یہ دنیا دائروں کی دنیا ہے۔ لکیر اور دائرے میں جو فرق ہے وہ بڑاواضح ق ہے۔ ایک نقطے کو دوسرے نقطے سے ملانے کے لئے لکیر کی ضرورت ہوتی ہے۔چاہے یہ لکیر دائیں سے بائیں ہو، اوپر سے نیچے کی طرف ہو یا آگے سے پیچھے کی طرف ہو۔ دائرہ چونکہ نقطوں سے بے نیاز ہو تاہے۔ اس لئے اُسے پورا کرنے کے لئے چکر کی ضرورت ہوتی ہے چکر کا آغاز اور اختتام نہیں ہوتا۔ چکر جاری رہتاہے البتہ کسی بھی دائرے کے چکروں کا ایک مرکز ضرور ہوتاہے جس کے گرد چکر لگتے رہتے ہیں۔ آئیے غور کرتے ہیں کہ یہ چکر کیا ہیں ۔ غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ساری زندگی ایک چکر ہے کبھی روٹی کپڑے مکان کے چکر، کبھی حُسن وعشق کے چکر ، کبھی خودی ، انا اور مکروفریب کے چکر، انسان نے جوسب سے عظیم چیز اب تک ایجاد کی ہے ،وہ پہیہ ہے۔ پہیہ انسانی عقل کی پہلی مادی تخلیق تھی۔ یعنی جب عقل نے مادے کا لباس پہنا اور ستر پوشی کی، پھر اس کے بعد آدمی نے مسلسل آگے بڑھنا شروع کیا ، گویا رفتار اُس کے ہاتھ آگئی اور وہ اُس پر چڑھ دوڑا ۔ سورج چاند ستارے خود زمین بھی ایک چکر ہی ہے جس سے ثابت ہوا کہ کائنات کے سارے سر بستہ راز کسی ناکسی دائرے کے اندر پوشیدہ ہیں ۔ بیج سے پودا نکلتا ہے ، پودے سے درخت اور درخت سے پھل ، پھل کے اندر بیج اور چکر مکمل ۔ سمندر ، جھیلوں اور دریائو ں سے بخارات اُٹھتے ہیں جو باد ل بناتے ہیں پھر بادل برستے ہیں اور پہاڑوں پر برف جماتے ہیں یہی برف پگھل پگھل کر دریائوں کو بھردیتی ہے جو سمندروں میںدوبارہ بخارات بننے کے لئے گرجاتے ہیں اور چکر مکمل ۔ سورج ،چاند اور کہکشائیں اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ دائروں کے اندر کی وسعتوں کا اندازہ صرف سائینسدان ہی لگاسکتے ہیں اس لئے کہ وہ جدید ترین دوربینوں کی مدد سے اُن لاتعداد پھیلتے ہوئے سیاروں کی لگاتار گردشوں کا مسلسل مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ ناصرف زمین سے کئی کئی گنا بڑے سیارے ہمہ وقت گردش میںہیں۔ ان دائروں کی ذمہ داریاں اُن پوشیدہ رازوں کواس طرح آشکارا کررہی ہیں تاکہ انسان قدرت کے ان اصولو ں اور قوائد وضوابط کو دریافت کرسکے جو اِس کائنات کو فتح کرنے کے لئے ضروری ہیں ۔ جو ں جوں انسان ان قوانین قدرت کے بارے میں آگاہ ہوتا رہا ہے نہ صرف اُس کی اُڑان نے حیرت زدہ کردیا ہے بلکہ اس کی ڈبکیوں نے بھی سمندروں کی تہوں سے وہ وہ خزانے ڈھونڈھ نکالے ہیں جن کا چند دہائیوں پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سمندر کی سطح لہروں کی حرکت سے ڈرونی لگتی ہے لیکن اس کی تہہ کا سکون ایک ایسی آبی حیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جس کی اقسام زمین پر بسنے والی مخلوق سے کئی گنا زیادہ اور حسین ہے اِس آبی حیات کے اپنے دائرے ہیں اور ان دائروں کی اپنی گردشیں ہیں ۔ دائروں کا خالق رب العالمین ہے۔ دائروں کا نظام اُس نے آدمی کے غور وفکر کے لئے وضع کیا ہے اِس غور وفکر کے ذریعے خالق ِکائنات نے آدمی کو تسخیرکائنات کے لئے آمادہ کیا ہے آدمی کا یہ غور وفکر ہی اُسے سیدھے راستے پر لگا سکتاہے ۔ اُسے رب کائنات کے وحدہ ہولاشریک ہونے کا یقین دلاتاہے ۔ تبھی تو فرمایا گیا ہے کہ ’’ ایک لمحے کا غوروفکر رات بھر کی عبادت سے بہترہے‘‘ کبھی غورہی نہیں کیا کہ دنیا کی کمزور ترین گھر والی مکڑی بھی اپنے اردگرد جالا بنتی ہے جو اُس کا دائرہ ہوتا۔ ہر آدمی زندگی دائروں کے حصار میںرہتا ہے ۔ پہلا دائرہ اُس کا گھر ہوتاہے۔ انہی دائروںکے باعث آدمی اندھا ، بہرہ اور گونگا رہتاہے آنکھیں ہوتے ہوئے اندھا، کان ہوتے ہوئے بہرہ اورزبان رکھتے ہوئے بھی گونگا رہتاہے کیا یہ دھوکہ نہیں ہے کہ ہم دیکھنے والے کو اندھا کہیں ، سننے والے کو بہرہ کہیں اور فرفر بولنے والے کو گونگا کہیں؟ یہ دھوکہ ہے بھی اور دھوکہ نہیںبھی ہے ۔ ہمارے آج کے دن کے میڈیا نے اِس بات کو ببانگ دہل سچ ثابت کردیا ہے کہ جو نظر آتاہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، جو سنایا جاتاہے وہ سچ بالکل بھی نہیں ہے اور جو بولا جاتا ہے اُس سے چپ رہنا اور خاموشی بدرجہا بہتر ہے ۔ مادے کا کم ترین ذرہ جو اٹیم کہلاتاہے اور ننگی آنکھ سے دیکھا بھی نہیںجاسکتا،اُس کے اندر بھی نیوٹرون اور پروٹون کے دائرے مسلسل گردش میںرہتے ہیں۔ مادے کی جو سطح ہمیںبظاہر ساقط نظر آتی ہے ،مسلسل چکر میںرہتی ہے ان چکروں میںرہتی ہے جو بالکل بھی نظر نہیںآتے۔ یعنی حرکت نے سکون کا لبادہ اوڑ ے رکھا ہے اسی کو دھوکہ کہا گیا ہے ہم اس دن رات کے سراب کو حقیقت سمجھتے ہوئے زندگی گزاردیتے ہیں اوراِن چکروں کے مرکز سے نا آشنا رہتے ہیں۔ کعبہ کا خدا انسان کو مسلسل دائرے کے اندر اُن چکروں کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کرتارہاہے ۔ آدمی کعبہ کے چکروں سے ناآشنائی کے باعث ہی زندگی کا دشمن ہے اور کشت وخون اور دنگا فساد میںہمہ وقت مصروف ۔ نہ صرف زندگی سے ناواقف ہے بلکہ موت سے ڈرتاہے اور موت کا ڈر زندگی سے نا وقفیت پر دلیل ہے۔ زندگی اور موت کا خالق کہتاہے کہ کائنات کو اُسکے اِذن سے پرکھو ناکہ اپنے گھمنڈ سے۔ اُس کے اذن اور آدمی گھمنڈ میںوہی فرق ہے جوچیونٹی کے ذریعے ہاتھی کی موت سے واضح ہوتاہے۔ یہی فر ق ہے حرام اور حلال میںانسان نے اپنے گھمنڈ سے ہزاروں سالوں میںاب تک صرف چاند اور مریخ تک رسائی حاصل کی ہے جبکہ اُس کے اِذن نے صرف ایک رات کے اندر اندر اپنے محبوبؐ کو ساری کائنا ت کے مشاہدے کرانے کے بعد اپنے بالمقابل لابٹھایا۔ اگر آدمی چاہتاہے کہ اپنے دائروں کی گرفت سے نکل آئے تو پھر اُسے دل و جان سے کعبہ کے دائرے میںآنا پڑے گا۔ اللہ اپنے دائرے کے اندر سے اُسے اُن لوگوں کا راستہ دکھائے گا جن پر نا کبھی غضب نازل ہوا اور ناہی کبھی وہ لوگ گمراہ ہوئے۔ آنکھیں اُسی صورت میںٹھیک ٹھیک دیکھ سکتی ہیں ،کان صاف صاف سن سکتے ہیں اور زبان فرفر بول سکتی ہے جب اِس بات کا یقین ہوجائے کہ ’’ جو منصف ہے وہ گواہ بھی ہے‘‘ جب تک ہم اپنے اپنے دائروں سے نکل کر حرم کے دائرے میںنہیں آئیں گے کوئی فلاح نہیں پاسکتے۔