پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورز ی پر ، 2بھارتی طیاروں کو مار گرانے والے، پاک فضائیہ کے بہادر پائلٹ ،سکوارڈن لیڈر حسن صدیقی۔۔۔ہمارا قومی ہیرو، جس کا چمکتا چہرہ اور روشن پیشانی ،اس کی مضبوط قوی ارادی اور بلند ہمتی کی غماز ہے۔ عجب حُسنِ اتفاق کہ "صدیقی "نسبت کے حامل اور عزم ویقین سے لبریز پاک فضائیہ کے اس جواں سال افسر نے یہ کارنامہ ایک ایسے دن سرانجام دیا ، جب پاکستان سمیت بلادِ اسلامیہ ، خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے یوم " 22جمادی الثانی "کی مناسبت سے آپ کی گراں قدر خدمات کو خراجِ تحسین پیش کررہی تھی ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا تعلق قریش کے قبیلے بنو تیم سے تھا اور آپؓ کا شجرہ نسب سات واسطو ں سے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ملتا ہے ، قریش ، عرب کاسب سے عالی مرتبت خاندان ۔۔۔کہ جس کی جوانمردی ، بہادری ،شجاعت اور دلیری دنیا میں ضرب المثل تھی ، "عزم صدیقی ؓ "اسلامی تاریخ کا زرّیں باب ہے ،کہ جب اُمّت ایک طرف نبی اکرم ﷺ کی جدائی کے صدمے سے نڈھال تھی ، اور دوسری طرف فتنوں کا دروازہ کھل گیا ،تو ایسے نامساعد حالات اور مشکل مراحل میں حوصلہ مند، پُر عزم اور ثابت قدم رہنے والی شخصیت کا نام سیّدنا صدیق اکبر ؓ ہے ،جنہوں نے فرمایا :ـ"اللہ کی قسم ! جو صلوٰۃ اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا، میں اُ س سے ضرور قتال کروں گا ،زکوٰۃ مال کاحق ہے ،اگر یہ زکوٰۃ میں رسول اللہ ﷺ کو بھیڑ کا بچہ بھی دیتے تھے اور اب مجھے نہیں دیں گے ،تو میںاس پر بھی ان سے قتال کرو ں گا ۔"آپ ؓنے مزید فرمایا: "وحی بندہوچکی ،دین پورا ہوچکا ، اب دین میں کمی ہو اور میں زندہ رہوں ؟"یہ نہیں ہوسکتا ۔ عمرؒ فرماتے تھے :"اللہ کی قسم! ابوبکر ؓ کا یہ عزم دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ نے قتال کے معاملے میں ابوبکرؓ کو شرحِ صدر فرمایا دیا ہے اور انہیں کی رائے حق ہے "۔ صدیقی نسب اور نسبت کے حامل، حسن صدیقی میں بھی "عزم و شجاعتِ صدیقیؓ "کی جھلک ۔۔۔ ایک فطری بات ہے، کہ عربی کا مقولہ ہے "الولدُ سِر لابیہ" ، اور بقولِ شاعر: باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر اَزبر ہو پھر پسر لائق میراثِ پدر کیونکر ہو بلاشبہ اسلام امن اور سلامتی کا دین اور "پُر امن بقائے باہمی "کا خواہاں ہے ، از خود جنگ کی ابتدا سے اِعراض اور اس کی تمنا کرنے سے روکتا ہے، مگر جب لڑائی مسلط ہو تو پھر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔ہجرت کے نویں سال قبلہ اِ زد کاوفد بار گاہِ نبوت میں حاضر ہوا ، حضور ﷺ ان کی وضع وقطع اور پاکبازی دیکھ کر خوش ہوئے ، آپ ﷺ نے پوچھا تم کون ہو، انہوں نے کہا: ہم ایماندار قوم ہیں ،نبی اکرم ﷺ ان کا جواب سُن کر مسکرائے اور اُن سے دریافت کیا کہ ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے اس قول کی کیا حقیقت ہے ؟انہوں نے کہا کہ ہمارے قول اور ایمان کی حقیقت وہ پندرہ خصلتیں ہیں ، جن پر ہم عمل پیرا ہیں۔ ان پندرہ خصلتوں میں پانچ ایمانیات پر مبنی ہیں ،جو ہمیں آپ کے قاصدوں نے سکھائی ہیں ، پانچ وہ ہیں جو براہِ راست آپﷺ سے سیکھی ہیں ،جو اسلام کے بارے میں ہیں اور پانچ وہ ہیں ،جن پر ہم زمانۂ جاہلیت ہی سے عمل پیر اہیں ، حضور ﷺ نے فرمایا ۔ وہ کون سی ہیں ،انہوں نے عرض کی :خوشحالی کے زمانے میں اللہ کا شکر ادا کرنا ، مصیبت میں صبر کا دامن مضبوطی سے پکرنا ،اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہنا، دشمن سے مقابلہ کرتے وقت ثابت قدم رہنا اور دشمن کو اس کی مصیبت میں مطعون ( یعنی لعن وعن ) نہ کرنا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : یہ بڑے دانشمند عالم ہیں ۔ پھر فرمایا، میںپانچ خصلتوں اور خوبیوں کا ان میں مزید اضافہ کرتا ہوں، تاکہ ان کی تعداد بیس ہو جائے : "ان اشیاء خوردنی کے ڈھیر نہ لگائو جنہیں تم کھائو گے نہیں ۔بغیرضرورت کے ایسے مکانات تعمیر نہ کرو جن میں تم نے سکونت پذیر نہیں ہونا ۔ایسی چیز کے حصول میں سبقت نہ لے جائو، جس سے کل تمہیں دستبردار ہونا ہے۔اس اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم نے لوٹ کر جانا ہے اوراس چیز میں رغبت کرو جہاں تم نے جانا ہے اوروہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ ـ" بلاشبہ ، رسول رحمت ،نبی مکرم ﷺنے بلاوجہ دشمن سے مقابلہ کی تمنا کرنے سے منع فرمایا، جب دشمن سے مقابلہ ہوجائے تو پھر ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمائی ہے ۔ اسی مضمون کی ایک حدیث جو صحیح مسلم کے کتاب الجہاد میں ہے ، کہ جن دنوں رسول اللہﷺ کا دشمنوں سے مقابلہ ہوا ، تو آپ ﷺ نے انتظار کیا حتی کہ سورج ڈھل گیا ،پھر آپ ﷺ نے صحابہؓ میں کھڑے ہو کر فرمایا ، اے لوگو! دشمن سے مقابلہ کی تمنا مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرو، اور جب تمہار ادشمن سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور پھر فرمایا :اِنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ ،اور یاد رکھو جنت تلواروں کے سائے میں ہے ۔ اور پھر نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہو کر دُعا کی! اے اللہ! اے کتاب کے نازل فرمانے والے ،اے بادلوں کو چلانے والے ، اے لشکروں کو شکست دینے والے ، ان کو شکست اور ہم کو ان پر غالب کردے ۔ ہندوستان کی اشتعال انگیزی کا منہ توڑ جواب دینے کے بعد ، وزیر اعظم پاکستان نے مفاہمت ، امن ، حکمت اور حقیقت پسندی پر مبنی،جو مختصر مگر جامع تقریر کی، دنیا بھر میں اس کی پذیرائی ایک فطری سی بات ہے۔۔۔ کہ ایسے موقعوں پر لب ولہجہ اکثر اخلاقی حدود پامال کر جایاکرتے ہیں۔ لیکن ہمارے دین نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ ایسی برتری اور فتح مندی پر اِترانا کہیں تکبر اور نخوت کی صورت اختیار نہ کر جائے ۔ وزیر اعظم پاکستان کا یہ کہنا بجا ہے کہ بھارتی جارحیت کے بعد،جواب دینا ہماری مجبور ی تھی اور اس کا مقصد اپنی صلاحیت بتانا تھا ،کوئی بھی خود مختار ملک اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی ان کی حدود میں آکر کارروائی کرے ۔۔۔ انہوں نے کہا دُنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں سب میں غلط اندازے لگائے گئے اور کسی نے بھی یہ نہ سوچا کہ جنگ کدھر جائے گی ،پہلی جنگِ عظیم جسے چھ ماہ میں ختم ہونا تھا ، اس کے خاتمے میں چھ سال لگ گئے ،دوسری جنگ میں ہٹلر نے سوچا روس کو فتح کر لوں گا ، ویت نام جنگ میں بھی غلط اندازے لگائے گئے ، دہشت گردی کی جنگ میں کیا امریکہ نے سوچا تھا کہ وہ افغانستان میں سترہ سال تک پھنسا رہے گا ،تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگوں میںغلط اندازے لگائے جاتے ہیں ۔انہوں نے بھارت سے ایک بار پھر کہا کہ پلوامہ حملے کی تحقیقات میں تعاون پر تیار ہیں ،آئیں مذاکرات سے مسائل حل کر تے ہیں ۔