا واقعہ ہے کسی کی فوتگی کی بات ہے۔ قاری یہ منظر دیکھتا ہے حکیم الامت کا یہ روپ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ کیسے وہ ایک مکمل ‘‘فیملی مین‘‘ تھے گھریلو باتوں اور قصے کہانیوں سے کبھی اکتاہٹ کا اظہار نہ کرتے۔ پھر ہم ایک اور دلچسپ منظر دیکھتے ہیں کہ اقبال کے صاحبزادے جاوید کم سن ہیں اوربکری سے کھیل رہے ہیں۔ جاویدکو پیار سے گھر میں بباّ کہہ کر پکارتے تھے۔ والدہ جاوید ایسے ہی فرمائش کرتی ہیںکہ آپ تو بڑے شعر کہتے ہیں لیکن جاوید کے متعلق کچھ نہ کہا۔ اقبال فرماتے ہیں اچھا یہ کون سا مشکل کام ہے اور پھر فی البدیہہ چند اشعار پنجابی میں کہتے ہیں: اک سی بباّ بکری والا نالے کھاندا توس تے انڈا نالے کھاندا حلوہ منڈا اک سی بباّ بکری والا اقبال کی اپنی والدہ مرحومہ سے وابستگی کا عالم کیا تھا اس کا اندازہ یہ چھوٹا سا واقعہ پڑھ کرہوتا ہے۔ کہ اقبال اپنی والدہ کی طرح فالودہ کو ’’پھلودہ‘‘ کہتے تھے۔ والدہ جاوید جب کہتی کہ اب آپ سیالکوٹی زبان چھوڑ دیں۔ فالودہ کہا کریں تو فارسی اور اردو زبان دانی پر قدرت اور مہارت رکھنے والا فلسفی شاعر جواب دیتا۔’’میری ماں نے تو مجھے یہی سکھایا ہے میں اپنی ماں کی تعلیم فراموش نہیں کر سکتا‘‘ ایک بار اقبال گھر آتے ہیں تو ان کی والدہ جاوید اور بھتیجی(کتاب کے مصنف خالد تطہیر صوفی کی والدہ وسمیہ مبارک) انگریزی کا قاعدہ لیے آموختہ یاد کر رہی ہیںR-A-T C-A-Tاقبال دونوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں آج تو یہاں انگریزی مدرسہ لگا ہوا ہے۔ پھر فی البدیہہ شعر پڑھتے ہیں: لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ اور یاد رہے کہ یہ طنز ہرگز نہیں تھا کیونکہ پھران کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا تم کس سے سبق لیتی ہو۔ جواب ملا مختار تھوڑا سا بتا دیتا ہے۔ پھر اقبال فرماتے چاہو تو میں بھی بتانے کو تیار ہوں۔ خالد تطہیر صوفی‘ کتاب کے مصنف‘ علامہ اقبال کی بھتیجی وسمیہ مبارک کے صاحبزادے تھے۔ ان کی والدہ کا بچپن اپنے چچا اقبال اور بھتیجی والدہ جاوید کے ساتھ گزرا وہ شادی ہونے تک وہیں رہیں کتاب کا نام اقبال کے خوب صورت شعر پر رکھا گیا ہے؎ درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہ گزر کو کیا خبر ہے