ساہیوال کے اندوہناک ‘ دلخراش سانحہ پر عمران خان کی ٹوئٹس پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں نوشیرواں عادل اور شیر شاہ سوری کی حکمرانی نہ سہی‘ کوئی درد دل رکھنے والے انسان برسر اقتدار ہے۔ تازہ ترین ٹویٹ میں عمران خان نے اعتراف کیا کہ عوام کا غم و غصہ قابل فہم اور جائز ہے اور وہ قطر سے واپسی پر نہ صرف پنجاب میں پولیس ڈھانچے کی اصلاح کے لئے اقدامات کریں گے بلکہ قانون کے مطابق قاتلوں کو سزا بھی دلائیں گے۔ سوال مگر عمران خان کی نیک نیتی‘ عزم صمیم اور عوام دوستی پر نہیں اٹھ رہا بلکہ پنجاب پولیس کی کارگزاری اور صوبائی حکومت کا انداز کار زیر بحث ہے۔ قتل عمد کا یہ واقعہ ہوا تو سی ٹی ڈی نے پریس ریلیز کے ذریعے عوام کو اطلاع دی کہ فورس کا دہشت گردوں سے مقابلہ ہوا اور ساتھیوں کی فائرنگ سے چار دہشت گرد ہلاک ہو گئے جن میں دو خواتین شامل تھیں۔ صوبائی حکومت نے آنکھیں بند کر کے صاد کیا‘ میڈیا پر شور مچا اور درندہ صفت اہلکاروں کی فائرنگ سے بچ جانے والے تین معصوم بچوں کے علاوہ عینی شاہدوں نے واردات کا بھانڈا پھوڑا تووزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے مقتولوں کو بے گناہ قرار دیدیا۔ وہ ساہیوال بھی عمران خان کی ہدایت پر روانہ ہوئے اور کند ذہن مشیروں نے انہیں صدمے سے دو چار یتیم و بے آسرا بچوں کو پھولوں کا گلدستہ پیش کرنے کی ترغیب دی‘ ڈپٹی کمشنر ساہیوال نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی تردید کی۔ عمران خان کی مسلسل ٹوئٹس ‘ عثمان بزدار کی ساہیوال میں یتیم بچوں سے ملاقات اور مزاج پرسی کے علاوہ جے آئی ٹی کی تشکیل سے عوام قدرے مطمئن ہوئے اور انہیں احساس ہونے لگا کہ کوئی قاتل سزا سے بچ نہیں پائے گا مگر چار صوبائی وزیروں نے وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی میں پریس کانفرنس کر کے عمران خان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ یوں لگا کہ عمران خان خواہ کچھ کہیں پنجاب حکومت معلوم نہیں کس مجبوری کے تحت قاتل اہلکاروں کے ساتھ ہے۔ راجہ بشارت جب میڈیا کے سامنے سی ٹی ڈی کا آموختہ رٹو طوطے کی طرح دہرا رہے تھے تو مجھے ماضی کے ایسے ہی ظالمانہ اقدامات کا جواز پیش کرنے والے کئی وزیر‘ مشیر بالخصوص رانا ثناء اللہ یاد آ ئے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد انہوں نے بھی چودہ شہیدوں بالخصوص خواتین تنزیلہ اور شازیہ کو دہشت گرد جبکہ پولیس کو بے قصور قرار دیا تھا مگر باقر نجفی رپورٹ نے اس جھوٹ کا پردہ چاک کیا۔ جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد دانش مندی کا تقاضا یہ تھا کہ آئی جی پنجاب اور سی ٹی ڈی کے انچارج رائے طاہر کو وقتی طور پر اپنے مناصب سے الگ کر کے جے آئی ٹی کو آزادانہ تحقیقات اور اہلکاروں کو بے خوف و خطر بیان ریکارڈ کرانے کا موقع فراہم کیا جاتا۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا مگر اب وہ سی ٹی ڈی کے سربراہ کو بدلنے پر تیار نہیں جو چوبیس گھنٹے کے دوران تین بار موقف بدل کر جے آئی ٹی ‘عوام اور حکومت کو گمراہ کرنے کے درپے ہے ۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ چار وزیر میڈیا کے سامنے سی ٹی ڈی کے موقف کا ڈھٹائی سے دفاع کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت پنجاب کے اہم وزیروں کی طرف سے سی ٹی ڈی کے موقف کی تائید کے بعد جے آئی ٹی کی رپورٹ کی کیا حیثیت ہو گی؟۔ وزیروں نے جے آئی ٹی رپورٹ کا انتظار کیوں نہ کیا اور انہیں مقتول ذیشان کو دہشت گرد قرار دینے کی جلدی کیوں تھی؟۔ چار وزراء کی پریس کانفرنس وہی غلطی ہے‘ جو 2014ء میں میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں سے سرزد ہوئی۔ اگر سی ٹی ڈی اور صوبائی وزیروں کا یہ موقف حرف بحرف درست مان لیا جائے کہ ذیشان واقعی دہشت گرد یا دہشت گردوں کا سہولت کار تھا تب بھی اسے لاہور میں گھر سے گرفتارنہ کرنے کی وجہ کیا تھی؟۔ جبکہ راجہ بشارت نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس کے گھر اور گاڑی کی نگرانی کی جا رہی تھی مخبر اور کیمروں نے اگر ٹول پلازہ پر گاڑی اور ذیشان کی موجودگی کی اطلاع دی تو یہ کیوں نہیں بتایا کہ اس میں شادی کے لئے بوریوالا جانے والی فیملی بھی چار بچوں سمیت سوار ہے‘ اسلامی اور عالمی قوانین کے مطابق ایک بے گناہ شخص کی جان بچانے کے لئے اگر ننانوے گناہگار بھی سزا سے بچ جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں مگر یہاں مشکوک اطلاع پر ایک مبینہ مجرم کی آڑ میں چار بے گناہوں کو دن دیہاڑے تین معصوم بچوں کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور کسی کو رحم نہ آیا۔ قاتل اہلکاروں کوبچانے کے لئے سی ٹی ڈی اور پنجاب حکومت نے داعش کی لاہور میں موجودگی ثابت کی اور یہ بھی نہ سوچا کہ عالمی سطح پر اس کے کیا اثرات ہوں گے جبکہ ہم پاکستان میں القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے خاتمے کا دعویٰ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مشکوک گاڑی یا ایک مشکوک شخص کے بارے میں معلومات ملنے پر جس احمقانہ انداز میں آپریشن ہوا ‘اس سے نہ صرف سابقہ اپریشنوں کی ساکھ متاثر ہوئی‘بلکہ حکومت اور پنجاب پولیس کے بارے میں بھی منفی تاثر ابھرا اور مخالفین سانحہ ماڈل ٹائون سے مماثلت دے کر عمران خان‘ عثمان بزدار اور تحریک انصاف کے پرخچے اڑانے لگے۔ فوج اور آئی ایس آئی سے بغض و عناد رکھنے والوں نے خوب بے پرکی اڑائی اور اس کے ڈانڈے کئی دیگر واقعات سے ملائے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد اگر پنجاب حکومت قصور وار اہلکاروں اور غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف سخت کارروائی کرتی اور لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے تو ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ممکن ہے۔ یہ بہترین موقع ہے کہ پنجاب پولیس کی اصلاح کے لئے فوری ‘ موثر اور انقلابی اقدامات کر لئے جائیں اور پنجاب کی ڈھیلی ڈھالی حکومت کے حوالے سے پایا جانے والا عمومی تاثر درست کرنے کی تدبیر ہو‘ اس پہلو پر بھی غور کیا جائے کہ کہیں یہ واقعہ تحریک انصاف کی حکومت اور آپریشن ردالفساد کے خلاف سازش تو نہیں؟۔اس شر میں خیر کا پوشیدہ پہلو یہ ہے کہ حکومت اسے نظام اور اداروں میں موجود دیرینہ مہلک خرابیوں کی اصلاح کا قدرتی موقع تصور کرے اور بھر پور فائدہ اٹھائے۔ اعظم سواتی کی شکائت پر اسلام آباد اور پنجاب میں اہم حکومتی عہدیداروں کی فرمائش پر پنجاب کا آئی جی تبدیل کرنے والی حکومت کو اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ ناصر درانی کا استعفیٰ منظور کر کے اس نے جو غلطی کی وہ اس کا خمیازہ تو نہیں بھگت رہی۔ عمران خان نے پولیس اور بیورو کریسی کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر پنجاب کی حد تک یہ وعدہ ایفا نہیں ہوا‘ تقرر و تبادلوں میں سفارش‘ اقربا پروری اور کسی نہ کسی حد تک بدعنوانی کا عنصر موجود ہے اور پولیس کی کارکردگی بہتر ہونے کے آثار معدوم ہیں ۔اگر اپنے وعدہ کے مطابق عمران خان قطر سے واپسی پر کسی سیاسی مصلحت اور اندورونی و بیرونی دبائوکی پروا کئے بغیر پنجاب میں وہ کچھ کر گزرتے ہیں جو عوام کی خواہش اور عدل و انصاف کا تقاضا ہے تو مخالفین کی زبانیں بند ہوں گی اور عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو گا لیکن اگر انہوں نے بھی وزیر اعلیٰ بزدار اور چار وزیروں کی طرح’’رپورٹ پٹواری مفصل ہے‘‘ پر اکتفا کیا‘ سرکاری افسروں کی اطلاعات اور خوشامدی مشیروں کی رپورٹوں کو سچ جانا اور کوئی انقلابی قدم نہ اٹھایا تو سانحہ ساہیوال ایک ایسا بدنما داغ ہے جو عمران خان‘ تحریک انصاف اور عثمان بزدار کی حکمرانی کے چہرے سے کبھی مٹ نہیں پائے گا۔ عوام کو آج جسٹس (ر)ثاقب نثار شدت سے یاد آ رہے ہیں۔ جو ریاست اور عوام کے بارے میں سوچنے کے عادی تھے اور ظالموں کے بجائے مظلوموں کی سنتے تھے۔ عمران خان نے قوم اور ریاستی اداروں سے رحم دلی کا تقاضا کیا تھا۔ پولیس نے بے رحمی کی انتہا کر دی‘ قوم اب انصاف چاہتی ہے۔بے رحم احتساب!