درویش منش شاعر تو قدرے گمنام رہا مگر اس کے قلم سے نکلے ہوئے دل پذیر مصرعے کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ دل پذیر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی موجود ہیں۔ دل دل پاکستان کا قومی گیت ان کے لبوں اور لہو میں ضرور گونجتا رہا ہے۔ کون ایسا ہو گا جس نے یہ دل پذیر سادہ اور سلیس انداز میں کہا گیا قومی گیت گنگنایا نہ ہو۔ دل دل پاکستان جان جان پاکستان صرف ایک قومی نغمہ ہی نہیں بلکہ اپنی بے مثال مقبولیت اور پذیرائی کی بدولت میرے نزدیک تو پاکستان کا دوسرا غیر اعلانیہ‘ غیر سرکاری قومی ترانہ بن چکا ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل اور اب تیسری نسل کے ننھے منے بچے بھی دل دل پاکستان گاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میرے بیٹے نے بھی اپنے سکول میں پہلا قومی گیت یہی سیکھا تھا۔ اس طلسماتی قومی گیت کے خالق درویشانہ زندگی گزار کر بالآخر خدا کے حضور حاضر ہو گئے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر نثار ناسک کو صرف اسی ایک قومی نغمے کے حوالے سے جانتے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد جب ان کے بارے میں ان کے کام کے بارے میں معلومات سامنے آئیں تو خود مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ شاعر نے کیسے کیسے زبان زدعام ہو جانے والے اشعار کہے اور پھر یہ دل دل پاکستان جیسا قومی گیت‘ اس کی مقبولیت کا ریکارڈ شاید ہی کوئی توڑ سکے۔ لیکن نثار ناسک کی ذات میں درویشی اور بے نیازی تھی۔ انہیں شہرت کا ایسا لپکا نہیں تھا جیسا ہم بیشتر ادیبوں اور شاعروں میں دیکھتے ہیں۔ اب تو فیس بک ہی کافی ہے اپنی منڈلی سجانے کے لئے ہمہ وقت بس داد اور پذیرائی کے ماحول میں اپنی انا کی تسکین کرنا۔ اور لوگوں کے حواسوں پر سوار رہنا اب ایسا مشکل نہیں رہا۔ بس فیس بک کا اکائونٹ بنائیں۔ اگر خود ہینڈل کرنا نہیں آتا تو اپنے کسی بچے‘ پوتے پوتی سے یہ سیکھ لیجیے یا ان کی مدد سے اپنی پوسٹیں لگاتے رہیے۔ نثار ناسک کی رحلت کی خبر آئی تو حیرت سی ہوئی کہ کیا حیات تھے۔ اتنی خاموشی سے حیات بسر کر رہے تھے کہ موجودگی کا اندازہ ہی نہ ہوتا تھا اور یہ ایک ایسا شاعر جس کے لکھے ہوئے بول بلا شبہ ایک ضرب المثل بن گئے۔ پرائڈ آف پرفارمنس تک نہیں ملا۔ ایسے درویش انسان کو جو کہ ہر لحاظ سے ان کا حق تھا اور ہم جیسے بھی تو ان کے چلے جانے کے بعد ان کو یاد کر رہے ہیں۔ اس پر افسوس اور شرمندگی ہے! خدا ان کو غریق رحمت کرے۔ آمین۔ان کے بارے میں زیادہ معلومات سینئر صحافی فاروق اقدس کی ایک پوسٹ سے ملیں جس میں انہوں نے نثار ناسک کی ایک نظم بھی پڑھی چند مصرعے میں بھی یہاں کوٹ کروں گی۔ میں جا رہا ہوں… کہ جتنے امکان تھے ظلم سہنے کے سہہ چکا ہوں میں جا رہا ہوں کہ جتنے امکان تھے جھوٹ کہنے کے کہہ چکا ہوں نثار ناسک کے دو مقبول ترین شعر دیکھیے جو آپ نے بھی کئی بار سنے ہوں گے: میں سازشوں میں گھرا ایک یتیم شہزادہ یہیں کہیں کوئی خنجر میری تلاش میں ہے اور یہ شعر ضرب المثل کی طرح کوٹ ہوتا رہا ماں مجھے بھی صورت موسیٰ بہادے نہر میں قتل طفلاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں! 1987ء میں پہلی بار دل دل پاکستان کا گیت وائٹل سائنز نے گایا۔ جنید جمشید نے اسے اپنی منفرد آواز کے آہنگ میں ڈھالا تو راتوں رات اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ جنید جمشید بھی۔ مقبولیت ،شہرت اور تبدیلی۔کی ایک مثالی زندگی گزار کر رب کے حضور حاضر ہو گئے ہیں۔ بے شک ہم سب کو وہیں لوٹ کر جانا ہے۔ نثار ناسک تو سرخرو ہوئے۔ مفاد پرستی ‘ بددیانتی اور حرص و ہوس کی اس دنیا میں کیسی بے نیازی اور درویشی کی زندگی گزار کر گئے۔ انسان کا ربط اپنے رب اور زندگی کی اصل حقیقتوں سے استوار ہو تو بھی وہ اپنے مزاج میں ایسا فقیرانہ ہو سکتا ہے۔ ورنہ تو یہاں سوائے حرص و ہوس کا وہ زور ہے کہ خدا پناہ!غریب ملک کے امیر ترین نمائندوں کے اثاثے آج بھی اخبار میں چھپے ہیں۔ اربوں کھربوں پتی ہیں لیکن ہوس ہے کہ ختم نہیں ہو رہی۔ زرداریوں اور شریفوں نے جائیدادوں ‘ اثاثوں اور بنک بیلنسوں کے مائونٹ ایورسٹ کھڑے کر لیے ہیں۔ لیکن ہوس ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتی۔ عدالتیں ‘ جیلیں‘ نیب کے کٹہرے‘ بھی احساس زیاں نہیں دلاتے کہ اس چار روزہ زندگی میں اتنا مال اکٹھا کر کے کیا کیا کھو دیا ہے۔ انہی ہوس کاروں کی لوٹ مار نے ستر فیصد پاکستانیوں کے حق پر وہ ڈاکا ڈالا کہ آج ہر ایک پاکستانی پریشان حال ہے۔ دل دل پاکستان سے پریشان دل پاکستان کی کہانی ستر برسوں سے وہی ہے۔ اشرافیہ ‘ اہل اقتدار اور اہل اختیار کے دن تو بدلتے بھی ہیں اور سنورتے بھی ہیں لیکن ایک عام پاکستانی آج بھی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے۔ہراساں اور آزردہ ہے! آئیے مل کر قومی نغمہ گاتے ہیں: دل دل پاکستان! پریشان دل پاکستان!