اسی سوال سے منسلک کچھ اور سوال بھی ہیں ۔ پائلٹ ابھی نندن کی کسی انڈین ائیر بیس آفیسرز میس کی وہ ویڈیو یو ٹیوب پر موجود ہے جس میں وہ سخوئی جہاز کا پائلٹ بتایا جارہا ہے اور دوسرے پائلٹ کے ساتھ موجود ہے (واضح رہے کہ سخوئی میں دو پائلٹ بیٹھتے ہیں )۔کسی بھی اعلیٰ جہاز کے پائلٹ کی یہ تذلیل سمجھی جاتی ہے کہ اسے کم درجے کے جہاز کا پائلٹ بنا دیا جائے ۔ توچھٹا سوال یہ ہے کہ سخوئی کا یہ پائلٹ مگ 21 میں کیا کر رہا تھا ؟جبکہ انڈین ائیر فورس نے خود اعتراف کیا ہے کہ مڈھ بھیڑ کے لیے سخوئی جہاز بھی بھیجے گئے تھے۔اس کا ایک جواب یہ دیا جارہا ہے کہ ممکن ہے کہ ابھی نندن کا سخوئی جہاز اس وقت فٹ نہ ہو جو سخوئی جہازوں کا بڑا مسئلہ ہے ۔ ریٹائرڈ ائیر مارشل شاہد لطیف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کچھ سوالوں کے جواب دئیے ہیں۔ان کے مطابق پی اے ایف نے دو جہاز گرائے۔مقبوضہ کشمیر میں گرنے والا دوسرا جہاز یا سخوئی SU30MKI تھا یا میراج 2000۔یہ دونوں جہاز اعلیٰ درجے کے جہاز ہیں اور دونوں میںدو دو پائلٹ بیٹھتے ہیں۔ایف جے 17تھنڈر کی طرح یہ دونوں بھی(Beyond visual range)BVR میزائلوں سے مسلح ہیں ۔ لیکن ہندوستان نے اس جہاز کا اعتراف نہیں کیا ۔یہ بھی قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ جو تیسرا جہاز یعنی MIہیلی کاپٹر سری نگر کے قریب گرااور اس میں چھ افسروں کی ہلاکت بتائی گئی۔ سخوئی یا میراج کے دو پائلٹوں کو بھی اسی کھاتے میں ڈال کر معاملہ دبا دیا گیا۔ انڈین ائیر فورس نے شروع میں اپنے کسی بھی جہاز کے مار گرائے جانے کی خبر کو غلط قرار دیا لیکن شام تک وہ مجبور ہوگئے کہ کم از کم ایک مگ 21 کا اعتراف کرلیں۔تاہم دوسرے جہاز گرنے کا وہ ابھی تک اعتراف نہیں کرپائے۔پاکستان کا دعویٰ دو جہاز گرائے جانے کا ہے اور ویڈیو شواہد بھی تمام تر اسی کے حق میں ہیں۔یہاں ساتواں سوال یہ کہ ایک مگ 21 حسن صدیقی نے گرایا تو دوسرا مگ کس پائلٹ نے گرایا۔اس ہواباز کا نام کیوں نہیں آیا؟یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرا جہاز بھی حسن صدیقی ہی نے گرایا ہو۔بہرحال اس کی تصدیق ابھی باقی ہے۔ایک نکتہ یہ کہ ایف جے 17تھنڈر طیارے نے مگ گرایا تو یہ گویا اس پاکستانی ساختہ طیارے کا جنگی تاریخ میں پہلا شکار ہے۔کیوں کہ اس سے پہلے اسے اصل جنگ میں آزمایا نہیں جاسکا تھا۔ائر مارشل شاہد لطیف کے مطابق دوسرا جہاز ایک پاکستانی ونگ کمانڈر نے گرایا جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ قیاس آرائیوں میں جس میں فضائی ماہرین اور تجربہ کار لوگ شامل ہوتے ہیں ، کوئی قیاس ٹھیک بھی ہوسکتا ہے ۔ گرنے والا جہاز اگر سخوئی تھا۔ جو روسی ساختہ ہے تو اس کی وضاحت دونوں طرف سے نہ کرنا سمجھ آسکتا ہے۔ ہندوستان اپنی موجودہ شرمندگی میں اضافہ بھی نہیں کرسکتا اور اپنے مایۂ ناز جہاز سخوئی کے مار گرائے جانے سے ان جہازوں پر اعتماد خراب ہونے کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا۔ نیز اعتراف سے روس بھی ناراض ہوسکتا ہے۔ٹھیک یہی مسئلہ پاکستان کا بھی ہوسکتا ہے۔ روس ایف جے 17 تھنڈر طیاروں کا انجن چین کوفروخت کرتا ہے اور پھر یہ انجن پاکستان اور چین دونوں کے استعمال میں آتے ہیں ۔ پاکستان اس صورت حال کو خراب نہیں کرنا چاہتا اور روس سے حالیہ بہت اچھے تعلقات کو بھی بچانا چاہتا ہے ۔ لیکن اسی دن اسی وقت اور اسی علاقے میں انڈیا کا تیسرا جنگی طیارہ بھی گرا۔یہ MI چوپر ہیلی کاپٹر تھا جو سری نگر کے قریب یعنی باقی دو طیاروں سے تقریبا100کلو میٹر کے فاصلے پر گرا اور اس میں فضائیہ کے 6افسر ہلاک ہوئے۔پاک فوج نے اس کے گرنے کی تصدیق کی لیکن یہ کہا کہ یہ ہم نے نہیں گرایا۔بھارت نے گرنے کی وجہ تکنیکی خرابی بتائی۔لیکن آٹھواں سوال یہی ہے کہ عین اسی دن، اسی وقت اور اسی علاقے میں یہ کیسے ہوا۔کچھ جگہوں پر قیاس یہ کیا جارہا ہے کہ یہ بھی پاکستانی طیارے نے بھارتی لڑاکا طیارہ سمجھتے ہوئے میزائل سے گرایا۔ان میزائلوں کی مار 100کلومیٹر تک ہے۔تکنیکی خرابی کی بات محض فیس سیونگ محسوس ہوتی ہے۔شاہد لطیف کے مطابق یہ ہیلی کاپٹر انڈیا کی اپنی غلطی تھی جب انہوں نے اسے ریڈار پر دشمن کا طیارہ فرض کرتے ہوئے میزائل سے مار گرایا۔ پاکستان کی طرف سے ایف سولہ طیاروں کی اس آپریشن میں شرکت بھی نواں سوال ہے ۔پرویز مشرف دور میںکیے گئے معاہدے کے مطابق پاکستان ایف سولہ طیاروں کو ہندوستان کے خلاف استعمال نہیں کرسکتا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شرکت کی تردید ضروری سمجھی گئی ۔بھارتی افواج کی مشترکہ پریس کانفرنس میںایم ریم میزائل کا خول دکھایا گیا جس پر سیریل نمبر بھی موجود تھا۔یہ میزائل صرف ایف سولہ طیارہ فائر کرسکتا ہے ۔ یہ دکھانے کا مقصد یہی تھا کہ امریکہ کو پاکستان کے خلاف بھڑکایا جائے ۔ لیکن اس میزائل خول سے ایک دو نہایت دلچسپ سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ خول راجوری سیکٹر سے ملا ہے ۔ جبکہ اعتراف شدہ بھارتی مگ اس جگہ سے کافی دور پاکستانی سرحد کے پار گرا ہے ۔ ایم ریم میزائل کا خول صرف اسی وقت الگ ہوتا ہے جب میزائل نے اپنے ٹارگٹ کو ہٹ کیا ہو ، ورنہ بغیر پھٹے گر جاتا ہے ۔ تو دسواں سوال یہ ہے کہ وہ ٹارگٹ کون سا تھا جسے اس میزائل نے ہٹ کیا ؟مگ کو تو ایف جے تھنڈر نے گرایا تھا۔نیز اس خول سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی ایف سولہ نے کسی وقت کسی انڈین ٹارگٹ کو ہٹ کیا تھا۔لیکن اس آپریشن میں شریک ہونا ثابت نہیں ہوتا۔نیز اس سے ایف سولہ گرائے جانے کا بھارتی دعویٰ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ پی اے ایف نے بھارت کی طرف سے ایف۔سولہ گرائے جانے کے بھارتی دعوے کی پر اعتماد تردید کردی گئی۔آخر وہ جہاز کہاں اور کس علاقے میں گرا؟کیا دن کی روشنی اور آباد علاقوں کی موجودگی میں اتنے بڑے ملبے اور آگ کو چھپانا ممکن ہوسکتا تھا؟ پائلٹوں اور ان کی تعداد کا معاملہ گیارہواں سوال ہے مگ21کا ونگ کمانڈر ابھی نندن پکڑا گیا۔ دوسرے بھارتی جہاز کا ہواباز کہاں گیا؟ اور اگر جہاز سخوئی تھا تو دو ہواباز کہاں گئے؟ کیا وہ جہاز کے ساتھ ہی ختم ہوگئے؟ کئی ویڈیوز موجود ہیں جن کے مطابق عینی شاہدین نے تین پیراشوٹ دیکھے تھے۔تو کیا باقی دو بھارتی پائلٹ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے؟ یا اب تک کہیں روپوش ہیں۔یا صورت حال کچھ اور تھی؟