کیا میں کوئی شاطر آدمی ہوں؟ نہیں، آپ مجھے ایک بے وقوف شخص ضرور کہہ سکتے ہیں، جو سب پر اعتماد کر لیتا ہے ، لیکن میں خود کو بے وقوف نہیں کہہ سکتا کیونکہ ساری بے وقوفیاں میں جان بوجھ کر کرتا ہوں، چسکا ہے مجھے بے وقوف بننے کا، ایک کمزوری ایسی ہے جس پر میں کبھی قابو نہیں پا سکا اور وہ یہ ہے کہ ہر خوبصورت چہرے پر فریفتہ ہوجانا، جی ! صرف مہ جبینوں پر، اس بیماری کے حق میں بھی بیسیوں مثالیں ایسی ہیں جو مجھے اچھا بچہ ہونے کی سند عطا کرتی ہیں، شاہ حسین کالج میں کو ایجوکیشن تھی،ایک سمارٹ کلاس فیلو نے ذرا سی لفٹ کرائی تو اچھی لگنے لگی۔ اس کے چیونگم اور چاکلیٹس کا خرچہ اپنے ذمے لے لیا، حالانکہ میری جیب میں صرف دو سموسوں کے پیسے ہوا کرتے تھے، وہاں دو سگے بھائی بھی ہمارے ساتھ پڑھتے تھے،خالد گھرکی اور ارشد گھرکی، دونوں انتہائی سادہ لباس اور سادہ طبیعت کے مالک تھے، ان کے خاندانی پس منظر کا مجھے دور دور تک پتہ نہ تھا،کسی کے بارے میں کچھ کریدنے کی عادت مجھے کبھی نہیں رہی، بس جو پہلی ملاقات میں اچھا لگ گیااس سے دوستی ہو جاتی ہے، کلاس فیلو کے جباڑے کے مشاغل کا خرچہ اٹھانے کے فیصلے کے بعد سوچ وبچار کی تو قرعہ نکلا گھرکی برادران کے نام ، ایک آدھ پیریڈ اٹینڈ کرنے کے بعدمیں بڑے بھائی خالد کو اشارہ کرتا تو وہ بھلا مانس پیدل ریگل چوک تک جاتا اور وہاں سے چیونگم اور چاکلیٹ لا کر میرے حوالے کر دیتا، مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ان دونوں بھائیوں کا تعلق ایک بڑے نیک نام زمیندار اور سیاسی گھرانے سے ہے، یہ علم تو مجھے ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد ہوا، ایک ملاقات میں میں نے مرحوم خالد گھرکی سے معذرت کی تو اس نے فراخدلی سے جواب دیا،،، قصور تمہارا نہیں ہماری سادگی کا تھا، ہم شلوار قمیض پہننے والے تمہیں کسی مزارعے کے بچے لگتے تھے اور تم نے ہمیں اپنی عشق چاکری پر رکھ لیا، ہم نے بھی تمہارا بھرم رکھا،ہمیں تمہاری بولڈنس اچھی لگتی تھی اور تمہاری حرکتوں سے ہم محظوظ بھی ہوا کرتے تھے،تم لوگوں میں جلد پاپولر ہوجاتے اوریہ وصف ہم میں نہ تھا، ہم تمہیں اپنا تعارف کرا بھی دیتے تو تم نے کون سا باز آ جانا تھا۔ ان دنوں شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کا بہت چرچا تھا، روزنامہ آزاد کے مدیران کی طرح شاہ حسین کالج میں بھی ہمارے تمام اساتذہ کرام کا سیاسی رحجان لیفٹ کی جانب تھا، ان میں اگر کوئی تقسیم تھی تو وہ یہ کہ آدھے ماؤ نواز تھے اور آدھے لینن نواز، ماؤزے تنگ کے حامی زیادہ تر ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ تھے اور لینن نواز شیخ مجیب الرحمان کے طرفدار تھے، میںنے لینن والا گروپ جوائن کیا،اور کالج کا الیکشن لڑنے کیلئے شیخ مجیب کے چھ نکات کے مقابلے میں اپنے چھ نکات پیش کر دیے، میرے اس فیصلے کے بعدسبھی لوگ میری جانب مبذول ہوگئے اور میں سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا، بس ایک دن پروفیسر امین مغل کے ہاتھوں بے عزتی ہوئی تھی ، میں ان کی کلاس اٹینڈ کر رہا تھا،انہوں نے مجھے کھڑا کرکے پوچھا،، تم نے فیس جمع کرادی ہے؟ میں نے سر نفی میں ہلایا تو انہوں نے مجھے کلاس سے نکال دیا۔۔۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔۔ کیا ترقی پسند اساتذہ ایسے ہوتے ہیں؟ کئی سال بعدمیری سمجھ میں بات آئی کہ ان کی تنخواہیں بھی تو ہماری فیسوں سے ہی ادا ہونا تھیں، وہ کسی سرکاری کالج کے ملازم تو نہ تھے، بلکہ وہ تو سرکار کے زیر عتاب تھے اور انہیں تو ایوبی آمریت کیخلاف آواز بلند کرنے پرسرکاری نوکریوں سے فارغ کیا گیا تھا۔ ایک دن پروفیسر مظفر عباس کی کلاس چل رہی تھی، اچانک کاغذ کی ایک پڑیا میری گود میں آ گری، پیچھے مڑ کر دکھا تو ایک موٹی لڑکی نے مجھے ویوکیا، پرچی کھولی تو اس میں لکھا تھا۔۔۔۔ ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم ، تم کو خبر ہونے تک میں نے اسی پرچی کی پشت پر لکھا،،، انشاء اللہ ،دھیان رکھوں گا، اگلے دن اس نئی بلا نے گھر چائے پر بلا لیا، وہ نسبت روڈ نالے کے پاس رہتی تھی، ڈرائنگ روم بڑا وسیع و عریض تھا، چائے کے ساتھ سموسے، پکوڑے،بسکٹ سب کچھ تھا، وہ شاید میری جانب سے اظہار محبت کی منتظر تھی اور میں یہ سوچ رہاتھا، یہاں آکر بڑی غلطی کردی، اب جان کیسے چھڑاؤ گے؟ وقت اسی طرح گزر گیا، کالج چھوٹا تو بہت کچھ چھوٹ گیا،سب ادھر ادھر ہوگیا، ساری محبتیں،وقت نگل گیا۔ کیا زمانہ تھا وہ، جب ہماری ملاقاتیں روزانہ ڈاکٹر نذیر احمد، پروفیسرمنظورصاحب، پروفیسر ایرک سپرین جیسی شخصیات سے اسی کالج میں ہوا کرتی تھیں، میں نے ساڑھے چار دہائیوں میں کامیابیوں کا جو تسلسل دیکھا وہ صرف انہی لوگوں کے طفیل دیکھا،آج یہ لوگ نہیں اور شہر خالی خالی لگتا ہے۔ ٭٭٭٭ پشاور کے ایک کارکن صحافی کا خط ’’ میں پشاور سے شائع ہونے والے ایک قومی اخبار کا سب ایڈیٹر ہوں،پچھلی تین دہائیوں سے اس پیشے سے وابستہ ہوں، میرے والد مشرق اخبار کے کاتب ہواکرتے تھے، ان کی نصیحت اور وصیت تھی کہ بیٹا ،صرف رزق حلال کی طرف رہنا۔ میں چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ ہوں ،ایک بیٹی کی شادی کر چکا ہوں،دوسری کیلئے جہیز بنایا جو گھر میں آتشزدگی کے باعث جل گیا، تیس سالہ صحافت میں صرف ایک موٹر سائیکل خرید سکا اور وہ بھی قسطوں پر، پچیس ہزار تنخواہ میں گھر کا کرایہ اور گھر بمشکل چلا رہا ہوں، تین بیٹیوں کی ذمہ داری سوچ سوچ کر گردوں کا مریض بن چکا ہوں،مجھے اپنی دوسری بیٹی کو بیاہنے کیلئے صرف ایک لاکھ روپوں کی ضرورت ہے، صرف ایک لاکھ،جن سے ایک سفید پوش صحافی اپنی بیٹی کو سرخ جوڑے میں وداع کر سکتا ہے 03085320404‘‘ ٭٭٭٭ دروغ بر گردن راوی۔۔۔۔ کئی سال پہلے کی بات ہے، نواز شریف کی پہلی وزارت عظمی کے دن تھے، میںاپنے استاد کے پاس اکیلا بیٹھا تھا، بات ہو رہی تھی وقت اور پابندی وقت کی ، مجھے استاد محترم نے نواز شریف کا ایک واقعہ سنایا، ان سے جو سنااسی طرح آپ سے شئیر کر رہا ہوں، اس واقعہ کی صحت کا قطعی ذمہ دار نہیں ۔۔۔ وزیر اعظم نواز شریف ایک دن اسلام آباد سے لاہور پہنچے تو وہ اپنی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن جانے کی بجائے راستے میں گوالمنڈی میں اپنے منتظر دوستوںکے پاس پہنچ گئے جہاں ان کے دوستوں نے شب دیگ تیار کی تھی، تھوڑی دیر بعد ہی انہیں اپنے والد محترم میاں شریف صاحب کی کال موصول ہوئی، ابا جی پوچھ رہے تھے،، کہاں ہو؟ نواز شریف صاحب نے بتا دیا کہ وہ گوالمنڈی میں ہیں، والد محترم نے پوچھا، ماڈل ٹاؤن کتنی دیر میں پہنچ سکتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا،، بیس منٹ میں،،، نواز شریف نے سارا پروٹوکول وہیں چھوڑا اورخود گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ماڈل ٹاؤن چل دیے، جب ان کی گاڑی مزنگ چونگی کے پاس پہنچی تو وہاں پولیس نے روایتی طور پر ناکہ لگا رکھا تھا، نوازشریف کی ذاتی گاڑی کو رکنے کا اشارہ دیا گیا تو انہوں نے گاڑی کی رفتارکم کرتے ہوئے جیب سے کچھ روپے نکال کر روکنے والے اہلکار کو تھمائے اور پھر اسی سپیڈ پر ماڈل ٹاؤن روانہ ہوگئے، انہوں نے والد صاحب کو جو بیس منٹ کا وقت دیا تھا وہ اس ٹارگٹ کو پورا کرنا چاہتے تھے،،،،