بے ربط کر کے رکھ دیے اس نے حواس بھی جتنا وہ دور لگتا ہے اتنا ہے پاس بھی اک نخشب خیال چڑھائے گا کوئی چاند کچھ کچھ میں خوش ہوا ہوں تو کچھ کچھ اداس بھی آپ پریشان نہ ہوں۔ یہ حواس بندے کے اپنے بس میں تھوڑے ہوتے ہیں۔ وہی جو کسی نے کہا تھا کہ کسی کے آنے سے ساقی کے ایسے ہوش اڑے۔ شراب سیخ پہ ڈال کباب شیشے میں۔ مولانا روم کی مثنوی میں بھی تو پڑھا تھا کہ کسی کو ایک کی دو بوتلیں نظر آتی تھیں۔ اسے یقین دلانے کے لیے بوتل توڑنا پڑی تو دوسری خود ہی غائب ہوگئی۔ ویسے بھی انسان کے حواس کی ایک حد ہے۔ ایک حد سے آگے انسان نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے بلکہ ہمارے ملک میں تو وہ کچھ بھی ہو جاتا ہے کہ انسان اس سے آگے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ آئے روز وہ چاند بھی کوئی نیا ہی چڑھاتے ہیں۔ چلتے چلتے میں آپ کو نخشب کے بارے میں بتاتا جائوں کہ آپ سپنس میں ہی نہ پڑے رہیں۔ یہ ایک جادو گر تھا جس نے جادو کے زور پر ایک نقلی چاند چڑھایا تھا جو کچھ دیر افق پر رہا پھر ایک کنویں میں ڈوب گیا۔ خیر جعلی خبر بھی تو سراب کی طرح ہوتی ہے۔ آپ کی طرح میں بھی تو دیکھ رہا ہوں کہ میرے ملک میں کیا ہورہا ہے۔ سب سے پہلے میں ہی آپ پرعلمی دھاک بٹھانے کے لیے نوم چومسکی کی پرمغز بات کوٹ کردوں کہ غریب ملک نام کی دنیا میں کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ جب کوئی نظام ملک کے وسائل کو صحیح استعمال کرنے میں ناکام ہو جائے اس کو غربت کہتے ہیں۔ کمال کی بات ہے یہ مگر ہم اس غربت کو بدقسمتی کہتے ہیں۔ وہی جو کسی نے کہا تھا کہ اگر تم نے کچھ نہ بدلا تو کچھ بھی نہیں بدلے گا تمہاری زندگی میں ایک اور مزیدار بات کسی ستم ظریف نے لکھ بھیجی کہ سڑک پر تو حادثہ ہوا تھا‘ سانحہ عدالت میں ہوا۔ بہرحال فصل فصل سراب تو ہیں: اختتام سفر کھلا ہم پر وسعت دشت تھی سراب کے ساتھ ایک نابغہ اٹھتا ہے تو کہتا ہے کالج اور یونیورسٹیاں کھولنا حکومت کا دلیرانہ کام ہے۔ یہ فقرہ اگرحس مزاح کے تحت ہو تا تو میں بھی داد دیتا مگر یہ فقرہ بڑی سنجیدگی سے کہا گیا۔ بھائی جان آپ چاہتے کیا ہیں۔ الحمد للہ پاکستان میں اللہ کے فضل سے سب کچھ نارمل ہو چکا ہے۔ کیا بازار‘ مارکیٹس اور گلی کوچے بلکہ پارک بھی بچوں کی آوازوں سے گونج نہیں رہے ہیں۔ زندگی کی رونقیں لوٹ آئی ہیں تو پھر سکول اور کالجوں کے حوالے سے کیا مسئلہ ہے۔ ہاں آپ ایس او پیز کا خیال ر کھیں۔ ان کا پہلے ہی تعلیمی نقصان ہو چکا ہے۔ خیر میں بات کررہا تھا وسائل کی کہ نوم چومسکی نے کتنی بڑی حقیقت بیان کی ہے کہ غریب ملکوں میں وسائل ٹھیک طرح سے استعمال نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں تو وسائل اوپر ہی اوپر استعمال ہوتے ہیں اور غریبوں کے لیے مسائل چھوڑ دیئے جاتے ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ ہی وہ اشرافیہ یا بدمعاشیہ ہے جو وسائل کھا جاتی ہے۔ اس بات کا خیال مجھے اس لیے آیا کہ شبلی فراز صاحب نے کہا ہے کہ وہ سندھ حکومت پر یقین نہیں کرتے اور براہ راست پیسے نہیں دیں گے۔ اعلانات کا چھوڑیے کہ وہ اعلانات ہی ہوتے ہیں۔ ظاہر اورباطن ضروری نہیں کہ ایک ہو۔ چلیے ہمارے دوست تیمور حسن کا ایک شعر پہلے پڑھ لیں: اے قہقہے بکھیرنے والے تو خوش بھی ہے ہنسنے کی بات چھوڑ کے ہنستا تو میں بھی ہوں شبلی فراز کی بات غلط نہیں ہے کہ ہم سب ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے اور ہم پر باہر والے بالکل بھی ٹرسٹ نہیں کرتے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ زرداری صاحب کے زمانے میں سعودیہ نے نقد پیسوں کی بجائے وہاں سے کھجوریں اورکمبل بھیجے تھے اور سب نے وہ کھجوریں اور کمبل مارکیٹوں میں بکتے دیکھتے۔ جس ملک کا وزیراعظم ترکی کی خاتون اول کا خیرات میں دیا گیا ہار اپنی بیوی کے گلے میں ڈال دے تو باقی کیا بچتا ہے۔ یہ بات صرف زرداری کے حوالے سے ہی نہیں باقی ہمارے رہنمائوں نے بھی ملکی وسائل لوٹ کر باہر اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنائیں اور سوئس بینک بھرے۔ کوئی بھی اس لوٹ مار سے ماورا نہیں۔ ترجیع اور وہ بھی ملکی ترجیع کس کے حصے میں آتی ہے: دکھ تو یہ ہے اس نے ہی لوٹا ہے ہم کو جس کے لیے گھر بار لٹایا جا سکتا تھا افسوس ہوںتاکہ آخر کھانے کی بھی حد ہے آخر کتنا کھایا جاسکتا ہے۔ ہمارے لوگوں کو تو شاید یہ بیماری ہے اور تو اور عجلت پسند خزانہ ہی اٹھا کرگھر لے جاتے ہیں۔ بے نامی اکائونٹس جیسا معاملہ کس قدر شرمناک ہے۔ یہ چائنہ کٹنگ اور بھتہ خوری‘ کیسے کیسے روگ ہیں جو ہمیں گھن کی طرح چاٹ گئے ۔ ساتھ ہی شبلی فراز نے گرہ لگائی کہ ن لیگ کا وتیرہ جھوٹ بولنا ہے۔ سبحان اللہ۔ کسی سچے کا بھی تو ہمیں بتائیں۔ انجم ذرا تو دیکھ تو ناصح کی شوخیاں پہلو بدل کے مجھ سے بھی پہلے بدل گیا آپ بھی کہیں گے کہ میں ایسے ہی دل کے پھپھولے پھوڑنے بیٹھ گیا۔ کیا کروں دل دکھتا ہے۔ ابھی معروف فنکار ڈاکٹر اصغر یزدانی نے ایک وڈیو بھیجی کہ اس میں اگرچہ نثری جملے تھے مگر ایسے لگتا تھا کہ سچے جذبے لفظوں میں ڈھل گئے ہیں۔ واقعتاً سچ اپنی ہر صورت میں خوبصورت ہوتا ہے۔ اسے کسی نظم اور بناوٹ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ کچھ اس طرح کے چند جملے تھے۔ خدا ناراض ہے شاہد‘ ابھی تو جھوٹ بکتا ہے‘ بازاروں میں‘ اداروں میں‘ سفارش ہو تو کام ہو گا اشاروں میں‘ ابھی تو سو روپے کی چیز بکتی ہے ہزاروں میں‘ ‘ کبھی عورت کو راہ چلتے ہوئے رنڈی بتاتے ہیں‘ کبھی ہم بے زبانوں کو ستاتے ہیں رلاتے ہیں‘ گرا کے جھونپڑی مسکیں کی کوٹھی بناتے ہیں‘ ابھی بے پردگی اور بے حیائی کے گناہ باقی ہیں‘ ابھی معصوم بچوں سے درندوں کے زنا باقی ہیں۔ کوئی بقا کی جنگ لڑتا ہے‘ کوئی ہے محو عیاشی ہے‘ جہاں خود عالم دیں مانگے معافی کمنیوں سے۔ جنہوں نے دی نہیں اجرت غریبوں کو تمہیں معلوم ہے جب بے گناہوں کا خون بہتا ہے تو عرش ہلتا ہے جو بچہ ماں کو دفنائے وہ بچہ پھر نہیں ہنستا‘ ابھی بھی ڈر نہیں لگتا۔ یہ قبرستان تمہیں اپنا گھر نہیں لگتا۔ کوئی اک حادثہ ہوگا خدا سب کچھ دکھاوے گا۔ اے دھرتی کے خدا۔ چلو رب کو منالیں۔ گر کر سجدے میں ہم۔ ہے کوئی مصلحت اس میں پوشیدہ‘ راز ہے شاید۔ خدا ناراض ہے شاید۔ یہ ایک احساس دل کا نوحہ ہے شاعری نہیں ہے۔ شاید شاعری ہوتی تو اتنی متاثر کن نہ ہوتی۔ لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم تیرے معیار تک آتے آتے