مجھ کو اچھی نہیں لگتیں یہ شعوری باتیں ہائے بچپن کا زمانہ وہ ادھوری باتیں تجھ سے ملنا بھی بہت کام ہوا کرتا تھا روز ہوتی تھیں ترے ساتھ ضروری باتیں آج اخبار کی پیشانی کے ساتھ ایک خبر دیکھ کر کہ سینٹ الیکشن کے لئے لوگ اسلام آباد میں نوٹوں سے بھرے بیگز لے کر بیٹھے ہیں طبعیت اوبھ سی گئی ہے۔ سچی بات ہے منڈی مویشیاں سے بھی زیادہ عجیب منظر ذہن میں آتا ہے اسی لئے میں نے مندرجہ بالا شعر لکھ کر بچپن میں پناہ لینے کی کوشش کی کہ اب ہمارا یہ شعور ہمیں کس مقام پر لے آیا ہے۔ ہمارا آئیڈیل بچپن غرفۂ ماضی سے جھانکتا ہے۔ کیا یہ لوگ اتنے گر گئے ہیں کہ اپنا خاندانی یا شخصی وقار بھلا کر بکنے کے لئے جا بیٹھے ہیں۔ یہاں بکنے کو سب تیار بیٹھے ہیں۔ یہ تلخی اور کڑواہٹ روح کو اذیت پہنچا رہی ہے۔ خان صاحب بجا فرما رہے ہیں کہ وہ کسی کو سینٹ الیکشن چرانے نہیں دیں گے۔ جناب جب آپ نے زرداری صاحب کے ساتھ مل کر یہ کام کیا تھا تو اس وقت آپ خاموش کیوں تھے اور دوسری بات یہ کہ یہ جو پچاس پچاس کروڑ کا ترقیاتی فنڈ کا اعلان ہوا اور تیسری بات یہ کہ اب شو آف ہینڈ اس لئے چاہتے ہیں کہ جو ہاتھ غلط اٹھے گا کاٹ دیا جائے گا۔ ہائے ہائے فیض صاحب یاد آئے: جن کا دین پیروی کذب وریا ہے ان کو ہمت کفرملے جرات تحقیق ملے جن کے سر منتظر تیغ حق ہیں ان کو دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے کوئی اس کفر پر نہ جائے کہ یہ ظلم سے انکار ہے اور پھر فیض صاحب تو دعوت دعا دیتے ہیں۔ تو ہم نفسو بات واقعتاً دعا تک آ گئی ہے اور دعا بھی دل سے کہ دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں۔ نظام میں رہ کر اسی نظام کو بدلنا چہ معنی وارد خان صاحب نے کیسی پتے کی بات کہی کہ بدقسمتی ہے کہ نااہل بھی الیکشن لڑ رہا ہے۔ جی درست ایک بار پھر کہیے کہ نااہل الیکشن لڑ رہا ہے۔ نااہل وہ ہوتا ہے جسے آئین نااہل کہے یا قانون نااہل بتائے۔ہم صرف فیصل واوڈا ہی کی بات کر لیتے ہیں جنہوں نے صریحاً حلفیہ بیان میں سچ چھپا اور ان کی دہری شہریت سامنے آ گئی اور پھر وہ عدالت میں پیش بھی نہیں ہوئے۔ کہیے اب آپ کیا کہیں گے۔ کیا نااہل صرف اپوزیشن ہی کے ہوتے ہیںیا اپنے حکومت کے بھی۔ اگر اقامہ چھپانے پر وزارت عظمیٰ جا سکتی ہے تو پھر کوئی اور کیوں اس زد میں نہیں آتا۔ کبھی اس دوزخ میں آنے والوں کی پیاس اور بھوک ذھن میں آتی ہے کہ وہ سمندر بھی پی جائیں گے تو پیاس ختم نہیں ہو گی بس اللہ سے معافی طلب کرتے رہیں گے کہ اللہ امتحان سے بچائے ایسے استاد ابراہم ذوق کا لازوال شعر ذھن میں آ گیا: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے اب تو خیر مرنا ویسے ہی بھولا ہوا ہے آسائشیں بند ے کو واقعتاً غافل کر دیتی ہیں۔ لاریب یہ کتنا بڑا سچ کہ انہیں کثرت نے ہلاکت میں ڈال دیا حتیٰ کہ قبریں جا دیکھیں۔ میں کوئی ناصح نہیں اور نہ کوئی مبلغ ہوں ایک گنہگار شخص ہوں دنیادار کمتر اور عامی۔ مگر یار حرص و ہوس کی بھی آخر کوئی حد ہوتی ہے آپ دیکھتے نہیں کہ ہر طرف ایک بے برکتی ہے ۔ آصف شفیع کا تازہ شعر بھی شاید اسی طرف اشارہ کرتا ہے:جب خدا ہی نہ سن رہا ہو جہاں/پھر کہاں کی اماں کہاں کی خیر۔ چھوٹی چھوٹی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے ابھی فروری 16میں لاہور کو دنیا بھر کے آلودہ ترین شہروں میں دوسرے نمبر پر قرار دیا گیا ہے اور ہم اس پر خوش ہیں کہ دہلی پہلے نمبر پر آیا ہے۔ ادھر ہمارے عثمان بزدار صاحب فرماتے ہیں کہ وہ ون میں شو کے قائل نہیں مگر یہاں کچھ بھی شو نہیں ہو رہا۔ گندگی کے ڈھیر لگ چکے ہیں ترک کمپنی کے ساتھ جو ہم نے کیا وہ بھی سب کو معلوم ہے شہباز شریف کو ون مین شو کا طعنہ دے کر یا شو باز کہہ کر کام نہیں چلے گا سمجھ میں نہیں آتا کہ اڑھائی سال کے بعد بھی پی ٹی آئی کا ’گا،گے، گی۔چل رہا ہے اور وہ پانچ سال کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ خواہش ان کی شاید یہ ہے کہ حکومت تاحیات ان کو مل جائے مگر حیات تو کام کرنے والے کو ملتی ہے کسی کا جعلی راجکماری کہنے سے بھی کچھ حاصل نہیں راجکماری ہونا کوئی ذاتی فعل تو نہیں ہے آپ عوامی کام کریں اور پھر جس کو لوگ چاہیں۔ جب وہ بددعائیں دینے لگیں تو سوچنا پڑے گا: جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے۔ اب ایک اہل پیش رفت ایجوکیشن میں نظر آئی تو اس کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ کم از کم اس کی تو داد دی جائے کہ دفتروں میں حاضری کی پابندی ہوئی ہے غالباً تمام سرکاری دفاتر میں ایسا ہی ہے ابھی کل ہی اسلامیہ کالج سول لائنز کے انگریزی شعبہ کے صدر عمر الدین صاحب کا فون آیا۔ وہ میرے بیٹے کی غیر حاضری کی شکایت کر رہے تھے اچھا لگا کہ اگر استاد واقعتاً بچوں کے والدین کے ساتھ رابطے میں رہیں اور اپنی ذمہ داریوں کی طرف راغب ہوں تو بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے۔ اس بات پر میں ابھی تک مطمئن نہیں ہو سکا کہ سکولوں میں ایک دن چھوڑ کر ایک دن پڑھائی کیوں۔ بچوں کو روز سکولوں میں جانا چاہیے اللہ کرم کرے گا۔ باہر کی ساری رپورٹوں میں بچے کورونا سے محفوظ ہیں۔ آپ حفاظتی اقدامات کروائیں مگر بچوں کو تسلسل کے ساتھ پڑھنے دیں۔ لکھنے کا مقصد وطن عزیز میں بہتری لانے کے لئے ایک دوسرے کو انگیخت لگانا ہے۔کالم ختم کیا تھا کہ مشاہد اللہ خاں کی رحلت کا پتہ چلا تو میں اداس سا ہو گیا۔ ان کی گفتگو کان میں رس گھولنے لگی کہ شعر و ادب سے وہ بات کو سنوارتے تھے انتہائی تہذیب یافتہ اور شائستہ مگر حاضر جواب۔ اللہ ان کا مغفرت فرمائے۔ مجید امجد کا شعر: کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد تری لحد پہ کھیلیں جاوداں گلاب کے پھول