سندھ میں پیپلز پارٹی دس برسوں تک اقتداری عیاشی کرنے کے بعد اس پاور سے الگ ہونے کی تیاری کر رہی ہے جس کی وہ بہت عادی ہوچکی ہے۔ سیاست کے سرکاری سفر میں یہ موڑ ہر جماعت کے لیے مشکل ہوتا ہے مگر اس پارٹی کی پریشانی بہت بڑھ جاتی ہے جس کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا یقین نہ ہو۔ وہ وقت گزر گیا جب پیپلز پارٹی کے وزراء بے پرواہی سے کہا کرتے تھے کہ سندھ میں ہمارا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اگر سندھ کے لوگ ہمیں ووٹ نہیں دینگے تو آخر کس کو دینگے؟مگر اب وہ یہ بات نہیں کرسکتے۔ اب سندھ میں جس طرح اپنا ووٹ بینک رکھنے والے عمران خان کی طرف جا رہے ہیں۔ جس طرح پی پی مخالف وڈیروں کے غیر اعلانیہ اتحاد میں وجود میں آ رہے ہیں۔ جس طرح پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ کا متوسط طبقہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہے۔ اب جس طرح سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخالفت کا پارہ چڑھ رہا اس کو دیکھتے ہوئے نہ صرف پیپلز پارٹی کی قیادت بلکہ اس قیادت سے جڑے ہوئے وزراء ‘ ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی پریشانی میں مبتلا ہیں کہ جون کی جہنم جیسی گرمی میں جب وہ عوامی رابطوں کی مہم ان علاقوں میں شروع کریں گے جہاں لوگوں کو ’’روٹی؛ کپڑا اور مکان ‘‘ تو کیا پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے تو اس صورتحال میں عوام کا سامنا کس طرح کریں گے؟ اس وقت تک سندھ انفارمیشن کے اشتہارات اور دیگر سرکاری مراعات کے سبب سندھ کے میڈیا نے پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں نہیں لیا مگر پیپلز پارٹی کی یہ مصنوعی ہنی مون ختم ہونے والی ہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ کی بیوروکریسی کے بدلتے ہوئے تیور ابھی سے محسوس ہونے لگے ہیں۔ پی پی کو معلوم ہے کہ حکومت ختم ہونے کے بعد سندھ کی بیوروکریسی کا رویہ مزید بدل جائے گا۔ پیپلز پارٹی کو یہ بھی پتہ ہے کہ ان کے امیدوار پولیس کی مدد کے بغیر آسانی سے انتخابات نہیں جیت سکتے۔ اس لیے سندھ حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ وہ کسی طرح بھی سندھ کے آئی جی اے ڈے خواجہ سے جان چھڑالے۔ پیپلز پارٹی اس سلسلے میں ناکام ہونے کے بعد اپنے امکانی انجام سے بہت پریشان ہے۔ پیپلز پارٹی کے وڈیروں کے پاس صرف یہ امید تھی کہ آصف زرداری کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کو بوتل میں اتارنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اب جب اس امید کا سورج بھی غروب ہو رہا ہے تب ان کے لیے اس عوامی میدان میں جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں جس میدان کے حوالے انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ انہیں کس سے مقابلہ کرنا ہے؟ سیاست میں دوست سے زیادہ دشمن کا کردار اہم ہوتاہے۔ ہر سیاسی قوت اپنے لیے کسی دشمن کا انتخاب کرتی ہے اور اس کے خلاف بول کر عوام کی ہمدردی حاصل کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے اس وقت سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ سندھ کے انتخابی میدان میں کس کو نشانہ بنائے؟ عمران خان کا ابھرتا ہوا سورج دیکھ کر پیپلز پارٹی نے کپتان کے لیے اپنا لہجہ نرم کردیا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم اپنے بحران میں مبتلا ہے۔ جب کہ گزشتہ دس برسوں سے مسلم لیگ ن نے سندھ میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں کی۔ مسلم لیگ ن کے کارکنان اور لیڈران قیادت کو پکارتے پکارتے مایوس ہوکر کچھ پیپلز پارٹی میں چلے گئے اور کچھ خاموش ہوگئے۔ اگر وفاقی حکومت سندھ میں مسلم لیگ ن سے تعاون کرتی اور انہیں سرکاری وسائل کے ساتھ عوام کی برائے نام خدمت کرنے کا موقعہ بھی دیتی تو مسلم لیگ ن سندھ میں ایک چھوٹی سی قوت بن کر ابھرتی اور اس وقت پیپلز پارٹی اس کے خلاف بول کر ایک ماحول بنانے میں کامیاب ہوجاتی ۔ مگر مسلم لیگ ن سندھ میں وفاقی حکومت ہوتے ہوئے بھی یتیم رہی۔ اب اس یتیم سے سیاسی محاذ آرائی کا مظاہرہ پیپلز پارٹی کس طرح کر پائے گی۔ میاں نواز شریف کی پوری کوشش ہے کہ پنجاب کو اپنے ہاتھوں سے نہ جانے دیں۔ مسلم لیگ ن نے ابھی تک سندھ میں امیدواروں سے رابطے بھی نہیں بڑھائے۔ اس صورتحال میں پیپلز پارٹی میاں نواز شریف کے خلاف بول کر کس کی ہمدردیاں حاصل کرے گی؟ پیپلز پارٹی کے تھنک ٹینک کا یہ خیال تھا کہ وہ سندھ میں اپنی کارکردگی کا کارڈ کھیلے گی۔ اس لیے بلاول بھٹو نے صحت کے شعبے میں پیپلز پارٹی کے کارنامے گنوانے کی کوشش کی اور سندھ کے لوگوں نے ان کا نوٹس نہیں لیا مگر جب خورشید شاہ نے لوئر دیرمیں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ترقی کیا ہوتی ہے؟ آپ میرے ساتھ آئیں اور میں آپ کو سندھ میں ترقی دکھاؤں‘‘ تو اس بات پر سندھ کی سوشل میڈیا میں ایک آگ بھڑک اٹھی۔ اس لیے یہ بات تو طعنہ ہے کہ پیپلز پارٹی کارکردگی کی بنیاد پر اہلیان سندھ سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ جب اپنی کارکردگی صفر ہو تو پھر سیاست میں اس دشمن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جس کی مخالفت میں سن کر عوام کو ایک جذباتی سکون میسر ہو۔ کیا پیپلز پارٹی اس نوا ز شریف کے خلاف ڈھول پیٹ کر سندھ کے لوگوں سے ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی جو خود مظلوم بن کر دن رات چیخ رہا ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ سندھ میں میاں نواز شریف کے لیے کوئی احساس نہیں ہے۔ سندھ کے لوگ میاں نواز شریف کے نہ مخالف ہیں اور نہ حامی۔ سندھ میں نواز شریف غیر متعلق ہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی ان کی مخالفت کرکے کوئی ہمدردی حاصل نہیں کرپائے گی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے ہمیشہ شہیدوں کے نام پر ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اس بار اگر پیپلز پارٹی بینظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا دلوانے کی بات کرے گی تو اہلیان سندھ کے پاس اتنے سوالات ہیں کہ پیپلز پارٹی لاجواب ہوجائے گی۔ سندھ کے لوگوں نے دوبار پیپلز پارٹی کو ووٹ اس لیے بھی دیے کہ ان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی بینظیر کے قاتلوں کو سزا دے گی۔ اب سندھ کے لوگوں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بینظیر بھٹو کو بھول چکی ہے۔ پیپلز پارٹی نے بہت کوشش کی کہ وہ پرویز مشرف کے گلے میں بینظیر بھٹو قتل کیس ڈال کر ان کے خلاف محاذ تیار کریں مگر سندھ میں پرویز مشرف کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ایسی حالت میں پیپلز پارٹی حیران اور پریشان ہے کہ وہ اپنی سیاسی کمند کس پر پھینکے؟ کس کے خلاف وہ بات کرے اورسندھ کے عوام کی ہمدردی حاصل کرے؟ سندھ میںپیپلز پارٹی کے لیے یہ ایک المناک صورتحال ہے کہ سیاسی مخالفت کے میدان میں ان کے پاس کوئی مخالف نہیں۔ سندھ کے موجودہ مسائل کا ذمہ دار سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کو سمجھتے ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی اپنے خلاف میدان میں اترے گی؟ پیپلز پارٹی نے اس کارڈ کو استعمال کرنے کے بارے میں تھوڑی سی کوشش کی تھی۔ جب سندھ کے چیف منسٹر قائم علی شاہ تھے اور سندھ کے لوگ آصف زرداری کے سخت خلاف ہوچکے تھے تب بلاول بھٹو زرداری کو میدان میں لایا گیا اور انہوں نے دبے الفاظ میں سندھ کے عوام سے معذرت بھی کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ اب وہ پارٹی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں اور انہوں نے سندھ میں چیف منسٹر کی تبدیلی سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اب پیپلز پارٹی اپنی پالیسی تبدیل کرے گی۔ اس اعلان کے بعد اور تو کوئی تبدیلی نہیں آئی صرف سندھ کے وزراء نے اپنے دفاتر کی دیواروں پر بلاول بھٹو زرداری کی تصاویر آویزاں کیں اور ہر ملنے والے سے یہ کہتے رہے کہ اب چیئرمین صاحب نے پارٹی ٹیک اوور کرلی ہے۔ مگر آصف زرادری کچھ دیر تک بھی عملی سیاست سے کنارہ کش نہ رہ پائے اور سندھ میں چیف منسٹر کی تبدیلی صرف چہرے کی تبدیلی ثابت ہوئی۔ سندھ حکومت میں فریال تالپور کا حکم اسی طرح چلتا رہا۔ صرف ٹھٹہ سے اویس ٹپی بھاگ نکلے۔ اب ان کی جگہ آصف زرداری سے خاص قربت رکھنے والے علی حسن زرداری نے لی ہے۔ اب تو ٹھٹہ کے لوگ بھی اپنی ناراضگی کا اظہار ان الفاظ میں کر رہے ہیں کہ ’’کیا ہم پر مسلسل باہر کے لوگ مسلط کیے جائیں گے؟‘‘ پیپلز پارٹی سے سندھ کے لوگ پہلے ناراض تھے مگر اب ان میں غصے کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی کے پاس ایسی کوئی شخصیت نہیں جس کی وجہ سے لوگوں کے ہجوم اکٹھے ہوسکیں۔ بلاول بھٹو کے لیے سندھ کی خواتین میں ایک حد تک ہمدردی ہے مگر کیا وہ ہمدردی پیپلز پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کر پائے گی؟ اس سوال کا جواب پیپلز پارٹی کے پاس بھی نہیں ہے۔ وہ پیپلز پارٹی جس کے پاس سندھ کے سیاسی میدان میں اپنے علاوہ اور کوئی مخالف نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے یہ صورتحال اس طرح ہے جس طرح فیض احمد فیض نے کہا تھا: ؎ ’’ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی!!‘‘