پیدا ہوتے ہیں دادی نے کہا لو جی پہلے ہی بیٹی پیدا ہو گئی اب دیکھنا لڑکیوں کی لائن لگ جانی۔ باپ نے یہ سوچ کہ منہ پھیر لیا کہ بڑا بیٹا ہوتا تو میرا بوجھ بانٹتا اب زندگی کا انحصار اللہ کے بعد اس دنیا میں ماں کے کمزور کندھوں پہ تھا۔ زندگی آگے بڑھنے لگی سب پیار بھی کرنے لگے۔ اگلا بچہ بیٹا تھا تو سب کی بانچھیں کھل گئی باپ کے بڑھاپے کا سہارا ماں کا راج دلارا ددھیال کی نسلوں کا چلانے والا۔ باپ کی ادھوری محبت ماں کا مجبوریوں میں بٹا دلار۔ دونوں بچوں کو پال نہیں سکتی تو بیٹی ننھال کے سپرد۔ کبھی سوچا ہے کہ ننھال میں ان بچوں کی کیا وقعت ہوتی جنکے ماں باپ کسی بوجھ کی طرح اتار پھینکیں؟ گلے پڑا ڈھول جسکو بس بجانا ہے۔ خیر اگلی بہن اگلے بھائی آنے پہ ماں کو آیا چاہیے اس لیے اس موم کی گڑیا کو پانچ چھ سال کہ عمر میں ہی ماں بنا دیا جاتا ہے۔ ماں کا کام بس بچے جننا رہ جاتا ہے باقی ساری ذمہ داری اس کرم جلی کی جسکے نصیب میں مقررہ مدت تک دودھ بھی نہیں تھا. اپنی تعلیم کیساتھ گھر کے کام اور بہن بھائیوں کی استانی کا شرف بھی اسی بیٹی کو حاصل ہوتا ہے اور پھر چھوٹوں کی تعلیم اور ماں کی بیماری کے باعث کمزوری پہ تعلیم ادھوری چھوڑنے کا سہرا بھی اسی کے سر۔ محرومیوں کے دور میں حسرتیں سمیٹے برائے نام بچپن سے بڑھاپے میں قدم رکھنے والی بڑی بہن ہر رشتہ ہر خواہش ہر سکھ ادھورا لیے باقی سارے کام پورے کرنے کی جستجو میں زندگی کاٹ لیتی ہے۔ وہی بہن بھائی جس کیلئے اس نے ساری قربانیاں دی ہوتیں آخر ان پہ بوجھ کی طرح مسلط کبھی کوئی فیصلہ پورا نہیں کر پاتی کبھی تو سوچیں کہ جسکو آدھی بیٹی آدھی بہن مانا گیا پوری عورت کیسے بن سکتی ہے؟ (مصباح چوہدری پاکپتن )