قوموں کی زندگی میں اداروں کی بہت اہمیت ہے۔ کورونا کی جو آفت آئی ہے قومی معیشت پر اس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے جس کے نتیجے میں شاید فوری طور پر نئے ادارے قائم نہ ہو سکیں البتہ پہلے سے موجود اداروں کو بچانے کی ضرورت مسلمہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نئے ادارے وجود میں نہ لائے گئے۔ذوالفقار علی بھٹو پہلے سربراہ تھے جنہوں نے ادارے قائم کئے، ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر آیا ہے تو عرض کرتا چلوں کہ بھٹو کی برسی 4 اپریل کو کورونا لاک ڈاون کے باعث خاموشی سے گزر گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1970 ء کے بعد سیاست اب بھی بھٹو کے حامیوں اور مخالفین کے گرد گھوم رہی ہے۔کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر پاکستانی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو بہت بڑا نام ہے اور یہ نام ان کو ان کی سوچ اور وژن کے باعث ملا۔انہوں نے اپنی بصیرت اور سوچ کے مطابق ادارے قائم کئے اور ان اداروں سے کام لیا۔بھٹو کے بعد ادارے قائم کرنے کا اعزاز محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی بھی حاصل نہ کر سکے۔ ظلم تو یہ ہے کہ نئے ادارے تو کجا رہے جو ادارے قائم ہوئے ان کی بہتری کی طرف بھی توجہ نہیں دی گئی اور آج بھی نہیں دی جا رہی جو کہ ایک قومی المیہ ہے۔ بھٹو دور میں قائم کئے گئے اداروں کی تاریخ اور تفصیل اس بنا پر عرض کر رہا ہوں کہ موجودہ حکمران اداروں کے قیام کی طرف توجہ دیں۔ 1974 ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان سائنس فائونڈیشن کے نام سے ادارہ قائم کیا جس کے ذمے سائنس سے متعلقہ تمام امور پر تحقیق کا کام سونپا گیا۔آج جیسا کہ کورونا وائرس کی وبا آئی ہوئی ہے تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے سائنسی ادارے فنکشنل ہوتے۔سائنسی ادارے کے ساتھ ساتھ ذوالفقار علی بھٹو نے ادبی ثقافتی اداروں کی طرف بھی توجہ دی، 1976ء میں اکادمی ادبیات کے نام سے ادارہ قائم کیا جس کے ذمے اہل قلم کی بہبود اور ان کی تخلیقات کی اشاعت شامل تھی۔اب بھی یہ ادارہ کام کر رہا ہے مگر اسے زیادہ سے زیادہ فعال بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے ریجنل اداروں کو بھی فنڈ دے کر مضبوط بنانا بہت ضروری ہے۔اکادمی ادبیات پاکستان کا جو ریجنل آفس ملتان میں قائم ہوا اسکے پاس نہ بجٹ ہے اور نہ فرنیچر،ملتان آفس مذاق بن کر رہ گیا ہے، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود جن کا تعلق وسیب سے ہے کے ساتھ ساتھ چیئرمین اکادمی ادبیات کو ملتان آفس کی حالت زار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انسٹیٹوٹ آف سندھیالوجی کے نام سے ایک ادارہ سندھ یونیورسٹی جام شورو میں قائم کیا اور 1973 ء میں عمارت کی تعمیر کے لئے فنڈز مہیا کئے اور 1977 ء میں عالیشان عمارت مکمل ہوئی۔ اس ادارے نے سینکڑوں کتب اور ریسرچ پیپر شائع کئے ہیں۔یہ ادارہ سندھی زبان میں ایک رسالہ سندھی ادب کے نام سے اور ایک رسالہ انگریزی زبان میں سندھیالوجی کے نام شائع کرتا ہے۔ بھٹو نے 1975ء میں سرائیکی وسیب کو تین یونیورسٹیاں ملتان یونیورسٹی ملتان، جس کا بعد میں نام تبدیل کر کے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی اور جامع عباسیہ بہاولپور جس کا بعد میں نام تبدیل کر کے اسلامیہ یونیورسٹی رکھا گیا اور گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سرائیکی وسیب کو دی۔اس سے پہلے سرائیکی وسیب میں یونیورسٹی کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا اور اس کے بعد بھی عرصہ چالیس سال تک وسیب کو کوئی یونیورسٹی نہ دی گئی۔ مشرف اور نواز شریف دور میں خواتین یونیورسٹی، نشتر میڈیکل یونیورسٹی، غازی یونیورسٹی، خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی اور نواز شریف زرعی یونیورسٹی و نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی وسیب کو ملی تو ہیں مگر ان کی حالت اتنی کمزور ہے کہ ان کو یونیورسٹی کہنا شرمندگی کا باعث ہے۔ نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی ملتان تو ٹیکنیکل کالج ملتان کے دو کمروں میں کام کر رہی ہے۔ فنون لطیفہ کی ترویج اور ترقی کے لئے بھٹو نے 1973 ء میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کا ادارہ قائم کیا، تعلیم کے فروغ کے لئے بھٹو نے ایک بہت بڑا قدم اٹھایااور 1974ء میں قومی اسمبلی سے پیپلز اوپن یونیورسٹی کا ایکٹ پاس کرایا، یہ یونیورسٹی چاروں صوبوں کے لئے تھی، اس یونیورسٹی نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے اہم کارنامے سر انجام دیئے مگر 1977 ء میں بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو ضیا الحق نے 1978 ء میں پیپلز اوپن یونیورسٹی کا نام علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی رکھ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں مقتدرہ قومی زبان کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد انگریزی کی جگہ اردو کو دفتری زبان بنانا تھا، اس ادارے کو دفتری اصطلاحات اردو لغات، نصابی و درسی کتب، کتابیاتی جائزے، ذریعہ تعلیم و تدریس، سرکاری دفاتر و عدلیہ میں انگریزی کے متبادل اصطلاحات، رسم الخط و دیگر امور کے لئے کروڑوں کے فنڈز مہیا کئے، اب بھی یہ ادارہ کام کر رہا ہے اور اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود دفاتر و عدلیہ کے لئے انگریزی کے متبادل اصطلاحات تیار نہیں ہو سکیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید اردو بذات لشکری زبان ہے، اگر اتنا سرمایہ پاکستانی زبانوں پر خرچ کیا جاتا تو نتائج مختلف ہوتے۔ 30 دسمبر 1973 ء کو ایک صنعتی ادارہ پاکستان اسٹیل ملز اور 1972 ء میں بھٹو نے پاکستان براڈ کاسٹنگ کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ 1974ء میں پاک عرب ریفائنری بنائی گئی۔پنجاب کونسل آف آرٹس 1975 ء میں قائم ہوئی۔پاکستان نیشنل سنٹر کے نام سے 6 نومبر 1972 ء کو ایک ادارہ قائم کیا گیا اور پاکستان کے بہت سے اضلاع میں اس کے ریجنل آفس قائم ہوئے، اس ادارے کا مقصد تقریبات جن میں مختلف قومی امور پر سیمینار،مباحثے اور مذاکرے شامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے لوک ورثہ کے نام سے قومی ادارہ 1974 ء میں قائم کیا، جس کا مقصد پورے ملک میں مختلف ثقافتوں و تہذیبوں پر کام کرنا، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہوئی روایات، رسومات، مذہبی و سماجی اقدار، لوک کہانیاں، رومانوی قصے، بہادری کی داستانیں، فصلوں کے گیت، دریائوں سے منسوب داستانیں، شادی بیاہ کی رسوم، لوک تماشے، تھیٹر، سانگ، بہروپ، میلے، تہوار، ضرب الامثال، کہاوتیں، دستکاریاں، ہنرمندوں کے میلے اور اس طرح لوک ورثہ میں تمام پاکستانی ثقافتوں کے میوزیم اور بہت سے دوسرے امور شامل تھے۔ مگر افسوس کہ آج یہ عظیم ادارہ فنڈز کی کمی کے باعث اپنے فرائض منصبی سر انجام دینے سے قاصر ہے اور ادارے سے یہ شکوہ بھی ہے کہ لوک ورثہ میں دیگر ثقافتیں موجود ہیں. چترال، ہنزہ، براہوی و دیگر ثقافتوں کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور میوزیم بنائے گئے ہیں، اگر نہیں پاکستان کی سب سے قدیم ثقافت سرائیکی تہذیب نہیں ہے۔