دہشت گردی کے پیچھے ایک گہری سازش ہے۔ جس کا ایک ہی مقصد ہے کہ ڈی آئی خان، ٹانک کے مقامی لوگوں بکو مجبور کر دیا جائے کہ وہ نقل مکانی کر جائیں اور دریائے سندھ کے اس ذرخیز خطے پر باہر سے آنیوالے لوگوں کا قبضہ ہو جائے۔ میں بار بار لکھتا آرہا ہوں کہ ان علاقوں کے مسائل پر توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان اضلاع کے لوگوں کو صوبائی حکومت سے بہت سی شکایات ہیں اور لوگوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم شہبا زشریف پچھلے دنوں ڈی آئی خان گئے، یہ دورہ سیلاب متاثرین کیلئے تھا۔ ایک دورہ امن و امان کے حوالے سے بھی ہونا چاہئے اور مقامی لوگوں کی مشکلات کے حوالے سے بھی ہونا چاہئے اور اس پر بھی غور ہونا چاہئے کہ یہاں سے لوگ نقل مکانی پر کیوں مجبور ہوئے؟ یہ ایک ایسا المیہ ہے جسے کوئی بیان نہیں کرتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ مقتدر قوتوں و دیگر کو ان لوگوں کے مسئلے پر غور کرنا چاہئے کہ یہ بھی پاکستان کا قومی مسئلہ ہے۔ صوبائی حد بندیوں میں ڈی آئی خان، ٹانک اور بنوں وغیرہ کو ناجائز طور پر انگریز نے صوبہ سرحد کا حصہ بنایا تھا۔ اب ڈی آئی خان، ٹانک کو مجوزہ سرائیکی صوبے کا حصہ ہونا چاہئے کہ تاریخی،جغرافیائی اور ثقافتی طور پر ڈیرہ اسماعیل خان ایک شہر یا ایک ڈویژن نہیں بلکہ بہت بڑے وسیب کا نام ہے۔وطن عزیز پاکستان میں اس کے تہذیبی،ثقافتی،لسانی اثرات اور رابطے بہت گہرے اور وسیع ہیں۔یہ خطہ ایک طرف خیبر دوسری طرف قندھار تیسری طرف مکران اور چوتھی طرف اپنے عظیم خطے سرائیکستان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ ڈیرہ دیو مالائی فرضی کہانیوں کی سر زمین نہیں،یہ خانہ بدوش پکھی واسوں کا خطہ بھی نہیں، یہ ایسی سر زمین ہے جو صدیوں سے تہذیب و ثقافت کا گہوارہ رہی ہے،جہاں پتھر نہیں پھول اگتے رہے ہیں اور جہاں نفرت کی ندیوں کی بجائے محبتوں کے دریا بہتے ہیں۔یہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی سرزمین بھی نہیں یہ ایسی بہشت ارضی ہے جہاں کی ہر نعمت دائمی ہے اور جہاں کے لوگوں کے اندر بے پناہ صلاحتیں پوشیدہ ہیں،بس ہمت،جرات اور حوصلے کی ضرورت ہے۔آج کے پر آ شوب دور میں سوچ کے دریچوں پر دستک دیتی حساس موضوعات پر مبنی تحریروں سے سجی یہ باتیں عباس سیال کی کتاب ڈیرہ مکھ سرائیکستان میں شامل ہیں کتاب کے مطالعے سے ڈیرہ اسماعیل خان کے بارے بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے۔ سرزمین ڈیرہ عہد قدیم میں،دریائے ہاکڑہ،سُچے دیرے وال،سیال محبتیں،تھلہ بالو رام،شاہ دریا ے بیٹے،آچنْوں رل یار وغیرہ اور کتاب میں شامل کئی دوسرے مضامین اپنی افادیت اور اہمیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ عباس سیال کی زیر نظر کتاب ڈیرہ اسماعیل خان سمیت کا نہ صرف نیا ورشن اور نیا درشن ہے بلکہ یہ سرائیکی وسیب کے وہ دکھ ہیں جو اُن کے قلم سے تخلیق پا گئے ہیں۔