دریائے نیلم اور جہلم کے کنارے صدیوں سے آباد مظفرآباد شہر کے باسی سراپا احتجاج ہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں سے دریائے نیلم جو اس شہر کے قدرتی حسن اور زندگی کی ضمانت تھا نہ صرف خشک ہوگیا بلکہ ایک گندے نالے کی شکل دھارچکا ہے۔ رفتہ رفتہ تعفن اٹھ رہااور دریا کے کنارے کی آبادیوں کے لیے سانس لینا دشوار ہورہاہے۔پانی کا بحران سنگین شکل اختیار کرچکا ہے حتیٰ کہ لوگ جانور فروخت کرنے اور نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ واپڈا نے969میگاواٹ کا نیلم جہلم ہائیڈل منصوبہ لگ بھگ انتیس برس قبل 1989ء میں شروع کیا ۔چین کی تکنیکی اور مالیاتی اعانت سے دریا کا رخ موڑ کر اسے 68 کلومیڑ طویل سرنگ میں ڈال دیا گیا۔ جسے انجینئرنگ کا شہکار کہاجاسکتاہے۔ خدا خدا کرکے اس سال اپریل میں بجلی کی پیداوار شروع ہوئی ۔ملک میں لوڈشیڈنگ میں جو کمی نظرآتی ہے، اس میں نیلم جہلم منصوبے کا بڑا کردار ہے۔ بدقسمتی سے نیلم جہلم منصوبے کے آغاز کے چند ہفتوں بعد ہی سے مظفرآباد شہر میں پانی کے بحران اور جنگلی حیات کے تباہ ہونے کا سنگین خطرہ پیدا ہوگیا۔چنانچہ تمام سیاسی جماعتیں، حکومت اور سماجی تنظیمیں اس مسئلہ پر یک زبان ہیں ۔وہ چاہتی ہیں کہ دریائے نیلم میں کم ازکم اتنا پانی ضرور بہنا چاہیے کہ وہ نالہ بننے سے بچارہے۔ حکومت آزادکشمیر اور واپڈا کے مابین ابھی تک نیلم جہلم منصوبے پر کوئی باقاعدہ معاہد ہ طے نہیں پاسکا۔ اس کے باوجود واپڈا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دریا میں اتنا پانی چھوڑے گا کہ یہ بہتا رہے گا، شہریوں کو تکلیف نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں یہ بھی طے پایا تھا کہ مظفرآباد کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے چار جھیلیں بنائی جائیں گی ۔شہر کو پانی کی فراہمی کے لیے نوسیری سے‘ جہاں سے دریا کا رخ موڑا گیا ‘ایک خصوصی پائپ لائن سے مظفرآباد کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے گا۔ ان دنوں مظفرآباد کے بہت سارے نوجوان سماجی کارکن آصف رضا میر کی قیادت میں ماحولیاتی آلودگی اور دریا خشک ہونے کامعاملہ اٹھاتے تو سرکاری افسر کہتے کہ یہ این جی اوز والے قومی منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایسے شوشے چھوڑتے ہیں۔سرکای افسر وں نے لوگوں کو مطمئن کیا کہ دریا کا رخ موڑنے سے مظفرآباد میں پانی کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا ۔ کئی لوگ میری طرح کے ان کے بہکاوئے میں آگئے۔ افسوس! وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا، والی کیفیت واپڈا حکام کی ہے۔انہیں منصوبہ مکمل کرنے اور نیشنل گریڈ میں بجلی کی سپلائی رواں کرنے سے غرض تھی ۔انہوں نے اپنا ہدف حاصل کیا اور چلتے بنے۔ جھیلیں بنیں اور نہ دریا میں حسب وعدہ پانی چھوڑا جارہاہے۔ نیلم جوہڑ بن چکا ہے۔ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے اسے نالہ لئی قراردیا ۔ حکومت حیران اورپریشان ہے :جائے رفتن نہ پائے ماندن۔نون لیگ کے وزیر تعلیم اور مظفرآباد شہر کے رکن اسمبلی افتخارگیلانی نے دبنگ اعلان کیا:واپڈا نے نیلم جہلم ہائیڈل منصوبے میں کشمیریوں کے ساتھ دھوکہ کیا۔ مظفرآباد میں انسانی اور جنگلی حیات تباہی کے دہانے پر ہے۔ حکومت کوہالہ منصوبہ پر کام کی اجازت نہیں دے گی۔آزادکشمیر اسمبلی میں بھی اس ایشو پر زبردست لے دے ہوئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ احتجاج اور حکومت کی تنبیہہ کے باوجود واپڈا نے 1124میگاواٹ کے کوہالہ منصوبے پر نہ صرف کام شروع کردیا بلکہ اس کی افتتاحی تقریب میںحکومت آزادکشمیر کو مدعو کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ مظفرآباد کے احتجاج کو نظرانداز کرنا اور نئے منصوبوں پر تعمیراتی سرگرمیوں کا آغاز اس خطے میں ایک نئی بحث اور سیاسی محاذآرائی کا سبب بن رہاہے۔ واپڈا کو نئے منصوبوں پر کام شروع کرنے سے پہلے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنا چاہیے تھا تاکہ اگلے منصوبوں پر تعمیراتی کام میں حکومت اور مقامی شہری مددگار ہوتے نہ کہ وہ مزاحمت کار کا کردار ادا کرتے۔ واپڈا حکام زیادہ تر من مانے طریقے سے اس خطے میں تعمیراتی سرگرمیاں کرتے ہیں ۔ مقامی منتخب حکومت اور انتظامیہ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ چنانچہ ان کے خلاف رائے عامہ اور سرکاری سطح پر زبردست تلخی اور بیزاری پائی جاتی ہے۔ابھی تک آزادکشمیر کا واپڈا کے ساتھ تجربہ خوشگوار نہیں رہا۔ منگلا ڈیم کی ا پ ریزنگ کردی لیکن اس کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہوئے انہیں بیچ چوراہے میں چھوڑ کر واپڈا افسران منظر سے غائب ہوگئے۔یہی کام انہوں نے نیلم جہلم منصوبے میں بھی کیا۔ ڈیم بنانا ہویاکوئی سرنگ کھودنی ہوتو واپڈا والے کہتے ہیں کہ یہ علاقہ ہمار احصہ ہے۔ باقاعدہ معاہدہ اور مالیاتی امور پر حساب کتاب کا مطالبہ کیاجائے تو عذر تراشتے ہیں کہ یہ علاقہ آئین کے تحت پاکستان کا حصہ نہیں لہٰذا آپ کو خیبرپختون خوا یا پنجاب کے برابر رائیلٹی نہیں دی جاسکتی۔تھوڑی بہت رقم واٹر یوزرچارجز کے نام پر لے لیں۔لوڈشیڈنگ سے مشتنیٰ کرنے یا کمی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو آزادکشمیر کو دیہی علاقہ قراردے کر جان چھڑالی جاتی ہے۔ ڈھائی تین سو میگاواٹ بجلی واپس کرنے کے مطالبے پر سنی ان سنی کردی جاتی ہے۔واپڈا کی زنبیل میں ٹرخانے کے ایک سو ایک مجرب نسخے ہیں ۔ رائے عامہ کو نظرانداز کرنا او رمقامی حکومت کو خاک چاٹنے پر مجبور کر نا کوئی کامیاب حکمت عملی نہیں۔ یہ طرز عمل پن بجلی پیدا کرنے کے دیگر منصوبوں کے مستقبل کو بھی خطرہ میںڈالنے کا باعث بن سکتاہے۔ نیلم جہلم ا ورکوہالہ کے علاوہ جاگراں ٹو 48، نگدر دیواریاں 48 ، پٹرنڈا 148 اورسات سو میگاواٹ کا آزادپتن منصوبہ پر کام ہورہا ہے۔ علاوہ ازیں دودھنیال اور مال ہائیڈل پاور پراجیکٹ پر بھی ابتدائی کام جاری ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے بعد نیشنل گریڈ میں پانچ سے چھ ہزار میگاواٹ بجلی جائے گی۔ اس قدر عظیم الشان منصوبوں اورقدرتی وسائل سے مالا مال خطے کے لوگوں اور حکومت کا خصوصی خیال رکھاجانا چاہیے، انہیں قومی دھارے سے نکالنے کی کوشش واپڈا حکام کو زیب نہیں دیتی۔راجہ فاروق حیدر کا کہنا ہے کہ آزادکشمیر کو انڈس ریورسسٹم(ارسا )میں بھی نمائندگی دی جائے تاکہ وہ واپڈا کے ساتھ اپنے مسائل اعلیٰ سطحی فورم پر طے کراسکیں۔ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن میں تھے تو جلد غصے میں آجاتے اور مخالفین کی خوب بھد اڑاتے ۔ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر بھی تیز وطرار مزاج کی شخصیت ہیں۔ دونوں کے درمیان ہونے والی تلخی کئی دنوں تک قومی میڈیا کی زینت بنی رہی ۔ اب عمران خان وزیراعظم ہیں وہ محض تحریک انصاف کے سربراہ نہیں۔ ذاتی تلخیوں سے اوپر اٹھ کر انہیں راجہ فاروق حیدر سے ملاقات کرنی چاہیے۔ ستر برس کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسلام آباد میں نئی حکومت قائم ہو اور وزیراعظم سے آزادکشمیر کی منتخب لیڈرشپ نے کرٹسی کال نہ کی ہو۔ یہ دستور زمانہ ہے اور روایت بھی۔اب برف پگھل جانی چاہیے۔ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کو بھی مدعو کیا جانا چاہیے اور وفاقی حکومت کی طرف سے تعاون کی یقین دہانی کرائی جانی چاہیے۔پارٹی اور امور مملکت چلانے میں فرق یہ ہے کہ آپ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرسکتے۔ یہ کرسی انصاف اور عدل کی ہے انتقام اور ناراضی کی نہیں۔