کتاب میں مضامین اور ان کے اسلوب کا مفہوم بتا رہا ہے کہ صدیوں بعد یہ وقت آیا ہے کہ غاصبوں کو نہ صرف ان کی نیتوں سمیت ڈ یرہ دیکھ رہا ہے بلکہ ان کے سینوں کے اندر چھپے آئندہ کے غاصبانہ ارادوں کو بھی پہچان رہا ہے۔ ڈیرہ مُکھ سرائیکستان میں ایک مضمون ’’ڈیرہ اسماعیل خان مرحوم‘‘ کے نام سے بھی ہے جسے پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں مصنف نہیں بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان خود بول رہا ہے۔ اس مضمون میںڈیرہ کی پیدائش 1469 ء سے تاریخ اغوا 1901ء تک کے حالات کو پوری سچائی اور درد مندی سے بیان کیا گیا ہے۔کوئی دوست یہ نہ سمجھے کہ ’’مرحوم‘‘ ڈیرے کو قرار دیا گیا ہے دراصل ’’اشارہ‘‘ سرائیکی قوم کی محرومیوں اور مرحومیوں کی طرف ہے۔ اشارے سے بات سمجھنے والے وہ دیدہ ور ہوتے ہیں، عباس سیال کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے،بہر حال! میں یہ عرض کر رہا تھا کہ مضمون نگار نے اپنی زبان میں (مرحوم) اسماعیل خان کی اپنے وسیب سے بات کرائی ہے،دیرہ اسماعیل خان کہتا ہے:۔ ’’خان اسماعیل خان نے بڑے چائو اور بڑے ارمانوں سے میرا نام ڈیرہ اسماعیل خان رکھا۔مجھے سندھ کنارے بسایا گیا،لاڈ پیار سے میری پرورش کی گئی،مجھے ڈیرہ پھلاں دا سہرہ کہا گیا۔میری خوشی اور خوشحالی کے قصے عام ہوئے۔تہذیبی،تمدنی،جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے میں سرائیکی وسیب کا فطری حصہ تھا۔ تہذیب و تمدن سے عاری اجڈ خانہ بدوشوں، سفاک تا تاریوں، افغانیوں اور دوسرے حملہ آوروں نے مجھے بار بار لوٹا اور بر باد کیا۔ سندھ کی بے رحم طوفانی موجوں نے مجھے کئی بار صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی مگر میں ہر بار پھر نئی زندگی لیکر دنیا کے سامنے اُبھرتا رہا ہوں، آخر 9نومبر 1901ء کوسفاک فرنگیوں نے مجھے اپنے وطن ملتان سے الگ کر کے ’’تخت پشور‘‘ کا قیدی بنا ڈالا‘‘۔ اس دھرتی پر جب 1901ء میں قبضہ ہوا تو اس کے بیٹے ظلم کے خلاف چیختے چلاتے لڑتے جھگڑتے رہے ان کا خون کھولتا رہااحتجاج ہوا،ہڑتالیں ہوئیں مگر ان کی کسی نے نہ سنی انگریز سامراج وسیب کی قربانی سے پشتونوں کو خوش کر نا چاہتا تھا،ا س پر بھی ڈیرہ آج تک خون کے آنسو رو رہا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ہندوئوں کے چلے جانے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے مسلمانوں نے سیاسی مصلحتوں کی چادر اوڑ ھ لیں۔بہت سے تو اپنی قومیں اور ذاتیں تبدیل کرتے نظر آئے،وہ تخت پشور کی غلامی میں چلے گئے،اقتدار کی کرسی اور اقتدار کے دولت کدے ان کے ’’مائی لارڈز‘‘ اور مائی باپ بن گئے۔ڈیرے کی سر زمین،ڈیرے کی تہذیب و تمدن،ثقافت اور اس کی میٹھی بولی انہیں بھول گئی۔آج ڈیرے اور وسیب میں جتنے بھی عذاب نازل ہو رہے ہیں وہ اسی غداری کا نتیجہ ہیں،کان نہ ہوں کانوں میں انگلیاں ڈالی گئی ہوں، کوئی نہ سن سکے تو الگ بات ہے۔